رہنماﺅں کے رہنما بابا ئے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان!
جمہوریت کی بقاءکے لئے نوابزادہ نصر اللہ خان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ وہ ان چند سیاست دانوں میں سے ہیں جو حقیقی معنوں میں کسی بھی دور میں نہ بکے اور نہ جھکے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ 1951ءکے بعد ملک میں جتنے بھی سیاسی اتحاد بنے نوابزادہ نصراللہ خان کا ان کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق ضرور رہا،لیکن انہیں سب سے زیادہ شہرت ایوب خان کے دور میں اس وقت ملی جب انہوں نے جمہوریت کی بحالی کے لئے قربانیاں دیں اور ان پر بغاوت کا مقدمہ بنا۔ اس وقت جب دوسرے سیاستدان ہمت ہار بیٹھے تھے یہ مردِ قلندر میدانِ عمل میں ڈٹا رہا اور ایوب خان کو مجبور کر دیا کہ وہ اپوزیشن کے تمام مطالبات تسلیم کرے۔ یہی صورتِ حال ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی رہی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان نے مستقل مزاجی سے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے احتجاجی تحریک جاری رکھی۔”ہماری خطا حضورِ شاہاں جھک نہیں سکے۔ہمارا قصور عظمت ِانسان کی بات کی“ ۔
قائد ِجمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 21 سال بِیت چکے ہیں۔ نوابزادہ نصراللہ خان13 نومبر1916ءمیں جنوبی پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ کے ایک پسماندہ قصبے خان گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نواب زادہ سیف اللہ خان دفعہ 30 کے مجسٹریٹ تھے۔نوابزادہ نصراللہ خان ابھی صرف چھ برس ہی کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ انہوں نے ایچی سن کالج لاہورسے ایف اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایمرسن کالج ملتان میں گریجوایشن کے لئے داخلہ لیا، لیکن فائنل امتحان سے پہلے ہی ان کی والدہ نے ان کی شادی خاکوانی قبیلے میں طے کر دی اور انہیں کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان شعبہ صحافت سے بھی وابستہ رہے۔وہ روزنامہ آزاد کے ایڈیٹر بھی رہے۔ سیاست انہوں نے مجلس احرارِ اسلام کے پلیٹ فارم سے شروع کی۔ وہ بر صغیر میں فرنگی راج کے مخالف تھے اور اس کے لئے مجلس احرار انہیں سب سے موزوں جماعت نظر آئی۔ وہ اس جماعت میں اس طرح رچ بس گئے کہ قیامِ پاکستان سے قبل 27 یا 28 سال کی عمر میں ہی وہ اس کے سیکرٹری جنرل بن گئے۔ 1950ءمیں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بعد ازاں اختلافات کی بناءپر مسلم لیگ سے استعفیٰ دے دیا اور حسین شہید سہروردی کے ساتھ مل کر عوامی لیگ قائم کی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان 1962 ءمیں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور انہوں نے 1962ءمیں ہی حزبِ اختلاف کا اتحاد ”نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ“ تشکیل دے دیا۔1964ءمیں متحدہ حزبِ اختلاف(سی او پی) کے نام سے ایک تیسرا بڑا سیاسی اتحاد معرضِ وجود میں آیا۔
مارشل لاءکے نفاذ کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا یہ دوسرا بڑا اتحاد تھا جس کے قیام کا موقع ایوب خان نے صدارتی انتخاب کا اعلان کر کے فراہم کیا تھا۔ تمام اپوزیشن جماعتوں بشمول کونسل مسلم لیگ،نیشنل عوامی پارٹی، جماعت ِاسلامی، نظامِ اسلام پارٹی اور عوامی لیگ نے محترمہ فاطمہ جناحؒ کو اپنا متفقہ صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ ابتدا میں سی او پی کے رہنما ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی امیدوار کھڑا کرنے کے معاملے میں اختلافات کا شکار ہو گئے تاہم فاطمہ جناحؒ کے نام پر کسی کو اعتراض نہ ہوا۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے محترمہ فاطمہ جنا ح ؒسے ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑنے کی درخواست کی۔ پہلے انہوں نے انکار کیا، مگر بعد ازاں آمادگی ظاہر کر دی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کئی مذہبی جماعتوں نے بھی ایک خاتون کی حمایت کی اور اس کی قیادت کو تسلیم کیا۔فاطمہ جنا حؒ کی مخالفت صرف جاگیرداروں نے کی ، کیونکہ وہ ایوب خان سے مراعات حاصل کرتے تھے۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے فاطمہ جنا حؒ کی صدارتی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا جبکہ بھاشانی نے صرف خانہ پری کی۔ وہ در پردہ ایوب خان کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ سی او پی کو قوی یقین تھا کہ محترمہ فاطمہ جناحؒ الیکشن جیت جائیں گی، کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒکی ہمشیرہ کو شکست ہوگی۔ ایوب خان نے الیکشن جیتنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور بیوروکریسی کے ذریعے زبردست دھاندلی کروائی۔ ایوب خان کو 49ہزار 647 ووٹ اور مادر ملت فاطمہ جناحؒ کو 28ہزار 345 ووٹ ملے۔ یوں ایوب خان 21ہزار 302 ووٹوں کی اکثریت سے قائداعظم محمد علی جناح ؒکی ہمشیرہ کو دھاندلی کے ذریعے ہرا نے میں کامیاب ہو گئے۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے ایوب خان کے خلاف 1967ءمیں حزبِ اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل اتحاد ”پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ“ تشکیل دیا۔ انہوں نے ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو،جنرل ضیاءالحق،بے نظیر بھٹو،میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف حزبِ اختلاف کا کردار ادا کیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان کو اپنی سیاسی زندگی میں متعدد بار قید و بند کی سہولتیں بھی برداشت کرنا پڑیں، کئی مرتبہ جیلوں میں گئے اور متعدد بار نظر بند رہے۔
بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر اللہ خان جنرل ضیاءالحق کے مارشل لا ء کے دوران اپنے آبائی گھر خان گڑھ میں نظر بند ہونے کے باوجود ملکی سیاسی صورتِ حال پر پوری طرح نظر رکھے رہتے۔ انہیں اخبارات فراہم کرنے کی سہولت میسر تھی۔ وہ وقتاً فوقتاً قلبی واردات کو صفحہ_¿ قرطاس پر منتقل کر کے نظم کی صورت میں کسی نہ کسی طریقے سے اپنے 50 سالہ پرانے رفیق عبدالرشید قریشی ایڈووکیٹ کے نام بھجوا دیتے، جو اس کی نقول مختلف اخبارات کو جاری کر دیتے ،کیونکہ اخبارات پر سنسرکی پابندیاں تھیں۔ اور جنرل ضیاءالحق سیاست دانوں بالخصوص نوابزادہ نصراللہ خان جیسے جمہوریت پسندوں کا نام تک اخبارات میں شائع ہونا گوارا نہیں کرتے تھے۔ اس ملک کے اکثر اخبارات بھی نظر بند نوابزادہ نصر اللہ خان کے نظریات سے عبارت نظم و نثر شائع کرنے سے گریز کرتے تھے۔ اس قسم کی صورتِ حال میں نوابزادہ کے شیدائی اورجمہوریت کے فدائی عبدالرشید قریشی جو ان دنوں پاکستان جمہوری پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھے، اپنے ہاتھ سے اپنے قائد کے کلام کی نقول تیار کرتے، بڑی تعداد میں اس کی فوٹو کاپیاں کرواتے اور ہائی کورٹ بار،لاہور بار اور اخبارات میں وسیع پیمانے پر تقسیم کیا کرتے۔ جنرل ضیاءالحق کے عہد ِمارشل لاءمیں جس نظم کے چرچے ہوئے اور ملک بھر میں اس کی فوٹو کاپیاں تقسیم کی گئیں وہ یہ ہے۔
کتنے بے درد ہیں کہ صر صر کو صبا کہتے ہیں
کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیاءکہتے ہیں
جبر کو میرے گناہوں کی سزا کہتے ہیں
میری مجبوری کو تسلیم و رضا کہتے ہیں
غم نہیں گر لبِ اظہار پر پابندی ہے
خامشی کو بھی اک طرزِ نوا کہتے ہیں
کشتگانِ ستم و جور کو بھی دیکھ تو لیں
اہل ِدانش جو جفا_¶ں کو وفا کہتے ہیں
کل بھی حق بات جو کہنی تھی سرِ دار کہی
آج بھی پیشِ بتاں نامِ خدا کہتے ہیں
یوں تو محفل سے تیری اٹھ گئے سب دل والے
ایک دیوانہ تھا وہ بھی نہ رہا، کہتے ہیں
یہ مسیحائی بھی کیا خوب مسیحائی ہے
