انگلینڈ سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اس لئے آیا تھا کہ ہم وطنوں میں آزادی اور جمہوریت کا شعور پختہ کروں،وکالت کے آغاز میں کئی تجربات ہوئے

Sep 29, 2024 | 10:37 PM

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:38
ساہیوال بار
میں انگلینڈ سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اس لئے آیا تھا کہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور جمہوریت کے فروغ کے لئے کام کروں۔ اپنے ہم وطنوں میں آزادی اور جمہوریت کا شعور پختہ کروں۔ 1971ء میں جب میں نے ساہیوال شہر میں وکالت کا آغاز کیا تو ساہیوال میں نامور وکلاء میں شیخ حفیظ احمد، شیخ اصغر حمید، چودھری امداد علی خاں، ملک ذوالفقار، چودھری غلام احمد، محمد صدیق کمیانہ، چودھری نور الٰہی، حاجی حبیب اختر، افضل نور، چودھری منیر عالم دیوانی کے نامور وکلاء تھے۔ فوجداری کے وکلاء میں شیخ نثار احمد، شیخ محمد شفیع، حبیب احمد لودھی، چودھری سلیم اختر، ملک فضل کریم، شیخ عثمان، افتخار الحق خاور وغیرہ تھے۔ اس فہرست میں بہت سے وکلاء کے نام شامل نہیں میں سمجھتا ہوں کہ ساہیوال بار نے بہت قابل اور محنتی وکلاء پیدا کئے۔ ان کی بہترین تربیت کی۔ ان سب کے نام گنوانا میرے لئے مشکل ہو گا۔
میں نے شیخ حفیظ احمد صاحب کی نگرانی میں وکالت کے اپرنٹس شپ کا آغاز کیا اور جلد ہی یہ چھ ماہ پورے ہو گئے تو میرے ایک پرانے دوست (جعفر حسین ایڈووکیٹ) جو کالج میں مجھ سے سینئر تھے اور ساہیوال کے اچھے وکلاء میں شامل تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اُن کی امریکہ کی امیگریشن منظور ہو گئی ہے۔ ان کا دفتر مع لائبریری برائے فروخت تھا جو میں نے خرید لیا۔ مکان بھی وہ فروخت کرنا چاہتے تھے جسے ابھی خریدنے کے لئے مناسب اہتمام موجود نہ تھا۔ یہاں چار برس تک میں نے وکالت کا کام کیا۔ مجھے خوشی تھی کہ چار برس کی اس وکالت کے دوران میں نے روپے پیسے کے لالچ کی بجائے انسانوں سے محبت، دوستی اور بھائی چارے کو فروغ دینے کا کام بھی کیا۔ میں بلامعاوضہ کام نہیں کرتا تھا۔ باقاعدہ فیس لیتا تھا۔ لیکن جن لوگوں کو مجھ سے کام پڑا یا جو لوگ بھی تعلق یا واسطہ میں آئے وہ سب آج بھی دوست ہیں۔ ان کے ساتھ تعلق ہمیشہ کے لئے قائم ہو گیا۔ میرا پیغام محبت اور پیار بڑھانا اور پھیلانا تھا اور میں اللہ کے فضل و کرم سے اپنے اس مشن میں ہمیشہ کامیاب رہا۔ روپیہ پیسہ بھی آتا رہا اور کسی کو کبھی کوئی شکایت بھی نہیں ہوئی۔ ساہیوال میں میر ی وکالت بہت اچھی تھی۔ میرے اپنے تعلقات کی وجہ سے کیس آ رہے تھے۔ جعفر حسین صاحب جن کا چیمبر اب میں چلا رہا تھا ان سے وابستہ مقدمات بھی میرے پاس آ رہے تھے اور مجھے خوشی ہے کہ ساہیوال میں بہت اچھی پریکٹس ہونے کے باوجود 1978ء میں میں نے لاہور شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا۔
مجھے وکالت کے آغاز میں کئی تجربات بھی ہوئے۔ مثلاً ایک غریب عورت کو میرے پاس لایا گیا کہ اس کے جوان بیٹے کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے اور جیب تراشی کا جھوٹا مقدمہ بنا دیا گیا ہے۔ میں نے خداترسی کے طور پر اس کی ضمانت کی درخواست دائر کر دی۔ سیشن جج صاحب کے پاس مقدمہ تھا انہوں نے مجھے کہا کہ یہ عادی مجرم ہو گا جس پر میں نے اُنہیں یقین دلایا کہ وہ ایک غریب عورت کا بیٹا ہے عادی مجرم نہیں۔ اس کی ضمانت ہو گئی اور اگلی تاریخ پر وہ لڑکا پیش نہ ہوا۔ میں نے پتہ کرایا تو معلوم ہوا کہ سیشن جج صاحب کی رائے درست تھی۔ وہ واقعی عادی مجرم اور پکا جیب تراش تھا جس پر میں نے سیشن جج صاحب سے معذرت کی۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں