ایک ایسی آسمانی مصیبت ٹوٹ پڑی جس نے ان کے سارے خواب چکنا چور کر دئیے
مصنف : اپٹون سنکلئیر
ترجمہ :عمران الحق چوہان
قسط:30
یہ سارے واقعات بہت عجیب تھے لیکن یورگس نے جلد ہی ان سے بھی عجیب تر واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے۔مثلاً اس نے دیکھا کہ اکثر وہاں کوئی گابھن گائے بھی آجاتی تھی۔ اب یہ بات تو ہر قصائی کو پتا ہے کہ سُونے والی یا تازہ سُوئی گائے کا گوشت کھانے کے لائق نہیں ہوتا۔ ایسی گائے کے متعلق اصول تو یہ تھا کہ اسے تب تک سنبھالا جائے جب تک اس کا گوشت کھانے کے قابل نہ ہو جائے۔ لیکن وقت اور چارہ بچانے کےلئے انہیں بھی بوچڑخانے بھیج دیا جاتا۔ جوں ہی کسی مزدور کی نظر ایسی گائے پر پڑتی وہ باس کو خبر کرتا۔ باس فوراً سرکاری انسپکٹر کو ایک طرف لے جا کر بات چیت کرتا اور لمحہ بھر میں ذبح شدہ گائے کا جسم صاف کر کے اس کی آنتیں وغیرہ غائب کر دی جاتیں۔ یورگس کا کام تھا کہ گائے کے پیٹ سے نکلنے والا بچھڑا اور باقی سب کچھ ٹریپ (trap) میں ڈال دیتا اور نچلی منزل والے بچھڑے کو کاٹ کر گوشت میں تبدیل کر دیتے۔ اس کی کھال بھی استعمال کر لی جاتی۔
ایک دن ایک آدمی پھسل کر گرا اور ٹانگ زخمی کر لی۔ اس سہ پہر، جب مزدور آخری جانور بھی بھگتا کر نکل رہے تھے، یورگس کو رکنے کا حکم دیا گیا۔ اسے وہ کام کرنا تھا جو زخمی آدمی کےا کرتا تھا۔ شام ہو چکی تھی، باہر تقریباً اندھیرا تھا۔ سرکاری انسپکٹر جا چکے تھے اور صرف ایک یا دو درجن لوگ باقی رہ گئے تھے۔ اس دن انھوں نے تقریبا ً 4 ہزار کے قریب جانور ذبح کیے تھے۔ یہ جانور دور دراز کی ریاستوں سے مال گاڑیوں میں لائے گئے تھے اور ان میں سے کئی زخمی ہو گئے تھے۔ کچھ کی ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں، کچھ کو دوسرے جانوروں کے سینگوں سے گھاؤ لگ گئے تھے اور کچھ نا معلوم وجہ سے مر گئے تھے۔ اس اندھیرے اور سناٹے میں ان سب کو ٹھکانے لگانا تھا۔ پیکنگ ہاؤس میں ایسے جانوروں کےلئے اسپیشل لفٹ تھی جس پر لاد کر انہیں بوچڑ خانے تک لایا جاتا تھا جہاں یہ لوگ انہیں نہایت بے پروائی سے کاروباری انداز میں ٹھکانے لگا دیتے۔ اس کام میں بہ مشکل 2گھنٹے لگتے جس کے بعد انہیں یخ کمرے میں دوسرے گوشت کے ساتھ ملا دیا جاتا تاکہ ان کی پہچان نہ ہو سکے۔ اس رات یورگس گھر آیا تو بہت بجھا ہوا تھا اسے سمجھ آگئی تھی کہ دوسرے لوگ اس وقت کیوں ہنستے تھے جب وہ امریکا پر اپنے اعتماد اور یقین کا اظہار کرتا تھا۔
یورگس اور اونا کو ایک دوسرے سے بہت محبت تھی۔ انھوں نے بہت انتظار کیا تھا اور اب اس سلسلے کو 2سال ہو چلے تھے۔ یورگس ہر بات کو محبت کی میزان ہی میں تولتا تھا۔ اس نے خاندان کو اس لیے قبول کیا تھا کہ وہ اونا کا خاندان تھا۔ اسے گھر میں اس لیے دلچسپی تھی کیوں کہ وہ اونا کا ہونے والا گھر تھا۔ حتیٰ کہ ڈرہم میں ہونے والے مظالم اور مکاریوں کی اس کی نظر میں تب تک کوئی اہمیت نہیں تھی جب تک وہ اس کے اور اونا کے مستقبل پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالتے۔