چارہ گر موت کو تکمیلِ شفا کہتے ہیں
بزمِ زنداں میں ہوا شورِ سلاسل برپا
دہر والے اسے پائل کی صدا کہتے ہیں
آندھیاں میرے نشیمن کو اُڑانے اٹھیں
میرے گھر آئے گا طوفانِ بلا، کہتے ہیں
ان کے ہاتھوں پر اگر خون کے چھینٹے دیکھیں
مصلحت کش اِسے رنگ ِحنا کہتے ہیں
میری فریاد کو اس عہدِ ہوس میں ناصر
ایک مجذوب کی بے وقت صدا کہتے ہیں
نوابزادہ نصر اللہ خان نے 1988ءاور 1993ءکے صدارتی انتخابات میں اپنے قریبی ساتھی عبدالرشید قریشی ایڈووکیٹ کو اپنا صدارتی چیف پولنگ ایجنٹ مقرر کیا۔
13 دسمبر 1988ءکو بے نظیر بھٹو نوابزادہ نصراللہ خان کے پاس ایم این ایز ہاسٹل کمرہ نمبر 2 میں جہاں وہ رہائش پذیر تھے تشریف لائیں۔انہوں نے کہا نوابزادہ صاحب صدر غلام اسحاق خان انہیں وزیراعظم کے طور پر دعوت نہیں دیں گے۔ نواب نصر اللہ خان صاحب نے کہا، آپ جمہوری اور بڑی پارلیمانی جماعت کی لیڈر ہیں، اگر آپ اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام ہوئیں تو پھر دوسری بڑی پارٹی کے لیڈر کو دعوت دی جائے گی۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے بے نظیر بھٹو کو مشورہ دیا کہ وہ آرام سے گھر بیٹھ جائیں۔ وزارتِ عظمیٰ کی پیشکش انہی کو کی جائے گی، لیکن بے نظیر بھٹو نے گھر بیٹھ کر انتظار کرنے کے بجائے جی ایچ کیو کا طواف کرنا شروع کر دیا۔ وزارتِ عظمیٰ کے حصول کے لئے انہوں نے فوج کے پانچ مطالبات بھی تسلیم کر لئے۔(1)نوابزادہ نصر اللہ خان کے بجائے صدارتی ووٹ غلام اسحاق خان کو دیا جائے گا۔ (2) خارجہ پالیسی کا تسلسل برقرار رکھا جائے گا۔(3)فنانس پالیسی میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔(4)فوج کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کی جائے گی۔ (5)پیپلز پارٹی کے مخالفوں کو انتقامی کارروائی کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ان شرائط کو تسلیم کرنے کے بعد غلام اسحاق خان بے نظیر بھٹو کے صدارتی امیدوار بن گئے۔ میاں نواز شریف کے پہلے ہی غلام اسحاق خان صدارتی امیدوار تھے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان نے بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے مشترکہ صدارتی امیدوار غلام اسحاق خان کا مقابلہ کیا۔انہوں نے صوبہ بلوچستان سے 28 ووٹ حاصل کیے جبکہ غلام اسحاق خان نے صرف 15 ووٹ حاصل کیے تھے،چنانچہ صدر غلام اسحاق خان نے اپنے عہدِ صدارت میں جلد ہی بلوچستان اسمبلی کو اس گورنر موسیٰ خان کے ذریعے توڑ دیا جو اخروٹ توڑنے کی بھی طاقت نہیں رکھتے تھے۔1993ءکے صدارتی انتخاب میں نوابزادہ نصر اللہ خان دو بارہ صدارتی امیدوار بن گئے، لیکن نواب محمد اکبر خان بگٹی نے بھی جو 1988ءمیں نوابزادہ نصر اللہ خان کے حمایتی تھے اپنے کاغذات بطور صدارتی امیدوار داخل کر دیے۔ جبکہ بے نظیر بھٹو نے اپنا صدارتی امیدوار فاروق خان لغاری کو بنایا اور میاں نواز شریف نے وسیم سجاد کو اپنا صدارتی امیدوار بنا لیا۔
بیلٹ پیپرز چھپ چکے تھے امیدواروں کے نام شائع ہو چکے تھے کہ نوابزادہ نصر اللہ خان اور نواب اکبر بگٹی نے انتخابات سے دو دن پہلے ہی دست برداری کا اعلان کر دیا۔جب کہ عبدالرشید قریشی نے نوابزادہ نصر اللہ خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ایک دن مزید انتظار کرلیں، دست برداری کا اعلان تو الیکشن سے پہلے کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے ۔عبدالرشید قریشی کاکہنا تھا کہ میاں نواز شریف اور انکے ساتھی آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی صدارتی امیدوار بنائیں گے،چنانچہ اسی رات میاں نواز شریف اور وسیم سجاد پیر پگاڑا صاحب کو نوابزادہ نصر اللہ خان کے پاس ایم این ایز ہاسٹل میں لے کر آئے۔ان رہنماﺅ ںنے نوابزدہ نصر اللہ خان کو پیشکش کی کہ وہ وسیم سجاد کے بجائے آپ کو اپنا صدارتی امیدوار بناتے ہیں لیکن نوابزادہ نصر اللہ خان نے کہا میں تو پریس کانفرنس کے ذریعے دست برداری کا اعلان کر چکا ہوں۔ پریس کانفرنس اخبارات،ریڈیو اور ٹی وی پر ا ٓچکی ہے اس لئے اب وہ اپنی دست برداری کو اخلاقی طور پر واپس نہیں لے سکتے۔ اس پر ان رہنما_¶ں نے کہا نوابزادہ نصر اللہ خان صاحب آپ کا نام تو بیلٹ پیپرز پر چھپ چکا ہے اس لئے آپ صرف اتنا کہہ دیں کہ آپ دست بردار نہیں ہوئے۔ نوابزادہ صاحب مسکرائے اور کہا کہ اپنے کہے کا ساری عمر پالن کیا ہے،اب عمر کے آخری حصے میں کوئی بات کہہ کر کیسے مکر سکتا ہوں؟ تمام رہنما_¶ں سے نواب زادہ صاحب نے معذرت کر لی اور ان کی پیشکش کو تسلیم نہ کیا۔نواب زادہ نصر اللہ خان نے اپنی زندگی میں کم و بیش 18 سیاسی اتحاد بنائے جن میں پاکستان قومی اتحاد،ایم آر ڈی،این ڈی اے،اے آر ڈی،اے پی سی اور دیگر سیاسی اتحاد شامل ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور ِحکومت میں انہوں نے اے آر ڈی کے نام سے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جس میں بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی اور میاں نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) کو ایک فورم پر جمع کیا۔
نوابزادہ نصر اللہ خان پیرا نہ سالی اور علا لتوں کے دور سے گزر رہے تھے اس کے باوجود انتقال سے کچھ دن پہلے انہوں نے بیرونِ ملک دورہ کیا۔بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو وطن واپس آنے کی ترغیب دی۔ اس سفر میں انہیں عمرہ ادا کرنے اور روضہ_¿ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری کی سعادتیں بھی نصیب ہوئیں۔ نوابزادہ نصر اللہ خان مسلح افواج کے سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ کسی بھی آئینی کردار کے خلاف تھے، لیکن جرنیلوں کے مسند ِ اقتدار پر قبضہ، جمہوری اقدار اور روایات کو ملیا میٹ کرنے اورسیاسی کارکنوں کو انتقام کا نشانہ بنانے کے باوجود نوابزادہ نصراللہ خان کا ہدف صرف طالع آزما جرنیل رہے، انہوں نے کبھی بالواسطہ یا بلا واسطہ افواج کے قومی ادارے کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔ ان کا کہنا تھا میں چاہتا ہوں کہ ہماری فوج قومی فوج رہے اور یہ اسی صورت میں ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ بن سکتی ہے اور یہ امر ملک کے مفاد میں نہیں کہ مارشل لاءڈکٹیٹرز کے طرزِ عمل کے باعث فوج جیسا قومی ادارہ بدنام ہو۔
جنرل پرویز مشرف کی جانب سے 12 اکتوبر 1999ءکو اقتدار پر قبضہ کر لینے کے بعد اس وقت کی اپوزیشن میں واحد رہنما نواب نصراللہ خان ہی تھے، جنہوں نے میاں نواز شریف حکومت کے خلاف تحریک کی قیادت کرنے کے باوجود فوج کے اس اقدام کی حمایت نہ کی اور کہا ہماری جدوجہد کا مقصد فوجی اقتدار نہیں،بلکہ نئے انتخابات ہیں،میں اس اقدام کو ملک و قوم کے مفاد میں نہیں سمجھتا۔ فوج واپس اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف جائے اور اقتدار منتخب نمائندوں کے سپرد کرے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان نے 13 اکتوبر 1999ءکو جس موقف کا اظہار کیا وہ مرتے دم تک اس پر کار بند رہے اور ان کی جمہوریت کے فروغ کے لئے خدمات قابلِ تحسین ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ 26 ستمبر کو نواب زادہ نصر اللہ خان کی وفات کے حوالے سے ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کرے، اس دن قومی پرچم کو سرنگوں رکھا جائے اور نوابزادہ نصر اللہ خان کی بحالی جمہوریت کے لئے گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انہیں ”بحالی جمہوریت کا ہیرو“ قرار دے۔26اور 27 ستمبر 2003ءکی درمیانی رات12 بج کر 55 منٹ پر مردِ درویش نواب زادہ نصر اللہ خان الشفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد میں خالقِ حقیقی سے جا ملے (انا للہ وانا الیہ راجعون)۔ انہیں ان کے آبائی قبرستان خان گڑھ میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین ٭
٭٭٭
final
4