ڈولی کے بدلے تابوت...!!!
ایک اور بے گناہ بیٹی کے بدقسمت والدین نے" ڈولی کے بدلے تابوت" وصول کرکے لخت جگر کو قبر میں اتار دیا......ہمارے ہاں زمانۂ جاہلیت سے بھی "بری رسم "چلی ہے.....عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے عرب کے سنگدل باپ اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیتے تھے.....ساڑھے چودہ سو سال بعد جاہلیت نے بھی روپ بدل لیا....اب باپ اپنی بیٹیوں کو بڑے لاڈ پیار سے پال پوس اور پڑھا لکھا کر سسرال بھیجتے ہیں جہاں "جانور نما انسان" انہیں بڑی بے دردی سے جانوروں کی طرح ذبح کر دیتے ہیں... کہیں غریب زادیاں جہیز نہ لانے پر ماری جاتی ہیں تو کہیں امیر زادیوں کو کسی "گھٹیا بہانے "موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے....
منظر بھوپالی ایسی ہی بیٹیوں کے دفاع میں بول اٹھے تھے:
پھر بہو جلانے کا حق تمہیں پہنچتا ہے
پہلے آنگن میں بیٹیاں جلا دینا
بابا نجمی نے بھی یہ دکھڑا اپنے انداز میں سنایا:
انج لگدا اے میری گڈو میرے ای بھانڈے مانجے گی
ایہنوں ٹورن لئی میں کتھوں ٹی وی کار دیاں
نویں رواجاں جیہڑا کیتا ہمسائے دی دھی دا حال
ویکھ کے میرا جی کردا اےاپنی لاڈو مار دیاں
ابھی نور مقدم کا لہو خشک نہیں ہواتھا کہ ایک اور "وحشی "نے اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہر معاشیات سارہ انعام کو خون میں نہلا دیا....... بیٹیاں بڑی بیش قیمت ہوتی ہیں اور اللہ کریم بڑے ظرف والوں کو بیٹیاں عطا کرتا ہے......کم ظرف انہیں کہاں سنبھال پاتے ہیں....
سارہ کی دوستوں نے اسے سنہری دل کی مالکہ قرار دیکر شاندار "خراج عقیدت" پیش کیا ہے........وہ اپنے ابا امی کی لاڈلی......"دی فیملی""کے نام سے دوستوں کی انجمن کی روح رواں....کتابوں سے محبت کرنے والی مفکر سی لڑکی تھیں........
کہتے ہیں "بھیڑیے" کو ماں بہن بیٹی کی تمیز نہیں ہوتی.....ظاہر جعفر اور شاہ نواز ایسے "گھناؤنے چہرے "بڑے بڑے حوالوں کے پیچھے چھپی" وحشت" کا حوالہ ہیں.....ایسی "نامرد مخلوق" کا اپنا کوئی تعارف نہیں ہوتا......کوئی باپ تو کوئی ماں کا "نام" بیچتا ہے.....یہ سطور لکھتے سورہ التکویر کی آیات 7 اور 8نے جھنجھوڑا کہ "روز محشر زندہ درگور کی جانے والی لڑکی سے سوال ہو گا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا"؟؟کیا یہ سوال ہر زمانے کی بے گناہ مقتولہ سے نہیں ہوگا؟؟ہوگا اور ضرور ہو گا کہ اللہ کا قانون سب کے لیے یکساں ہے.......
گریبان میں جھا نکیں تو عورت کے احترام کے باب میں ہمارے پاس ندامت کے سوا کچھ نہیں....ماں بہن بیٹی سانجھی ہوا کرتی تھی لیکن ہم نے اس مقدس رشتے کے درمیان "مکروہ لکیر "کھینچ دی.....اب جس کی ماں اس کی ماں ہے.....جس کی بہن بیٹی اس کی بہن بیٹی ہے......ابھی کل کی بات ہے کہ لندن میں مریم اورنگزیب کو بیہودگی کا سامنا کرنا پڑا......کچھ عرصہ پہلے ڈاکٹر یاسمین راشد سے توہین آمیز سلوک ہوا....علامہ اقبال کی بہو جسٹس ناصرہ جاوید کے گھر پولیس جا گھسی....مریم نواز اور بشریٰ بی بی کے بارے میں گھٹیا زبان استعمال ہوتی ہے اور کسی کو شرم بھی نہیں آتی......یہاں تو قائد اعظم کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو برا بھلا کہا گیا......دختر مشرق بے نظیر بھٹو کو کردار کشی کے بعد جان سے مار ڈالا گیا.....نیک نام خاتون محترمہ کلثوم نواز کی بیماری کا تمسخر اڑایا گیا........
پاکستانی نژاد کینیڈین سارہ انعام کا نوحہ کتنی ہی بد نصیب لڑکیوں کا نوحہ ہے...... سارہ کے والد نے درست فرمایا کہ بچیاں چکنی چپڑی باتوں میں آکر بہک جاتی ہیں....شاہ نواز ایسے لوگ انہیں پیسے کے لیے ٹریپ کرکے ان کا استحصال کرتے ہیں....نکاح ایک مقدس بندھن ہے....جب سے یہ رشتہ بزنس بنا ،اندر کے بھوکے لوگوں کو بیچ چوراہے ننگا کرتا جا رہا ہے..... کوئی یورپ کے ویزے کا بھوکا تو کوئی بینک بیلنس گاڑی بنگلے کو ترستا بھکاری ہوتا ہے......لچے لفنگے ایسے بھوکے ننگے سے کہیں اچھے ہوتے ہیں....میں نے چند سال پہلے ایک پڑھے لکھے صاحب سے پوچھا شادی کیوں نہیں کرتے؟بولے"پارٹی" کی تلاش ہے.....یہ ہے وہ "کمرشل ازم "جو سہاگن کو کفن پہنا رہا ہے.....ہمارے ہاں یہ جرم کوئی داڑھی پگڑی والا قدامت پسند نہیں کر رہا بلکہ "پونی بردار" جدت پسند یہ پاپ کما رہے ہیں..سارہ کے قتل کا دلخراش سانحہ کوئی پہلا واقعہ نہیں....یہ ہر روز کی کہانی ہے....بی بی سی کے مطابق رواں سال اگست میں گوجرانوالہ کے ایک وکیل نے کینیڈا واپس جانے کی ضد پراپنی بیوی ردا کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا.... اسی سال جون کے مہینے میں سرگودھا میں پاکستانی نژاد آسٹریلوی انجنئیر خاتون ساجدہ تسنیم کو سسر نے قتل کر دیا.....مئی کی بات ہے گجرات میں سپین سے آئی 2بہنوں انیسہ اور عروج کو رخصتی سے انکار پر چچا نے مار دیا.......جنوری 2020 کو گجرات میں ہی برطانیہ سے آئی 2بہنوں نادیہ اور ماریہ بھی پر اسرار طور پر مردہ پائی گئیں....... برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سال شوہروں اور رشتے داروں کے ہاتھوں سینکڑوں خواتین کا قتل ہوتا ہے لیکن احتجاج اور سوشل میڈیا پر ٹرینڈ ہونے کے بعد بات وہیں ختم ہوجاتی ہے....
سب اسی کمرشل سوچ کا شاخسانہ......کہیں پیسے کی ہوس تو کہیں ویزے کا لالچ..........!!!
باپ کیسا بھی ہو.....اولاد کیسی بھی ہو.......بدبخت قاتل کے والد جناب ایاز میر نے دکھ بھرے لہجےمیں کہا خدا نہ کرے کسی کے ساتھ ایسا ہو......کسی کو یہ صدمہ اٹھانا پڑے.....غم سے نڈھال ایک باپ یہی "دعائیہ جملہ" کہہ سکتا ہے.....مقتولہ کے والد جناب انعام رحیم تو بیٹی کا ذکر کرتے دھاڑیں مار مار کر رودیئے....یہ تو باپ ہے ممتا نا جانے کس حال میں ہوگی؟؟؟جواں سال اولاد کی جدائی پر قیامت ٹوٹ جاتی.....دنیا اجڑ جاتی اور ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں......وہی بات جو جناب ایاز امیر نے کہی کہ خدا نہ کرے کسی کے ساتھ ایسا ہو.....کسی کو یہ صدمہ نہ اٹھانا پڑے........!!!!
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں