خوف سے ان کاخون منجمد ہو گیا
مصنف : اپٹون سنکلئیر
ترجمہ :عمران الحق چوہان
قسط:31
ایک بلاک پرے ایک اور لیتھواینئین گھرانا رہتا تھا۔ ایک بوڑھی بیوہ اور اس کا بیٹا۔ ہمارے دوستوں کی ان سے جان پہچان ہو چکی تھی۔ ایک شام وہ انہیں ملنے آئے تو علاقے کے متعلق بات چیت شروع ہو گئی۔ بوڑھی بیوہ نے، جسے سب دادی کہتے تھے، انہیں کچھ ایسے واقعات بتائے کہ جنہیں سن کر ان کا تو خوف سے خون منجمد ہو گیا۔ دادی کوئی 80 سال کی تھی اور جھرّیوں بھرے چہرے اور بے دانت کے مسوڑھوں کے ساتھ باتیں کرتی تو چڑیل لگتی تھی۔ اس نے اتنی دکھ بھری زندگی گزاری تھی کہ اب دکھ اس کی زندگی کا حصہ بن گئے تھے اور وہ بھوک، بیماری اور موت کا ذکر یوں کرتی تھی جیسے لوگ شادی بیاہ اور چھٹیوں کا کرتے ہیں۔
ان کو اس بات کا احساس آہستہ آہستہ ہوا۔ پہلے تو یہ گھر، جو انھوں نے خریدا تھا، نیا ہر گز نہیں تھا۔ یہ کوئی 15 سال پرانا تھا اور اس کا صرف رنگ نیا تھا اور وہ بھی اتنا برا تھا کہ ہر سال دو سال بعد دوبارہ کروانا پڑتا تھا۔ یہ گھر اس قطار میں سے ایک تھا جسے کمپنی نے بنایا تھا اورجس کا مقصد صرف غریبوں کے پیسے نچوڑنا تھا۔ انھوں نے اس گھر کے1500 ڈالر ادا کیے تھے جس پر کمپنی کی500 ڈالر بھی لاگت نہیں آئی تھی، وہ بھی تب جب وہ نیا تھا۔ یہ بات بھی اسے یوں پتا چلی کہ اس کا بیٹا ایک سیاسی تنظیم کے ساتھ وابستہ تھا جو اسی طرح کے مکان بناتی تھی۔ وہ گھٹیا ترین میٹیرئیل استعمال کرتے تھے اور ایک وقت میں درجن کے قریب مکان بناتے تھے اور ظاہری چمک دمک کے علاوہ کسی بات سے سروکار نہیں رکھتے تھے۔ انہیں دادی کی باتوں سے اندازہ ہو گیا کہ انہیں کیا مشکلات پیش آنے والی ہیں۔ دادی اور اس کے بیٹے نے با لکل اسی طرح مکان خریدا تھا جیسے اِنہوں نے خریدا تھا لیکن فرق یہ تھا کہ وہ کمپنی کو داؤ لگانے میں کام یاب ہوگئے تھے۔ دادی کا بیٹا ہنر مند تھا اور مہینے کے100 ڈالر تک کما لیتا تھا اور اتنی عقل رکھتا تھا کہ شادی کے کھکیڑ میں نہیں پڑا تب کہیں جا کر مکان کی قیمت ادا ہوئی تھی۔
دادی کو اپنی باتوں سے ان کے چہرے پر الجھن نظر آئی۔ وہ یہ نہیں سمجھ پائے تھے کہ کمپنی کو قیمت ادا کرنا، داؤ لگانا کیسے ہوا ؟۔ سامنے کی بات تھی کہ وہ نا تجربہ کار تھے۔ یہ سستے گھر اس خیال سے بیچے جاتے تھے کہ جو لوگ انہیں خریدیں گے ان کی قسطیں ادا نہیں کر سکیں گے۔ اور اگر 1 مہینے کی قسط بھی ادا نہ ہو پاتی تو وہ گھر اور ادا شدہ رقم سے محروم کر دئیے جاتے تھے۔ پھر کمپنی اسے آگے کسی اور غریب کو بیچ دیتی۔ ہر مکان کتنی بار آگے بِک چکا تھا اس کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ یہ باتیں یہاں سب ہی کو پتا تھیں۔ دادی تب سے یہاں رہ رہی تھی جب سے یہ مکان بننے شروع ہوئے تھے اور ہر بات جانتی تھی۔ رہا یہ سوال کہ یہ گھر بھی پہلے بِک چکا تھا کہ نہیں تو دادی نے بتایا کہ ان سے پہلے تقریبا ً 4 خاندان اسے خریدنے کی کوشش میں ناکام ہو چکے تھے۔ دادی نے انہیں ان گھرانوں کے بارے میں بتانا شروع کیا۔
