سیاسی کارکن سے جمال گنے والا تک

وہ مجھے بہت عرصے بعد ملا، یعنی یہی کوئی بیس بائیس سال بعد، میں کسی کام سے ملتان کے علاقے خونی برج گیا تو میری نظر اس پر پڑی، اس نے گنے کے رس کی ریڑھی لگائی ہوئی تھی،اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود اس کا حلیہ اور صحت ویسی ہی تھی جیسی میرے ذہن کے نہاں خانے میں موجود تھی۔ میں نے جب اسے کہاجمال صاحب ایک گلاس گنے کا رس تو دینا،وہ چونک پڑا،اسے تو کسی نے جمال صاحب کہا ہی نہیں تھا، وہ تو جمال گنے والا تھا، ایک لمحے کے لئے اس کی نظریں مجھ پر جمیں اورپھرجیسے سب پردے ہٹ گئے ہوں،وہ خوشی سے جپھی ڈالنے کے لئے میری طرف بڑھا، یہ بھی بھول گیا اس کے ہاتھ گنے کے رس سے بھیگے ہوئے ہیں، میں نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ اسے گھٹ کے گلے لگا لیا، پھر اس کی حسِ مزاح لوٹ آئی، کہنے لگا نسیم تم اب تک زندہ ہو، میں تو سمجھا تھا دنیا سے گزر گئے ہو۔ میں نے کہا جمال اکٹھے آئے تھے،اکٹھے جائیں گے، اس پر ایک قہقہہ پڑا، اتنے میں دو تین گاہک اس کی ریڑھی کے گرد جمع ہو گئے،وہ گنے کا رس نکالنے میں مصروف ہو گیا اور میری سوئی ماضی کی طرف مڑ گئی۔ مجھے کالج کا زمانہ یاد آ گیا، گورنمنٹ کالج یونین روڈ اس زمانے میں سیاست کا گڑھ ہوتا تھا۔ ضیاء الحق کا دور تھا، آئے روز ہنگامے ہوتے تھے، جلوس نکلتے تھے،پیپلزپارٹی کا طلبہ ونگ پی ایس ایف اور این ایس ایف مل کر احتجاج کرتے، پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی جاری رہتی، کوئی طالب علم قابو آ جاتا تو اس کی شامت آ جاتی، سب سے مقبول نعرہ ملتان پولیس مردہ باد یا ملتان پولیس سائیکل چور لگتا کیونکہ پولیس کالج کے اسٹینڈ سے ایک دن سائیکلیں لے گئی تھی جو واپس نہیں کی گئی تھیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، جمالاس سارے معاملے میں آگے آگے ہوتا،لڑائی جھگڑے میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں تھا، ہم دیکھتے بڑے بڑے سیاستدان اس سے ملنے کالج آتے اور احتجاج میں تیزی لانے کا کہتے، اس کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ کا زور تھا اور طلبہ کو متاثر کرنے کے لئے دونوں طرف سے پورا زور لگایا جاتا۔ جمال کی بڑی شان و شوکت تھی، پرنسپل کے کمرے میں بلا اجازت چلے جانے اور کسی بھی طالب علم کی فیس معاف کرانا یا سزا سے بچا لینا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ وقت گزرتا رہا، جمال پیپلزپارٹی کی طلبہ جماعت پی ایس ایف کا سرگرم رکن بن چکا تھا، وہ اکثر کہتا دیکھنا جب پیپلزپارٹی حکومت بنائے گی تو وہ ایک بڑا عہدہ لے گا۔ ہم اس کا مذاق اڑاتے مگر وہ ثابت قدم رہا، ایک دن کالج میں شور ہوا،پھر گولیاں چلنے کی آواز آئی، ساتھ یہ خبر بھی پھیل گئی کہ ایک طالب علم گولی لگنے سے زخمی ہو گیا ہے۔ انتظامیہ نے پولیس کو کال کی اور تھوڑی دیر بعد تھانہ گلگشت کی بھاری نفری آ گئی، پولیس نے بہت سے طالب علموں کو گرفتار کرلیا، جن میں جمال بھی شامل تھا،اس کا موقف تھا فائرنگ ہم نے نہیں مخالف جماعت نے کی ہے تاہم پولیس سات طلبہ کو گرفتار کرکے لے گئی۔