اگر وہ اپنے انداز سے چاہتے توان کی شادی ابھی ہو سکتی تھی یعنی شادی کی دعوت کے بغیر لیکن یہ بات بزرگوں کو گوارا نہیں تھی۔ خاص طور پر آنٹ الزبیٹا کو جو یہ سن کر ہی اتنی پریشان ہو گئی تھی کہ لگتا تھا ابھی رو دے گی۔” یوں بھکاریوں کی طرح سڑک کنارے شادی ؟ نہیں نہیں ہر گز نہیں۔“ اس کی اپنی اقدار تھیں۔ وہ اچھے گھرانے سے تھی اور بچپن سے زمینوں اور نوکروں کے درمیان پلی بڑھی تھی۔ اگر اس کے گھرانے میں9 بیٹیاں ہی بیٹیاں نہ ہو تیں تو عین ممکن تھا وہ کسی اونچے گھرانے میں بیاہی جاتی۔ پھر بھی اسے شرفاءکے رسم و رواج کا پتا تھا اور وہ ان کی پاس داری ہر قیمت پر کرنا چاہتی تھی۔ پیکنگ ٹاؤن میں مزدوری کا یہ مطلب تھوڑی تھا کہ وہ سب کچھ ہی فراموش کر دیتی۔ دعوت نہ کرنے کے ذکر نے ہی اس کی نیند اڑا دی تھی۔ یہ کہنا بھی بے کار تھا کہ ان کے کون سے دوست احباب ہیں! کیوں کہ دوست احباب بالآخر بن ہی جانے تھے اور ایسے پیسوں کا کیا فائدہ کہ لوگ بعد میں ان کا عزت سے ذکر بھی نہ کریں۔الزبیٹا نے سوچا کہ وہ دادا آنٹاناس سے بات کرے گی۔ وہ دونوں یہ تصور کر کے بہت متوحش ہوئے کہ نئے ملک میں ان کے بچے اپنے وطن کی اقدار سرے سے بھول ہی نہ جائیں۔ اس نے سوچا کہ وہ اپنے جوڑے ہوئے پیسوں سے پلاسٹر آف پیرس کا بیتھلہم کا بچہ (the babe of Bethlehem) نامی مجسمہ بنوا لے گی جس میں کنواری مریم اپنے بچے کو گود میں لیے کھڑی ہوگی اور سارے بادشاہ، چرواہے اور صاحبان ِ دانش اس کے سامنے جھک رہے ہوں گے۔ یہ زیادہ سے زیادہ 50 سینٹ میں بن جاتا اور گھر میں رکھا اچھا لگتا۔ وہ سمجھتی تھی کہ ایسے کام میں پیسوں کا زیادہ حساب کتاب نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ ایسے خرچ شدہ پیسے نامعلوم ذرائع سے واپس آہی جاتے ہیں۔ لیکن سر ِ دست سوال یہ تھا کہ پیسے آئیں گے کہاں سے؟ ابھی تو اس علاقے میں کوئی انہیں جانتا بھی نہیں تھا جس سے پیسے ادھار لے لیتے۔ لے دے کے شوِیلاس رہ جاتا تھا جس سے تھوڑے پیسے ادھار لیے جا سکتے تھے۔ ہر شام یورگس اور اونا سر جوڑ کر اخراجات کا حساب کتاب کرتے رہتے۔ یہ کام کم سے کم بھی 200 ڈالر میں ہونا تھا اور اس کے لیے ماریا اور یونس کے پیسے بھی بطور قرض ساتھ ملانا پڑنے تھے۔ یہ رقم اکٹھی کرنے میں بھی انہیں چار پانچ مہینے لگ سکتے تھے۔ چنانچہ اونا نے خود نوکری ڈھونڈنے کے متعلق سوچنا شروع کر دیا۔ اس کا خیال تھا کہ اس طرح پیسے جلدی جڑ جائیں گے۔ ابھی وہ اپنے آپ کواس صورت ِ حال کے مطابق ڈھالنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ایک ایسی آسمانی مصیبت ٹوٹ پڑی جس نے ان کے سارے خواب چکنا چور کر دئیے۔ ( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