سیکیورٹی فورسز دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے اقدامات کریں!

  سیکیورٹی فورسز دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے اقدامات کریں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سفیر ملک کی عزت و وقار کی علامت ہوتے ہیں، جن کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔اگر کوئی سفیر کسی ملک کے قانون یا کسی سفارتی آداب کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ ملک اس کے خلاف احتجاج کرتا ہے، بعض اوقات اسے تحریری احتجاجی مراسلہ دے کر باقاعدہ اس سے جواب طلب کیا جاتا ہے، اس کا جواب اگر اطمنان بخش نہ ہو تو اس سفیر کو ملک بدر بھی کر دیا جاتا ہے یا اسے ملک چھوڑنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ اس طرح غیر ملکی سفیروں کی حفاظت اور ان کی ہر طرح کی دیکھ بھال بھی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔جو ملک اس میں کوتاہی کے مرتکب قرار پائیں، انہیں بعض اوقات عالمی تنہائی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ سفیروں کی حفاظت اور ان کی دیکھ بھال حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے جسے ہر حکومت کماحقہ ادا کرتی ہے۔گزشتہ دنوں سوات میں ہونے والے بم دھماکے کا توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ اس کا ہدف گیارہ ملکوں کے سفارت کار بن سکتے تھے۔اس کارروائی میں ایک پولیس اہلکار کی شہادت اور چار کا زخمی ہونا بھی اگرچہ بڑا نقصان ہے لیکن پولیس وین کے بجائے بم دھماکے کا نشانہ اگر روس،ایران، انڈونیشیا، پرتگال، قازقستان، بوسنیا، زمبابوے، روانڈا، ترکمانستان، ویتنام و تاجکستان کے سفیروں اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے ارکان کی گاڑیاں بنتیں تو ملک کو جس پریشان کن صورت ِحال کاسامنا کرنا پڑتا، اس کا اندازہ ہر ذی شعور بخوبی لگا سکتا ہے۔

ڈی پی او سوات کے مطابق گیارہ ملکوں کے یہ سفیر چیمبر آف کامرس مینگورہ کی تقریب میں شرکت کے بعد تفریحی دورے پر مالم جبہ جا رہے تھے۔ جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کر کے اس واقعے کے تمام پہلووؤں کو مد ِنظر رکھ کر اعلیٰ سطح پر اس کی تحقیق کی جا رہی ہیں۔ صدرِ مملکت آصف علی زرداری، وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے اپنے مذمتی بیانات میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ملک میں قیامِ امن و استحکام کی جد و جہد کو حتمی کامیابی تک جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

اس افسوسناک واقعے کے فوراً بعد پولیس کی بھاری نفری جائے وقوعہ پر پہنچ گئی جنہوں نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کردیا۔ صدر آصف علی زرداری نے اس دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اِس طرح کی بزدلانہ کارروائیاں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے  ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتیں۔ وزیرِاعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے بھی اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی، وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے بھی ذمہ داران کا تعین کرکے اْنہیں عبرتناک انجام تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا۔

گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلِکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز کے مطابق رواں سال اگست تک ملک بھر میں دہشت گردی کے مختلف واقعات میں 757 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ سال 306 حملوں میں 693 لوگوں کی جان گئی اور 1,124 افراد زخمی ہوئے۔ ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق 2022ء کے مقابلے میں 2023ء میں دہشت گردی کے واقعات میں 17 فیصد اضافہ ہوا تھا جبکہ جانی نقصان 2022ء  کے مقابلے میں 65 فیصد زیادہ تھا۔ اب تو رواں سال کے پہلے آٹھ ماہ میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد گزشتہ پورے سال سے بھی زیادہ ہے۔ لگ بھگ تین سال قبل دہشت گردی نے دوبارہ سر اْٹھانا شروع کر دیا تھا جب دہشت گردی کے خلاف پالیسی میں نرمی برتی گئی۔ اِس سے قبل دہشت گردی پر اِس حد تک قابو پا لیا گیا تھا کہ سال بھر میں ایک دو واقعات ہی دیکھنے میں آتے تھے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ رواں سال جون میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے کالعدم تحریک ِطالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پاکستان اور خطے کی سلامتی کیلئے مستقل خطرہ قرار دیا تھا۔اس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا تھا کہ القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے درمیان روابط بدستور مضبوط ہیں۔القاعدہ آپریشنل صلاحیت کو ازسرِنو ترتیب دے رہی ہے اور ٹی ٹی پی پاکستان کے اندر حملے کر رہی ہے۔ غیر ملکی جنگجوؤں کا گروپ افغانستان کی سرحدوں کے پار خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی کو نہ صرف افغان طالبان کی مکمل تائید اور حمایت  حاصل ہے بلکہ وہ پاکستان میں حملے کرنے کیلئے ٹی ٹی پی کی سرپرستی بھی کر رہے ہیں۔ 

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے چھ  ہزار سے زائد جنگجو ہیں جو طالبان کی سرپرستی میں کسی قسم کی سرگرمیوں کے لیے پوری طرح سے آزاد ہیں،لیکن کابل پاکستان کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار نہیں ہے۔ افغان عبوری حکومت نے  اِس رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا، ان کے نزدیک یہ تعصب پر مبنی تھی۔ چند روز قبل پاکستان کے اقوامِ متحدہ میں مستقل مندوب منیر اکرم نے افغانستان سے کالعدم ٹی ٹی پی کے سرحد پار حملوں پر کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اْنہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے خدشات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کالعدم ٹی پی پی خطے کے اَمن کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

 اقوامِ متحدہ کے پروگرام آف ایکشن کے نفاذ کا جائزہ لینے کے لیے چوتھی کانفرنس میں پاکستانی سفیر نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ افغان عبوری حکومت کی حمایت سے ٹی ٹی پی افغانستان کا سب سے بڑا دہشت گرد گروہ ہے۔یہ جدید ہتھیاروں سے لیس ہے اور مجید بریگیڈ سمیت کئی دیگر باغی دھڑوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں کارروائیاں کر رہا ہے۔ منیر اکرم نے کہا تھا کہ پاکستان کو خدشہ ہے کہ ٹی ٹی پی کا القاعدہ کے ساتھ بڑھتا ہوا اتحاد جلد اِسے علاقائی اور عالمی دہشت گردی کی سرگرمیوں میں مرکزی کردار تک پہنچا سکتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے والے تشدد میں خطرناک اضافے کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی کی کارروائیاں خطے میں وسیع تر عدم استحکام پیدا کر سکتی ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جو افغان حکومت سمجھنے کو تیار ہے اور نہ ہی وہ لوگ جو ٹی ٹی پی اور ایسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرانا چاہتے ہیں۔

افغان حکومت تو پاکستان کی طرف سے دئیے جانے والے ثبوتوں کو رد کرتی آئی ہے اور اپنی سرزمین کے استعمال کے امکان کو بھی نہیں مانتی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں صورتِ حال زیادہ مخدوش ہے، لیکن غیر ملکیوں خصوصاً سفیروں پر حملے زیادہ پیچیدہ معاملہ ہے اور ان کا مقصد ملکی مفاد کو نقصان پہنچانا ہے۔ رواں سال مارچ میں چینی انجینئروں کی گاڑی پر حملہ ہوا، 26 مارچ کو خیبرپختونخوا کے علاقے شانگلہ میں بشام کے مقام پر گاڑی پر خودکش حملے کے نتیجے میں پانچ چینی باشندوں سمیت چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ان واقعات کے بعد سیکیورٹی اہلکاروں اور انٹیلی جینس کے معاملات پر سوال بھی اٹھ رہے ہیں، بعض واقعات میں ان کی کوتاہیاں بھی سامنے آئی ہیں۔

اچھی بات تو یہ ہوئی کہ حالیہ حملے میں کسی ملک کے سفیر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن اس معاملے میں ایس او پیز کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔اتنی بڑی تعداد میں سفیروں کو کسی بھی تفریحی مقام پر لے جانا، وہ بھی خیبر پختونخوا میں، کسی طور پر مناسب نہیں تھا۔اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئے اور آئندہ بہت زیادہ احتیاط برتنی چاہئے،یہ کوئی عام معاملہ نہیں ہے۔ساتھ ہی ساتھ عسکری و سیاسی قیادت کو مل کر ملک میں بڑھتی دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں، کسی کو بھی اس حوالے سے سیاست کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔تمام ممالک کو بھی یہ  بات سمجھنی چاہئے کہ خطے میں امن قائم کرنا سب کے لئے ہی فائدہ مند ہے۔ہتھیار کے بل پر کسی دوسرے ملک میں بدامنی پھیلانے کی کوشش سب کے لئے ہی نقصان دہ ہے۔  ملک میں بڑھتی دہشت گردی کو روکنے کے لئے اس کے خلاف فیصلہ کن کارروائی لازم ہے، خوارجیوں سے نمٹنے کا اِس کے علاوہ کوئی راستہ تھا، ہے اور نہ ہو گا۔

یہ بات بھی انتہائی تشویشناک ہے کہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی جتنے تسلسل اور جس قدر منظم طریقے سے جاری ہے بالخصوص دہشت گردوں کا نظامِ اطلاعات جتنا منظم ہے،اس کے فوری تدارک کیلئے عملی بنیادوں پر اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ دہشت گرد جس تسلسل سے حملے کر رہے ہیں اور اس کے مقابلے میں حکومتی حفاظتی انتظامات جتنے ناقص ہیں، اسے کس صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چینی ماہرین کے نشانہ بنائے جانے کے بعد صوبے میں دہشت گردی کی مسلسل وارداتوں کے پیشِ نظر گیارہ ملکوں کے سفیروں کے حفاظتی انتظامات فول پروف ہونے چاہئیں تھے اور اس میں کسی قسم کا کوئی رخنہ نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ سفیروں کے قافلے کے راستے میں بم دھماکہ کرنے کی کوشش کیسے کامیاب ہوئی؟ انٹلیجنس کا نظام کیوں فیل ہوا؟ حفاظتی انتظامات بظاہر ناکافی کیوں تھے؟ تحقیقات میں ان سوالوں کا جواب تلاش کیا جانا چاہیے اور ان کی روشنی میں آئندہ ایسے واقعات کی مکمل روک تھام کو یقینی بنانا چاہئے۔       ٭٭٭

final

3

مزید :

ایڈیشن 1 -