دیرینہ خواہش تھی کہ مصری فرعونوں کی ممیوں کو انتہائی قریب سے دیکھوں اور عبرت پکڑوں، میں ان پُراسرار لوگوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتا تھا

Sep 29, 2024 | 10:35 PM

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:15
 بادشاہوں کے علاوہ امراء کے مقبروں سے نکلی ہوئی ساری چیزیں وہاں موجود تھیں جن میں برتنوں کے علاوہ دوسرا فرنیچر، نہانے کی چوکیاں، وسیع و عریض عبادت خانے حتیٰ کہ کپڑے ٹانکنے والی کھونٹیاں تک موجود تھیں۔ جگہ جگہ ان کی اپنی زبان میں لکھی گئی تختیاں، اور مخصوص اور مقدس کاغذ پاپائرس کے اوراق بھی موجود تھے۔ جن پر اس فرعون کی تاریخ اور کارنامے لکھے گئے ہوتے تھے۔ہمیں تو دیکھنے میں وہ محض طوطے چڑیاں اور جانوروں کی تصاویر ہی لگتی تھیں، تاہم ان کے اندر ایک جہاں آباد تھا، جس کو مقامی گائیڈ ذرا سی فرمائش پر فر فر پڑھ کر سنا دیتے تھے۔
اس وقت فرعون بادشاہوں کو اس توقع اور یقین کے ساتھ حنوط کرکے مقبروں میں رکھ دیا جاتا تھا کہ وہ دوبارہ زندہ ہوں گے اس لیے جب ان کی آنکھیں کھلیں، تو ضرورت کی ہر چیز مقبرے میں ان کے آس پاس ہی دستیاب ہو۔ اس میں وہ اس حد تک آگے بڑھ جاتے تھے کہ بعض بڑے بادشاہوں کے ساتھ اس کے چند قریبی ذاتی ملازمین کی حنوط شدہ ممیوں کو بھی ان کے ساتھ ہی مقبرے میں رکھ دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اس کے پسندیدہ پالتو جانور کتے، بلی، ہرن، گھوڑے وغیرہ کو بھی حنوط کرکے مدفن کے ساتھ ہی بنائے گئے اَن گنت کمروں میں رکھ دیتے تھے۔کھانے پینے کی چیزیں اور روز مرہ کے استعمال کا سامان اس کے علاوہ تھا۔
میری توجہ کا مرکز نو جوان فرعون بادشاہ تو ت(King Tut) کا سنہری تابوت تھا۔ میں بڑی دیر تک وہاں کھڑا حسرت بھری نظروں سے اسے دیکھتا اور سوچتا رہا کہ اگر میں اس تابوت کا ایک کان بھی کاٹ کر لے جاؤں تو وہ بھی آٹھ دس کلو گرام سے بھلا کیا کم ہو گا اور اس سے میری سات نسلوں کا مقدر سنور جائے گا اور وہ عیش کریں گے۔ میری طرح اور بھی کئی سیاح ایسا ہی سوچتے ہوں گے اور اپنی ضروریات کے مطابق اس کے تابوت کے حصے بخرے کرنا چاہتے ہوں گے۔ لیکن ایسی سوچوں کو عملی جامہ پہنانا کچھ ایسا آسان بھی نہ تھا۔ یہ ایک بڑا مسئلہ تھا اور ایسے ہی کسی طالع مند کی مئوثر کارگزاری سے بچنے کے لئے ان محافظوں کی بظاہر ایک فوج بھرتی کی گئی تھی۔ جو اس وقت پوری جاں فشانی مگر آدھی مستعدی کے ساتھ اپنی تفویض کردہ ذمہ داریاں پس پشت ڈال کر محنت اور ایمانداری سے سیاحوں سے پیسے بٹورنے میں مشغول تھے۔
مصری ممیاں 
میری ایک بہت بڑی اور دیرینہ خواہش تھی کہ میں مصری فرعونوں کی ممیوں کو انتہائی قریب سے دیکھوں، اور عبرت پکڑوں۔ اگر سچ پوچھیں تو یہی ایک بات میرے لئے یہاں آنے کا باعث بنی تھی، میں ان پُراسرار لوگوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتا تھا۔ کتابچے میں لکھی گئی تحریر کے مطابق یہ سب ممیاں عجائب گھر کی اوپری منزل پر واقع ایک مخصوص گیلری میں موجود تھیں۔ نقشے کو دیکھتے ہوئے اس مقام تک جانا آسان تھا، اور میں وہاں پہنچ بھی گیا، تاہم جیسے ہی میں ممیوں کے لئے مخصوص اس گیلری کی طرف بڑھا تو دیکھا وہاں دو محافظ بندوقیں تانے کھڑے تھے اور داخلی دروازے کے عین وسط میں پلاسٹک کی ایک زنجیر تان کر کسی کا بھی اندر جانا ناممکن بنا دیا گیاتھا۔ میں قریب گیا،تو انہوں نے مجھے ہاتھ ہلا کر وہیں سے واپس جانے کو کہا اور بتایا کہ فی الحال یہ گیلری مرمت اور تزئین و آرائش کی وجہ سے سیاحوں کے لئے بند کر دی گئی ہے۔ میری مایوسی انتہائی حدوں کو چھونے لگی کیونکہ عجائب گھر آنے کا بڑا مقصد ان فرعونوں کی ممیوں سے سلام دعا کرنا تھا جو صدیوں تک اس سرزمین پر بلا شرکت غیرے ایک تسلسل سے حکمرانی کرتے رہے تھے اور ان میں سے کچھ تو ایسے تھے جو خدائی کے دعویدار تھے اور اسی زعم میں پیغمبروں سے بھی ٹکرا گئے تھے۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزیدخبریں