آذربائیجان اور آرمینیا جنگ کے دہانے پر، وہاں دراصل کیا ہو رہا ہے؟ اس معاملے پر اسرائیل اور اسلامی دنیا ایک ہو گئے؟ وہ تمام باتیں جو آپ جاننا چاہتے ہیں
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سابق سوویت ریاستوں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان کشیدگی عروج کو پہنچ چکی ہے اور کسی بھی وقت دونوں ممالک میں مکمل جنگ چھڑ جانے کا امکان غالب آ رہا ہے۔ ایسے میں معروف صحافی احمد قریشی نے ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اہم سوال اٹھا دیا ہے۔ احمد قریشی نے اپنے فیس بک پیج پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ ”پاکستان، ترکی، اسرائیل اور اسلامی تعاون تنظیم اس کشیدگی میں آذربائیجان کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ اسلامی ملک ایران آرمینیا کی حمایت میں کھڑا ہے۔ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ایک پہلو کو سامنے لا رہا ہوں اور خواہش کرتا ہوں کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان امن قائم ہو۔“اس پوسٹ پر کمنٹس میں کچھ لوگ پاکستان، ترکی اور اسلامی تعاون تنظیم کے ساتھ اسرائیل کے آذربائیجان کی حمایت میں شامل ہونے پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ کچھ صارفین الٹا احمد قریشی کے علم کو ناقص قرار دے رہے ہیں۔
دوسری طرف آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان کشیدگی اس نہج کو پہنچ چکی ہے کہ برطانوی اخبار ’دی ویک‘ کے مطابق دونوں اطراف سے پہلے ایک دوسرے کی افواج پر حملے ہو رہے تھے تاہم اب بارڈر سے ملحق قصبات بھی محفوظ نہیں رہے اور افواج شہری آبادیوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ اتوار کی رات نیگورنو کیرابیخ کے علاقے میں دونوں ممالک کی افواج میں شدید جھڑپیں ہوئیں جن میں 23افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔ دونوں طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ مخالف فوج نے قریبی قصبوں پر شیلنگ کی اور مرنے والے 23افراد میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ نیگورنو کیرابیخ کے علاقے میں ہونے والی اس جھڑپوں کی ذمہ دار بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے پر ڈالی جا رہی ہے اور دونوں ملک کہہ رہے ہیں کہ پہلے دوسرے ملک نے فائر کھولا۔ آذربائیجان کی وزارت دفاع کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ آرمینیا کی فوج نے اتوار کی رات آذربائیجان کے قصبے ’ترتر‘ پر شیلنگ شروع کی، جس کے جواب میں آذربائیجان کی فوج نے جوابی شیلنگ کی۔
آذربائیجان کی فوج کی طرف سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس نے نیگورنوکیرابیخ کے علاقے میں کئی دیہات پر قبضہ کر لیا ہے، تاہم آرمینیا کی طرف سے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ عالمی میڈیا پر ان دونوں ممالک کے حوالے سے آنے والی اطلاعات میں کافی تضاد پایا جا رہا ہے اور ایک کنفیوژن ہے کیونکہ حتمی طور پر کچھ معلوم نہیںہو پا رہا کہ اس وقت دونوں ممالک کے بارڈر پر کیا صورتحال ہے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اتوار کی رات ہونے والی جھڑپوں میں 31لوگ ہلاک اور200سے زائد زخمی ہوئے۔ آذربائیجان کی وزارت دفاع کی طرف سے روسی نیوز ایجنسی انٹرفیکس کو بتایا گیا ہے کہ جھڑپوں میں آرمینیا کے 550فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
بی بی سی کے مطابق نیگورنو کیرابیخ کے متنازع خطے پر قبضے کے لیے دونوں ممالک میں جنگ جاری ہے اور صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آرمینیا میں مارشل لاءنافذ کر دیا گیا ہے، آذربائیجان کے کچھ علاقوں میں بھی مارشل لاءلگا دیا گیا ہے۔ آذربائیجان کے صدر الہام علیئف کا کہنا ہے کہ وہ اس خطے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے پراعتماد ہیں۔ آرمینیا نے آذربائیجان پر فضائی اور توپ خانوں سے حملوں کا الزام لگاتے ہوئے آذربائیجان کے ہیلی کاپٹر گرانے اور ٹینک تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
واضح رہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان نیگورنوکیرابیخ کے علاقے کی ملکیت کا تنازع ایک صدی سے چلا آر ہا ہے۔ اسی تنازعے پر 1918ءمیں آزادی کا اعلان کرنے کے فوری بعد ان دونوں ریاستوں کے درمیان اس خطے کے تنازعے پر پہلی جنگ ہوئی تھی۔ تاہم 1922ءمیں یہ ریاستیں دوبارہ سوویت یونین کے کنٹرول میں چلی گئیں اور یہ تنازعہ بھی دب گیا۔ 1980ءکی دہائی میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد جب یہ ریاستیں دوبارہ آزاد ممالک بنیں تو ان کے درمیان یہ تنازعہ ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا اور اب تک اس خطے کی وجہ سے دونوں ممالک میں کشیدگی چلی آ رہی ہے۔ 80ءاور 90ءکی دہائیوں میں بھی دونوں ملکوں میں اس خطے کے تنازع پر خونریز جنگیں ہو چکی ہیں اور اب ایک بار پھر دونوں ممالک کے درمیان اس خطے کی ملکیت کے تنازعے پر کشیدگی عروج کو پہنچ رہی ہے اور عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا مکمل جنگ سے صرف ایک قدم کی دوری پر کھڑے ہیں اور اگر ان دونوں ملکوں میں جنگ چھڑ گئی تو پورا خطہ اس کی لپیٹ میں آ جائے گا۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ آرمینیا میں آبادی کی اکثریت مسیحی ہے جبکہ آذربائیجان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