سیاسی زوال کی کوئی حد بھی ہے؟
اچھا ہے کسی نہ کسی حوالے سے کوئی بحث چھڑتی ہے اور اس کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں۔ پشاور اور گردونواح میں بارش اور طوفانی ہواؤں سے تباہی مچی، اموات ہوئیں تو یہ سوال اُٹھا کہ عمران خان اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا 22 گھنٹے تک ہسپتال کیوں نہیں پہنچے، زخمیوں کی عیادت کیوں نہیں کی؟۔۔۔ خود وزیر اعلیٰ پرویز خٹک جب پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچے تو صحافیوں نے اُن سے یہی سوال کیا، جس کے جواب میں اُنہوں نے ایک سخت جواب دیا۔ یہ جواب ہمیں اس لئے سخت لگا کہ روایت سے ہٹ کر تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ مَیں کسی کی ڈکٹیشن پر کہیں نہیں آتا جاتا، جہاں جس وقت ضروری سمجھتا ہوں جاتا ہوں۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ہسپتال آنے سے زیادہ اہم وہ احکامات تھے، جو سرکاری مشینری کو اس آفت سے نمٹنے کے لئے حرکت میں لانے کی خاطر دیئے جانے ضروری تھے۔ سو وہ اُس وقت نہیں آ سکے، ویسے بھی وہ ہسپتال آ کر کیا کرتے، وہ کوئی ڈاکٹر تو تھے نہیں کہ زخمیوں کو طبی امداد دیتے، اس لئے اس بات کو ایشو نہ بنایا جائے۔ اُن کا استدلال تھا کہ سسٹم اتنا فول پروف ہونا چاہئے کہ خود کار طریقے سے چلتا رہے، کسی فرد واحد کا محتاج نہ ہو، اگلے دن جب عمران خان لیڈی ریڈنگ ہسپتال عیادت کے لئے پہنچے تو اُنہوں نے بھی یہی کہا کہ ہسپتال انتظامیہ نے پروٹوکول کی مشکلات کے باعث اُنہیں آنے سے منع کر دیا تھا، اس لئے وہ نہیں آئے۔
اب ایک طرف یہ مؤقف ہے تو دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے وزراء کی چڑھائی ہے۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید تو مسلسل طعنے دے رہے ہیں کہ پشاور میں لوگ مر رہے تھے اور عمران خان اسلام آباد میں بیٹھے تھے، اُنہوں نے خیبرپختونخوا حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور وزیراعلیٰ سمیت وزراء کی عدم موجودگی پر شدید تنقید کی۔ دیکھا دیکھی میڈیا بھی چڑھ دوڑا اور وہی باتیں جو وزیر اطلاعات کر رہے تھے، کی جاتی رہیں اس ساری صورت حال کو دیکھ کر آپ کیا محسوس کرتے ہیں، کیا یہ کوئی صحت مند رجحان ہے؟ کسی زمانے میں لاشوں پر سیاست کرنے کی باتیں کی جاتی تھیں۔ کیا یہ عمل اُس قسم کا نہیں؟ مجھے تو یہ سوچ کر ہی پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ ہم نے آفات کو بھی سیاست چمکانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر خیبرپختونخوا والے نکمے تھے تو پھر وفاقی حکومت نے کون سا تیر مارا ہے، کیا وزیراعظم کو اس مشکل گھڑی میں پشاور نہیں پہنچنا چاہئے تھا، کیا وہ خیبرپختونخوا کے وزیراعظم نہیں؟۔۔۔ مَیں سمجھتا ہوں ایسی فضول باتوں سے عوام کو بے وقوف نہیں بنانا چاہئے۔ کوئی نا گہانی آفت آ گئی ہے تو سب کو مل کر اُس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ یہ بات بھی بڑی مضحکہ خیز ہے کہ محکمہ موسمیات نے پیشگی اطلاع دے دی تھی، اس کے باوجود حفاظتی انتظامات نہیں کئے گئے۔ کیا حفاظتی انتظامات کئے جاتے، تیز آندھی اور بارش سے چھتیں گر گئیں، جانی نقصان ہوا، اب آندھی اور بارش کو کیسے روکا جاتا۔ جو لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے تھے، اُنہیں کیا خبر تھی کہ چھت گر جائے گی اور وہ ملبے تلے دب جائیں گے۔ سیلاب کے آنے کی پیشگی اطلاع تو فائدہ مند ہو سکتی ہے، آندھی یا بارش کی پیشگی اطلاع کے باوجود کیسے بچا جا سکتا ہے؟
اب جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ہر مشکل کے وقت عمالِ حکومت کو لازماً ہسپتال پہنچنا چاہئے، تو ذرا غیر جانبدارانہ اور حقیقت کی نگاہ سے دیکھیں تو یہی لگے گا کہ اس سے زیادہ فضول کام اور کوئی نہیں۔ جب کوئی آفت آتی ہے یا بم دھماکہ ہوتا ہے تو ہسپتال کی ایمرجنسی قیامتِ صغریٰ کا منظر پیش کررہی ہوتی ہے۔ مریض لائے جاتے ہیں، زخمیوں کی آہ و بقاء سے منظر کربناک ہوتا ہے، اوپر سے لواحقین کی یلغار ہسپتال کے نظام کو تہہ و بالا کر دیتی ہے، ایسے میں اگر سیاسی شو آف کے لئے کوئی مقتدر شخصیت بھی دورہ کرنے آ جائے تو ہسپتال کی انتظامیہ باقی سارے کام چھوڑ کر اس کی آؤ بھگت میں لگ جاتی ہے۔ فوری طور پر وارڈ کو ایک خاص انداز سے ترتیب دینا پڑتا ہے، کیونکہ صاحب کے ساتھ میڈیا بھی ہوتا ہے، ایسے میں وہ دم توڑتے مریض جو فوری توجہ کے مستحق ہوتے ہیں، جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس بات کو ہم کب سمجھیں گے کہ ہر وقت کا ایک اپنا تقاضا ہوتا ہے۔ ایمرجنسی کے موقع پر صرف زخمیوں کی دیکھ بھال کو اہمیت دی جانی چاہیے۔ کوئی وی آئی پی فوراً ٹی وی پر آنے کے شوق میں اس حوالے سے کوئی رکاوٹ پیدا نہ کرے تو یہ انسانی جانوں کے لئے ایک بہترین کام ہو سکتا ہے۔
ایک عرصے سے تو مَیں بھی لکھتا آ رہا ہوں کہ کیا فرد واحد کی توجہ کے بعد ہی ہمارا نظام متحرک ہونا چاہیے یا اسے خود کار طریقے سے اپنا کام کرنا چاہیے؟ مجھے وزیراعلیٰ شہبازشریف کی حکمرانی پر کوئی شک نہیں، وہ بڑی محنت کرتے ہیں، مگر مجھے اس وقت اختلاف ضرور ہوتا ہے، جب یہ ٹکر چلتا ہے کہ وزیراعلیٰ کے نوٹس لینے پر پولیس یا ہسپتال انتظامیہ حرکت میں آ گئی۔ یہ کیا طرزِ حکومت ہے کہ جو بجلی کے بٹن کی طرح آن آف ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ نے نوٹس لیا تو آن ہو گیا۔ نہ لیا تو آف رہا۔ آخر اربوں روپے سالانہ کھانے والے سرکاری محکمے اور مشینری کس مرض کی دوا ہے کہ بوقت ضرورت اپنا فرض ادا نہیں کرتی۔ ہمارے زریں اسلامی عہد میں کیا سلاطین خود موقع پر پہنچتے تھے، نہیں ہر گز نہیں، البتہ ان کے نظام کی پہنچ اس قدر زیادہ تھی کہ بروقت لوگوں کی دادرسی کے لئے موجود ہوتا، اگر متعلقہ اہلکار ذمہ داری ادا نہ کرتا تو اس کی فوراً جواب طلبی ہوتی اور سزا ملتی تھی۔ اس زمانے میں کہ جب رسل و رسائل اور مواصلات کے ذرائع نہیں ہوا کرتے تھے، اگر اچھی گورننس کی مثال قائم کی جا سکتی ہے تو اب جبکہ وزراء اعلیٰ وڈیو کانفرنسیں بھی کرتے ہیں،کیوں یہ ضروری سمجھ لیا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ نوٹس لیں گے، موقع پر آئیں گے تو بات بنے گی، وگرنہ بگڑی رہے گی۔
مَیں سمجھتا ہوں اس قسم کے رویے نے ہماری سرکاری مشینری کو زنگ آلود کر دیا ہے۔ اس کے اپنے اندر تحرک اور چلنے کی سکت ختم ہو گئی ہے، جس طرح کمزور بیٹری والی گاڑی کو دھکے سے شارٹ کرنا پڑتا ہے، اسی طرح آج کی سرکاری مشینری بھی وزرائے اعلیٰ، وزیروں اور کبھی وزیراعظم کی ذاتی دلچسپی کے بعد حرکت میں آتی ہے۔ میرے نزدیک یہ بری حکومت کی سب سے بڑی مثال ہے۔ مشکل کے وقت حکومتی محکمے متحرک نظر آنے چاہئیں، وزراء کے چہرے نہیں، ایک وزیر ملبے تلے دبے ہوئے کسی بچے تک کو نہیں نکال سکتا، یہ کام متعلقہ محکموں نے کرنا ہوتا ہے، انہیں فعال اور متحرک بنانے کی ضرورت ہے۔یہاں ٹی وی پر یہ خبر نہیں چلتی کہ ہسپتال میں عملہ موجود نہیں یا ریسکیو والے نہیں پہنچے، بلکہ خبریہ چل رہی ہوتی ہے کہ موقع پر کوئی وزیر نہیں پہنچا۔۔۔ اس کے پہنچنے یا نہ پہنچنے سے اگر اچھی یا بُری حکومت کا اندازہ لگانا ہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ پشاور و گردونواح کے اس سانحے پر ہم ایک قوم بن کر ردعمل ظاہر کرتے۔ آفت کو آفت سمجھتے اور اس سے نمٹنے کے لئے اپنی ساری توانائیاں صرف کر دیتے۔ اس کے برعکس اسے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا ذریعہ سمجھ لیا گیا۔ پرویز رشید خیبرپختونخوا حکومت پر ایسے برسے، جیسے آندھی اور بارش کا طوفان حکومت کی وجہ سے آیا۔ وہ یہ بھول گئے کہ بطور وزیراعظم نوازشریف کو سب سے پہلے پشاور پہنچنا چاہیے تھا، اگر وہ موقع پرپہنچنے کو ہی سب سے بڑی خدمت سمجھتے ہیں، کیونکہ وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور ناگہانی آفات میں گھرے پاکستانیوں تک پہنچنا ان کی ذمہ داری ہے۔ حیرت ہے کہ جب وزیراعظم کی طرف سے پشاور کے متاثرین کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کیا جا رہا تھا، پرویز رشید جلتی پر تیل ڈال رہے تھے۔ کاش وہ اس موقع پر صرف اظہار ہمدردی کرتے، خیبرپختونخوا حکومت کو ہر قسم کی امداد کا یقین دلاتے اور یہ پیغام دیتے کہ مشکل کی اس گھڑی میں پوری قوم اپنے متاثرہ بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہماری سیاست اب اس قدر زوال آمادہ ہے کہ اپنے سیاسی دشمنوں کو نیچا دکھانے کے لئے ہم کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں، چاہے ہمیں اس حوالے سے لاشوں اور زخمیوں کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے۔