چل چلئے کڑک دے میلے
آج کی دنیا حقائق و دلائل کی دنیا ہے۔ پھر بھی ہر انسانی حافظے میں یادوں کا تسلسل ایک الگ معانی رکھتا ہے۔ کسی نے کہا محمد لطیف اور آپ کے ذہن میں ایک صاف ستھرے، میانہ قد آدمی کی تصویر اُبھر آئی۔ آواز آئی موٹر کار اور دماغ میں فر نٹ ہینڈل سے سٹارٹ ہونے والی سلیٹی رنگ کی گاڑی گھوم گئی۔ دو روز ہوئے عالمی یوم سیاحت پر اِس کالم نویس کو اپنے خواب و خیال میں نہ تو پیرس کا تاریخی ایفل ٹاور دکھائی دیا نہ نئے دور کا برج الخلیفہ۔ اگر یاد آیا تو بس ہندوستانی لکھاری بلونت سنگھ کا ناول ’کالے کوس‘۔ اِس لئے نہیں کہ مصنف نے تقسیم سے پہلے متحدہ پنجاب کے مخلوط دیہی تمدن کا کیف آگیں نقشہ کھینچا ہے۔ جی نہیں، مجھے تو یہ ناول یوں یاد آیا کہ برسوں پہلے اِس کا جو ایڈیشن ’نیا ادارہ‘ لاہور نے شائع کیا اُس کے اندرونی ٹائیٹل پہ میری دل پسند پنجابی بولی درج تھی:
چل چلئے کڑک دے میلے
مُنڈا تیرا مَیں چک لوؤوں
بولی کی صفت یہ ہے کہ دیکھنے میں دو سادہ سے مصرعے مگر اِن کے بیچوں بیچ دل و دماغ کی بے انت کیفیتیں۔ آج کالم کے عنوان میں نامانوس لفظ ایک ہی ہے اور وہ کسی ایسی جگہ کا نام جس سے کوئی میلہ موسوم ہو گیا۔ لاہور کا معروف و مقبول میلہ چراغاں بھی تو اصل میں مادھو لال حسین کا عرس تھا، جو عوامی جشن کا روپ دھار گیا۔ میرے گھر کے قریب پپو کے ڈھول کی سُرتیاں آج بھی شاہ جمال کے ہفتہ وار میلے کی منفرد شان سمجھی جاتی ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد کے نواح میں امام بری، قصور میں بابا بلھے شاہ اور ہمارے آبائی شہر سیالکوٹ میں امام علی الحق کے مزار کی رونقیں۔ یومِ سیاحت پر رہ رہ کے یہ خیال بھی آ رہا ہے کہ یہ میلے اپنی جگہ، مگر ’مُنڈا تیرا مَیں چک لوؤں‘ میں نسائی بے ساختہ پن کا جو معصومانہ اظہار ہے، کوئی کروڑ روپیہ دے تو بھی اسے بدلنے نہ دوں۔
اب ایسے ماحول میں جہاں آج کل آزادی ء نسواں یا فیمن ازم کا چرچا رہتا ہے، ہر جمعرات بیرون دہلی دروازہ کے اُس میدان کا ذکر عجیب لگے گا جسے میرے بچپن کے حوالے سے پچھلی صدی کا ایمپوریم یا پیکیجز مال سمجھنا چاہئیے۔ خاص بات یہ کہ نصف صدی پہلے کے اِس نیم تمدنی اور نیم تجارتی میلے میں بھی خواتین کی حاضری نمایاں ہوتی۔ فرق اگر تھا تو مالِ تجارت یا آج کی اصطلاح میں ’مرچنڈائز‘ کی نوعیت کا۔ یہ نہیں کہ انار کلی، لبرٹی مارکیٹ یا فورٹریس کی طرح ریڈی میڈ ملبوسات کی ہر دکان پہ لکھا ہو ’نئی مردانہ اور زنانہ ورائٹی‘۔ جمعرات کے میلے میں تو بس یہ تھا (اور دور دراز قصبات میں اب بھی ہے) کہ خاتونِ خانہ گھر سے نکلیِں، مُنڈا تیرا مَیں چک لوٗوں والی کسی سہیلی کو ساتھ لیا اور قریبی مزار کے نواح میں گجراتی پیالے، مٹی کی ہانڈیاں اور کُنالیاں خریدنے میں مشغول ہو گئیں۔
