علی گیلانی کی سری نگر واپسی پر مسرت عالم نے پاکستانی پرچم لہرایا اور باغیانہ تقریر کی
نئی دہلی (کے پی آئی) بھارتی حکومت نے کہا ہے کہ تشدد کا راستہ ترک کرنے والوں کے ساتھ بھارتی آئین کے دائرے میں رہ کر بات چیت کی جائے گی ۔ بھارتی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ جموں کشمیر میں سرگرم حریت پسند لیڈران فورسز کی مبینہ زیادتیوں، افسپااور پی ایس اے کے غلط استعمال، سیلاب زدگان کے لیے حکومت کی مبینہ سرد مہری اور کشمیری پنڈتوں کی واپسی جیسے معاملات کو لیکر عوامی جذبات کا استحصال کرتے ہیں۔وزارت داخلہ نے اس ضمن میں15واقعات پر مشتمل ایک فہرست بھی پارلیمنٹ میں پیش کی ہے اور کہا ہے حریت پسندوں نے سیلاب کے دوران حکومت اور سیکورٹی فورسز کی امدادی کارروائیوں کو کم تر اور خود کولوگوں کا مسیحا جتلانے کی کوشش کی۔ امور داخلہ کے بھارتی وزیر مملکت ہری بھائی پراٹھی بھائی چوہدری نے لوک سبھا میں ایک سوال کا تحریری جواب دیتے ہوئے ریاست جموں کشمیر میں حریت پسندوں کی سرگرمیوں کا خاکہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ سال2014اور2015کے دوران ایسے متعدد واقعات پیش آئے جن میں حریت پسند لیڈران نے عوامی جذبات کا استحصال کرنے اور سیلاب کے دوران امدادی کارروائیوں کو لیکر سرکار اور فورسز کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کی۔
اس ضمن میں ان کا کہنا تھامختلف علیحدگی پسند گروپ سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں مبینہ زیادتیوں، آرمڈ فورسز سپیشل پارس ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ کے غلط استعمال حریت پسندوں پر پابندیوں، سیلاب زدگان کے تئیں حکومت کی مبینہ سرد مہری اور کشمیری پنڈتوں کی واپسی جیسے معاملات کو لیکر لوگوں کے جذبات کا استحصال کرنے کی کوشش کرتے آئے ہیں اور اس سلسلے میں حریت پسندوں کی طرف سے گزشتہ ایک برس کے دوران ہڑتال کی متعدد کالیں بھی دی گئیں۔وزیر موصوف نے اپنے تحریری جواب میں ریاست میں پیش آئے ایسے15واقعات کی فہرست بھی پیش کی جن کے دوران بقول ان کے حریت پسندوں نے عوامی جذبات بھڑکانے کی کوشش کی ۔انہوں نے کہاسیلاب کے بعد حریت پسندوں نے نہ صرف خود کوکشمیری عوام کا مسیحا جتلانے بلکہ حکومت اور سیکورٹی فورسز کی طرف سے امداد اور بازآبادکاری سے متعلق کارروائیوں کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش بھی کی۔ ہری بھائی پراٹھی بھائی چوہدری نے بتایا کہ حریت پسندوں نے جولائی ، اکتوبر اور دسمبر کے مہینوں میں وزیر اعظم نریندر مودی کے دوروں کے موقعوں پر وادی میں ہڑتال کی کال بھی دی۔انہوں نے کہا کہ سید علی شاہ گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک سمیت متعدد حریت پسندوں نے 23مارچ2015کو دلی میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن پر منعقدہ یوم پاکستان کی تقریب میں شرکت کی۔ داخلی امور کے مرکزی وزیر مملکت نے ایوان کو بتایا کہ گیلانی، میرواعظ اور ملک نے 18اپریل کو سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے مارے گئے نوجوان کے لواحقین کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرنے کیلئے نارہ بل کا دورہ کیا اور خطاب کرتے ہوئے مین سٹریم ( بھارت نواز)سیاسی پارٹیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔وزارت داخلہ نے اپنے جواب میں15اپریل کو سرینگر میں منعقدہ اس جلسے کا تذکرہ بھی کیا ہے جو حریت(گ) چیئرمین سید علی گیلانی کی دلی سے کئی ماہ بعد واپسی کے موقعے پر منعقد کیا گیا۔انہوں نے کہاجلسے میں ملک مخالف نعرے بازی کی گئی اور مسرت عالم نے باغیانہ تقریر کی جنہیں اس کے علاوہ ملک مخالف نعرے بلند کرنے اور پاکستانی پرچم لہرانے والے ایک ہجوم کی قیادت کرنے میں بھی ملوث پایا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس جلسے میں حریت پسندوں کی بھارت مخالف اور پاکستان نواز سرگرمیوں کے حوالے سے پولیس اسٹیشن بڈگام میں غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد، ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے، مجرمانہ سازش،فساد بپا کرنے اور لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے سے متعلق قوانین کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی۔انہوں نے کہا کہ بعد میں مسرت عالم پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق عمل میں لاکر انہیں گرفتار کیا گیا۔ بھارتی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ حریت پسندوں نے گزشتہ برس امرناتھ یاترا کے دوران اگست2014کے مہینے میں بھنڈاراوالوں اور مرکبانوں کے مابین معمولی لڑائی کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جبکہ سید علی گیلانی اور شبیر احمد شاہ نے کوثر ناگ یاترا کو لیکر اسی طرح کی کوششیں کیں اور اس ضمن میں جنوبی کشمیر میں مظاہروں کا بھی اہتمام کیا۔ بھارتی وزیر مملکت نے مزید کہا گیلانی نے جولائی2014میں ایک سڑک حادثے میں6شہریوں کی ہلاکت کوکشمیریوں کوجان بوجھ کر ہلاک کرنے کی کارروائی قرار دیکر لوگوں کے جذبات کا استحصال کرنے کی کوشش کی اور دوروزہ ہڑتال کی کال دی۔وزیر موصوف نے اپنے جواب میں ایسے لوگوں کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار ہونے کا اشارہ بھی دیا جو بقول ان کے تشدد کا راستہ ترک کرکے آئین ہند کے دائرے کے اندر اندر اسکے لئے تیار ہوں۔ اس سلسلے میں وزارت داخلہ نے پارلیمنٹ کو بتایا حکومت اس بات کو یقینی بنانے پر کاربند ہے کہ جموں کشمیر میں ایسی کوئی ملک دشمن سرگرمی انجام نہ دی جائے جو ریاست کی صورتحال کو غیر مستحکم کرے اور اسکے اثرات پورے ملک پر مرتب ہوں لیکن ساتھ ہی ان لوگوں کے ساتھ بات چیت کیلئے بھارتی حکومت کے دروازے کھلے ہیں جو تشدد کا راستہ چھوڑ کر آئین ہند کے فریم ورک کے تحت کام کرنے پر آمادہ ہوں۔