سری نگر اور بھارت کے 38 شہروں میں تباہ کن زلزلوں کا خطرہ درپیش

سری نگر اور بھارت کے 38 شہروں میں تباہ کن زلزلوں کا خطرہ درپیش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نئی دہلی (کے پی آئی) بھارتی حکومت نے خبردار کیا کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے دارلحکومت سری نگر سمیت بھارت کے 38 شہروں میں تباہ کن زلزلوں کا خطرہ درپیش ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے سرینگر ، بڈگام،گاندربل ، بارہمولہ کپوارہ،بانڈی پورہ، اسلام آباد ، پلوامہ ، ڈوڈہ ، رام بن اور کشتواڑ میں زلزلہ آنے کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ یہ علاقہ Seiemic Zone Vمیں پڑتے ہیں جو کہ سائنسی اعتبار سے زلزلوں کے لحاذ سے سب سے خطرناک تصور کئے جاتے ہیں۔نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کی طرف سے جاری اعداد و شمار اور نقشے کے مطابق ہندوستان میں تباہ کن زلزلوں کا سب سے زیادہ خطرہ شہر سرینگراور آسام کے شہر گوہاٹی کو ہے ۔ تاہم اس رپورٹ کے باوجود بھی ریاستی و مرکزی سطح پر ان زلزلوں کے بعد پیدا ہونے والی حالات سے نپٹنے یا حفظ ما تقدم کے تحت کوئی اقدام نہیں اٹھائے جارہے ہیں۔ بھارتی حکومت کے اس ادارے کی طرف سے جاری فہرست میں ہندوستان کے 38شہروں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں تباہ کن زلزلوں کا خطرہ درپیش ہے تاہم اس فہرست میں شہر سرینگر اور گوہاٹی کوسر فہرست قرار دیکر اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ ان دونوں شہروں میں شدید ترین زلزلے آنے کا احتمال ہے۔ دہلی کو ان دونوں شہروں سے ایک درجہ کم رکھا گیا ہے ۔ اتنے شدید خطرے سے دوچار ہونے کے باوجود بھی حکومتی سطح پر اس ضمن میں کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے اور 2011میں ترتیب دی گئی ناگہانی آ فات نپٹنے کی پالیسی اب بھی صفحہ قرطاس سے عملی اقدامات میں آنے کی منتظر ہے۔
ریاستی سرکار کی طرف سے 2011میں جموں و کشمیر قدرتی آفات سے نمٹنے کی پالیسی تیار کی گئی تھی اور اس میں ریاست کو درپیش11اقسام کی آفات اور ان سے نپٹنے کی تدابیر کامفصل انداز سے ایک خاکہ بھی تیار کیا گیا۔ ستم ظریفی کہئے یا کچھ اور ،یہ تدابیر محض صفحہ قرطاس پر ہی بکھری رہ گئی۔ شعبہ مال، امداد او باز آباد کاری کی طرف سے تشکیل شدہ اس پالیسی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ہندوستان کے جن 100اضلاع کو مختلف انواع کی قدرتی آفات کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑسکتا ہے ان میں سے13جموں و کشمیر میں ہی پڑتے ہیں اورا س وجہ سے یہاں ان آفات سے نپٹنے کیلئے تیاری کی زیادہ ضرورت ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وادی کو دو بڑی قدرتی آفات کا سامنا ہوسکتا ہے جن میں زلزلہ پہلے نمبر پر اور سیلاب کی تباہ کاریاں دوسرے نمبر پر ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رپورٹ میں ہر نوع کی آفت آنے پر فوری راحت کارروائی سے لے کر باز آباد کا ری تک کے تمام مراحل کا احاطہ کیا گیا ہے اورسفارش کی گئی کہ تھی کہ ایک برس کے اندر اندر اس پر عمل آوری کر کے ناگہانی آفات سے نپٹنے کی تیاریاں شروع کی جانی چاہئیں۔تاہم 4برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اب تک اس رپورٹ پر کوئی عمل درآمد نہیں کیاگیا ہے اور سرکاری ذرائع کے مطابق اس رپورٹ پر عمل آوری کیلئے کبھی فنڈ ہی الاٹ نہ کئے گئے جس کی و جہ سے یہ رپورٹ سرد خانے میں ہی پڑی رہی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر اس دستاویز پر من و عن عمل کی گئی ہوتی تو عین ممکن تھا کہ حالیہ سیلاب میں انتظامیہ مفلوج نہ بنتی اور عوام تک فوری راحت جلد ہی پہنچائی جاسکتی تھی۔ رپورٹ کے مطابق وادی کشمیر کے سرینگر ، بڈگام،گاندربل ، بارہمولہ کپوارہ،بانڈی پورہ، اسلام آباد ، پلوامہ ، ڈوڈہ ، رام بن اور کشتواڑ میں زلزلہ آنے کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ یہ علاقہ Seiemic Zone Vمیں پڑتے ہیں جو کہ سائنسی اعتبار سے زلزلوں کے لحاذ سے سب سے خطرناک تصور کئے جاتے ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اگر چہ یہ علاقے ریاست کے کل رقبہ کے 11فیصد پر مبنی ہیں لیکن ان علاقوں میں ریاست کی50فی صد آبادی رہتی ہے۔ ماہرین کی مانیں تو اس وقت جو ناگہانی آفات سے نپٹنے کی تیاری کے انتظامی سطح پر دعوے کئے جارہے ہیں وہ بڑے عامیانہ ہے۔ ماہر ارتعاش ارضیات پروفیسر محمد اسماعیل کے مطابق ریاست میں انتظامیہ سے جب زلزلوں کی تیاری کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ ہم نے اتنی تعداد میں ٹینٹ، کمبل وغیرہ تیاررکھے ہے اس کو کس طرح سے تیاری کا نام دیا جاسکتا ہے ۔ سرکار کو چاہئے تھا کہ ماہرین کی خدمات حاصل کر کے دیکھتی کہ کن علاقوں میں زلزلوں کی وجہ سے پسیاں گر آنے کا خطرہ ہے وہاں بل ڈوزر اور دیگر مٹی ہٹانے کے آلات مہیا رکھے جاتے ، کن علاقوں میں آگ نمودار ہونے کا خطرہ ہے وہاں آگ پر قابو کے انتظامات رکھے جاتے اور اگر کہیں کوئی اور مخصوص خطرہ ہوتا تو وہاں اس خطرے سے نپٹنے کے انتظامات کئے جانے تھے مگر س تم ظریفی کیا بات ہے کہ یہاں ریلیف کا مطلب کمبل اور ٹینٹ فراہم کرنا رہ گیا ہے۔ ایسے میں زلزلوں کے شدید خطرے سے دوچار اس علاقہ کے عوام کا خدا ہی حافظ۔

مزید :

عالمی منظر -