نوزائیدہ سیاسی لیڈروں کی طرح ذرا تمکنت کا لہجہ اپناؤں تو میرا یہ مشاہدہ عالمی یومِ سیاحت کے حوالے سے بھی دور رس نتائج کا حامل سمجھا جا سکتا ہے۔ اِس لئے کہ نیوکلئیر فیملی کے جڑ پکڑنے سے پہلے مشترکہ خاندانوں میں پلے بڑھے مجھ جیسے بچوں کا تصورِ سیاحت دادی کی انگلی تھام کر اِسی ویکلی انفوٹینمنٹ کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ اِس میں یہ تجربہ بھی شامل کر لیں کہ ایک بار ’عینک والی تائی‘ کے ہمراہ دہلی دروازہ سے ہفتہ وار شاپنگ کر کے نانا کے گھر مصری شاہ واپس آتے ہوئے ایک تیز سیٹی کی آواز گونجی اور اچانک سڑکوں پہ فوجی جیپیں گشت کرنے لگیں۔ تائی مجھے گود میں لئے ایک دکان کے تختے تلے گھس گئیں، جس کے نیچے نالہ تھا۔ تختوں کے نیچے نیچے سے ہو کر گھر پہنچ تو گئے۔ پھر بھی خاصی تحقیق کے باوجود اِس کرفیو آرڈر کا (تب لوگ ’کرفیو آرڈر‘ ہی کہا کرتے) زمانی سیاق و سباق تا حال سمجھ میں نہیں آیا۔ میرے دوست عارف وقار کا خیال ہے کہ یہ خاکسار تحریک کی سرکوبی کا کوئی معرکہ ہو سکتا ہے۔
سیر و سیاحت کا یہ دائرہ اسکول اور کالج میں پہنچ کر وسیع تر تو ہوا مگر اِس نقشہ کے اہم مقامات وسطی پنجاب کے شہری مراکز ہی ہیں۔ بہت دوڑ لگائی تو دو ایک مرتبہ گرمیوں کی چھٹیوں میں اُس وقت کے عبوری دارالحکومت راولپنڈی سے روانہ ہوئے اور مری یا ایبٹ آباد کا چکر لگا آئے۔ وگرنہ ہماری عالمی سیاحت کا تصور یہی تھا کہ اِدھر دو ماہ کے لئے اسکول بند ہوا، اُدھر سارے بہن بھائی امی کی قیادت میں واہ کینٹ سے نکل کھڑے ہوئے۔ اول نمبر پہ سیالکوٹ جہاں ریلوے اسٹیشن پہ دادا بے تابی کے عالم میں ٹہل رہے ہوتے۔ یہاں کچھ دن رہ کر لاہور، اِس فرق کے ساتھ کہ اترتے ہی ملاقات ماموں لطیف سے ہوتی جن سے صاف ستھرے میانہ قد آدمی کا تصور جڑا ہوا ہے۔ پھر ریل پہ اُس زمانے کا گوجرانوالہ ٹاؤن جہاں امی کی ننہال قیامِ پاکستان کی طفیل کاروں کی مالک تو بن چکی تھی، لیکن منزلِ مقصود تک اکثر تانگے پہ پہنچنا ہی یاد رہا۔
تصور فرمائیں کہ اِس بیک گراؤنڈ کا پینڈو اردو میڈیم جب پہلی دفعہ ولایت اُترا تو اُس کے تجربے اور مشاہدے میں کوئی نہ کوئی انقلابی تبدیلی تو واقع ہوئی ہو گی۔ آپ سُن کر حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ کوئی قابلِ ذکر تبدیلی واقع نہ ہوئی۔ ہاں، دو ایک لطائف تو لاہور سے کراچی پہنچنے پر اُسی ہوٹل میٹروپول میں سرزد ہو گئے تھے جسے فی الوقت بچوں اور بزرگوں کی تفریح گاہ میں تبدیل کرنے پہ غور ہو رہا ہے۔ اصل لطیفہ تو ہوٹل والوں کی ’ویک اپ‘ کال میں تاخیر ہے جو ساڑھے چار بجے صبح کی بجائے ساڑھے پانچ بجے موصول ہوئی۔ تب تک سات بجے کی فلائیٹ کے لئے مسافروں کو ائرپورٹ لے جانے والے ویگن روانہ ہو چکی تھی۔ تیار ہو کر بھاگم بھاگ نیچے اترا تو ایک نا آشنا سندھی چہرے نے کہا ’مَیں اپنے دوست کو چھوڑنے جا رہا ہوں۔ ہماری کا ر میں آ جائیے۔ یوں یہ سفر وسیلہء ظفر بن گیا۔