پہلا جرمن گھرانا تھا۔ باقی گھرانے مختلف ملکوں کے تھے۔ دادی اپنے بیٹے کے ساتھ تب یہاں آئی تھی جب اس علاقے میں صرف ایک اور لیتھواینئین خاندان آباد تھا۔ تب یہاں سارے مزدور جرمن ہوتے تھے جنہیں کاروبار شروع کرنے کے لیے یہاں لا کر آباد کیا گیا تھا۔ بعد میں جب سستے مزدور ملنے لگے تو جرمن چلے گئے۔ ان کے بعد آئرش لوگ آئے اور سات آٹھ سال تک تو یوں لگتا تھا جیسے یہ کوئی آئرش شہر ہے۔ اب بھی ان کی اتنی کالونیاں باقی تھیں کہ وہ ساری یونینیں اور پولیس فورس کو کنٹرول کرتے اور بھتّا لیتے تھے۔ لیکن پھر بھی زیادہ تر آئرش، جو پیکنگ ہاؤسز میں کام کرتے تھے، بڑی ہڑتال کے بعد ِ یہاں سے چلے گئے تھے۔ پھر بوہیمئین آئے اور ان کے بعد پول آئے۔ کہنے والے کہتے تھے کہ اس مہاجرت کی وجہ بھی بوڑھا ڈرہم خود تھا۔ اس نے مزدوروں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ معاملات کو ٹھیک کرے گا اور انہیں دوبارہ ہڑتال کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ پھر اس نے یورپی ملکوں کے ہر شہر اور گاؤں میں اپنے ایجنٹ پھیلائے جو لوگوں میں سٹاک یارڈز میں کام کے مواقع اور بھاری اجرت کی کہانیاں پھیلاتے تھے۔ لوگ جوق در جوق آنے لگے اور بوڑھا ڈرہم ہاتھ سخت سے سخت کرتا گیا۔ ڈرہم کام کی رفتار بڑھاکر ان کا لہو نچوڑتا اور نئے مزدور منگواتا گیا۔ پولینڈ کے لوگ جو ہزاروں کی تعداد میں آئے تھے انہیں لیتھواینئین نے دیوار سے لگا دیا۔ اور اب لیتھوینئین کی جگہ سلووَک لے رہے تھے۔ سلووَک لوگوں سے زیادہ غریب اور لاچار کون تھا، دادی کو اس کا علم نہیں تھا لیکن ایجنٹ ایسے لوگوں کو ڈھونڈ نکالتے تھے۔ انہیں ڈھونڈنا مشکل نہیں تھا کیوں کہ یہاں اجرت واقعی زیادہ تھی۔ یہ بات آنے والوں کو بہت بعد میں پتا چلتی کہ یہاں ہر چیز کی قیمت بھی بہت زیادہ تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ ان کی حالت کُڑ کّی میں پھنسے چوہے جیسی تھی۔ اور ہر روز ڈھیروں ڈھیر مزید مزدوریہاں پہنچ رہے تھے۔ کبھی کبھی، جب حالات ان کی برداشت سے باہر ہوجاتے تو وہ انتقام لینے پر اتر آتے اور کوئی نا کوئی قتل ہوجاتا۔ دادی خود کو سوشلسٹ یا جانے کیا کہتی تھی۔ اس کا دوسرا بیٹا سائبیریا میں کہیں کان کنی کرتا تھا۔ دادی نے اپنے زمانے میں خود بھی بہت تقریریں کی تھیں یہ سن کر اس کے موجودہ سامعین کافی ڈر گئے۔ ( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