مقدمہ درج ہو گیا اور اقدام قتل کی دفعہ لگ گئی، ساتھ ہی بلوے اور ہنگامے کی دفعات بھی لگا دی گئیں۔ چھ طالب علم حیران کن طور پر تفتیش میں بے گناہ قرار دیئے گئے اور سارا نزلہ جمال پر گرایا گیا،بعد میں عقدہ کھلا کہ ان چھ طالب علموں کے والدین اور ان کی بااثر جماعتوں نے بے گناہ قرار دلوا دیا مگر جمال کے پیچھے کوئی نہ آیا۔ ایک تو وہ غریب گھرانے کا بیٹا تھا اور دوسرا والد بھی انتقال کر چکے تھے، ماں گھروں میں کام کرکے اسے اور دو چھوٹے بہن بھائیوں کو پال رہی تھی، مارشل لاء کا زمانہ تھا اس لئے ایسے کیسز ترجیحی بنیاد پر سنے جاتے تھے۔ دو تین ماہ کی سماعت کے بعد جمال کو تین سال کی سزا سنا دی گئی، ہم نے بھاگ دوڑ کرکے ایک اچھا وکیل کیا اور سزا کے خلاف اپیل کرائی مگر وہاں بھی سزا برقرار رکھی گئی۔ قصہ مختصر جمال سزا یافتہ ہو گیا۔ پیپلزپارٹی جو پہلے ہی ضیاء الحق دور میں زیر عتاب تھی اس کے لئے کچھ نہ کر سکی،تعلیم چھوٹ گئی اور جمال جیل کی نذر ہو گیا۔ میں نے اس دوران بی اے کیا اور بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں داخلہ لے لیا۔ یونیورسٹی کی سرگرمیوں میں اس قدر محو ہوئے کہ ہوش ہی نہ رہا جمال پر کیا بیتی، کبھی کبھار اس کا ذکر ہو جاتا کہ وہ ڈسٹرکٹ جیل ملتان ہے،میں جب ایم اے اردو کرکے لیکچرر بن گیا تو میری پہلی پوسٹنگ گورنمنٹ کالج شجاع آباد میں ہوئی۔ وہاں میری ملاقات کالج دور کے ایک ساتھی محمد رفیق سے ہوئی، اس نے کہا تم خوش قسمت ہو طلبہ سیاست میں سرگرم رہنے کے باوجود آج لیکچرر بن گئے ہو وگرنہ اس سیاست میں حصہ لینے والے تو اپنی زندگی برباد کرلیتے ہیں، پھر اس نے جمال کا ذکر کیا اور بتایاکہ وہ سزا پوری کرکے رہا ہو گیا ہے مگر اب اس کا کوئی مستقبل نہیں۔ وہ سزا یافتہ ہے اور کسی بھی سرکاری نوکری حتیٰ کہ چپڑاسی کے لئے بھی نااہل ہو چکا ہے، میں نے اس سے پوچھا وہ کہاں ہے۔ اس نے بتایا آج کل ایک ٹھیکیدار کے پاس مزدوری کررہا ہے، اس کے بعد میں ٹرانسفر ہو کر ملتان آ گیا جب میں گورنمنٹ علمدار حسین اسلامیہ کالج میں پڑھا رہا تھا تو ایک دن وہ میرے پاس آیا، اس کی حالت بری تھی، اس نے بتایا اسے سیاسی کا رکن کی نوکری مل رہی ہے، میں چونکا سیاسی کارکن کی کون سی نوکری ہوتی ہے۔ جمال نے بتایا مجھے کہا گیا ہے احتجاج کے وقت تم نے آگے آگے ہونا ہے، نوجوانوں کو بھڑکانا ہے، جوش دلانا ہے، اس کے لئے وہ مجھے دس ہزار روپے مہینہ دیں گے۔ اس زمانے میں یہ اچھی خاصی رقم تھی اور سترہویں گریڈ کے لیکچرر کی تنخواہ کے برابر تھی، پھر اس نے کہا میں نے یہ نہیں کرنا کیونکہ سیاست سے میرا دل کھٹا ہو گیا ہے۔ مجھے جماعت نے تنہا چھوڑ دیا اور میں ایک ناکردہ گناہ میں سزا یافتہ ہو گیا، میں نے کہا تمہارا یہ بہت اچھا فیصلہ ہے، اس کے بعد وہ چلا گیا اور میرا اس سے رابطہ منقطع ہو گیا۔۔
کل میں نے اسے جب گنے کا رس بیچتے دیکھا تو اس لئے بہت اچھا لگا کہ وہ محنت مزدوری کرکے کما رہا تھا اور بددل ہو کر اس نے خودکشی نہیں کی تھی، پھر وہ تین بچوں کا باپ بھی تھا اور انہیں پڑھا کر اپنی کوتاہی کا ازالہ کر چکا تھا۔ میں سوچنے لگا جنہیں ہم سیاسی کارکن کہتے ہیں یا تعلیمی اداروں میں سیاسی جماعتوں کے طلبہ ونگز میں سرگرم کردار ادا کرنے والے جو طلبہ ہیں،ان کے ساتھ ان 76برسوں میں کتنا دھوکہ ہوا ہے، انہوں نے دھوکے پر دھوکہ کھایا ہے۔یہ سلسلہ رکا نہیں،آج ایسے سینکڑوں نوجوان جیلوں میں ہیں، جنہیں 9مئی کو احتجاجی مظاہروں کے بعد گرفتار کرلیا گیا، ان کی زندگیاں تباہ ہو گئیں، کیرئیر پر داغ لگ گئے۔ اب ان کے مقدر میں یہی ہے جمال کی طرح کوئی ریڑھی لگا کے اپنی زندگی گزاریں، بے رحم سیاست کے یہ زخم صرف وہی محسوس کرتے ہیں جو ایک بار اس کی نذر ہو جاتے ہیں۔