یومِ سیاحت کی اہمیت سے قطع نظر، ہر سفر وسیلہء ظفر نہیں ہوا کرتا۔ اگر ہوتا تو میری ایک عزیزہ طے شدہ بین الاقوامی منزل کی جگہ کسی اور مقام پہ نہ پہنچ جاتیں۔ موصوفہ کے بڑے بھائی لندن میں ہماری قومی ائر لائن کے ایک معقول عہدے پہ فائز تھے، اِس لئے بہن کی سعودی عرب روانگی کی خاطر انہیں ساتھ لے کر ہیتھرو پہنچے اور کاؤنٹر پہ جا کر پی آئی اے والوں سے کہا کہ بورڈنگ پاس دے دیں۔ تعمیل ہوئی اور پرواز شیڈیول کے مطابق اپنی مقررہ جگہ پہ جا پہنچی۔ ایک گھنٹہ گزرا، دو گھنٹے گزرے، جب تین گھنٹے ہو گئے تو خاتون سخت حیران کہ باجی، جو سعودی شہر دہران میں ڈاکٹر ہیں، لینے کے لئے کیوں نہیں آئیں۔ قومی ائر لائن کے ایک پاکستانی ملازم نے مسافر کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پوچھ لیا کہ کیا مسئلہ ہے۔ اِس کے بعد جو مکالمہ ہوا، اُس پہ کاتب و مکتوب الیہ دونوں حیران۔
ظاہر ہے ائر لائن کے ملازم نے رونے کی وجہ جاننا چاہی۔ جواب ملا ’باجی مجھے لینے کے لئے آنے والی تھیں، وہ نہیں آئیں‘۔ ’باجی رہتی کہاں رہتی؟‘ ’دہران میں رہتی ہیں‘۔ ’لیکن دہران تو سعودی عرب میں ہے‘۔ ’جی ہاں، مجھے سعودی عرب ہی جانا تھا‘۔ ’لیکن، بی بی، یہ تو استنبول ہے۔۔۔ ترکی کا شہر استنبول‘۔ اب جو باہمی معلومات کا تبادلہ ہوا تو پتا چلا کہ اپنی ہی ائر لائن کے ایک افسر اپنی بھولی بھالی بہن کو ہیتھرو کے جس کاؤنٹر پہ چھوڑ گئے وہاں سے دہران اور استنبول دونوں کے لئے بیک وقت بورڈنگ پاس جاری ہو رہے تھے۔ کسی سے چُوک ہوئی اور پھر وہی کہ ’مَیں سرابِ دشت سے نکلا تو سمتیں کھو گئیں‘۔
یہ چوتھائی صدی پہلے کا واقعہ ہے جب سکیورٹی اتنی سخت نہیں تھی اور منزلِ مقصود کے بارے میں مغالطہ ہو سکتا تھا۔ سبق یہ ملا کہ ہر کام تحریکِ انصاف کی نصیحت کے مطابق، قاعدہ قانون کے تحت کریں، واقفیت کے زور پہ نہیں۔
مغربی ممالک میں کم و بیش ہر آدمی جہاں گردی کا خواب دیکھتا رہتا ہے۔ کسی کو وراثت میں پیسہ ملے، لاٹری نکلے یا کوئی انعامی رقم ہاتھ لگ جائے، یہی کہتا ہے کہ دنیا دیکھوں گا۔ پر اپنی طبیعت وہی کہ بقول محسن احسان ’مَیں گھر میں رہ کے بھی محسن سدا سفر میں رہا‘۔ پیشہ ورانہ کام کے سلسلے میں کئی ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا جبکہ برطانیہ میں وقفہ وقفہ سے فیملی ہالی ڈے کے تجربات اِس کے علاوہ ہیں۔ آپ اِسے میری کوتاہ بینی کہہ لیں کہ نسلی، تمدنی اور طبقاتی فرق کو چھوڑ کر، جس سے فکر و عمل کی ظاہری علامتیں بدل جاتی ہیں، ہر جگہ انسانی جبلت کے بنیادی پیرائے ایک ہی جیسے لگے۔ سو، اِن دنوں دھیان اپنے ہی علاقے پہ ہے اور تیسری جماعت کے جغرافیہ والا پہلا سبق یاد کر رہا ہوں، یعنی ضلع لاہور کی پانچ تحصیلیں۔ آپ بھی یہ پانچوں نام فٹا فٹ بتا سکیں تو مان جاؤں گا کہ آپ کو بھی بیرونی دنیا دیکھنے کا حق حاصل ہے۔