عمران خان کو بدلنا ہو گا
عمران خان کو خدا نے عزت دی ہے، مقام دیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ موقع دیا ہے کہ عوامی امنگوں کا استعارہ بن سکیں۔۔۔انہیں ہوش کے ناخن لینا ہوں گے، اپنا آپ بدلنا ہوگا، تبدیل کرنا پڑے گا، اپنی طرز سیاست ، اپنی ڈکشن، اپنا انداز گفتگو، اپنے طور طریقے اور اپنی چال ٹھیک کرنا ہوگی! عوامی لیڈر کی پہچان یہ نہیں ہونی چاہئے کہ اس پر لڑکیاں مرتی ہیں، اس سے شادی کو مرے جا رہی ہیں، وحید مراد اور مراد سعید میں فرق ہونا چاہئے، اگر لیڈر کی یہ پہچان ہو تو جہاں اس سے لڑکیوں کی کسی شخصیت کے بارے میں crazeکا اندازہ ہوتا ہے وہیں پر اس شخصیت کے کردار کی عکاسی بھی ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنی ایسی شہرت سے مطمئن ہے۔۔۔سیاست میں آپ صرف لڑکیوں اور خواتین کے نہیں، بلکہ لڑکوں اور مردوں کے لیڈر بھی ہوتے ہیں، کتنے بھائی اور شوہر ایسے ہوں گے جو اپنی بہنوں اور بیویوں کو اس لئے جلسے میں لے کر جائیں کہ انہیں عمران خان کو دیکھنا ہے! سیاست میں ایک ایک لفظ، ایک ایک حرکت کا نوٹس لیا جاتا ہے، یہاں ہر لفظ اور ہر حرکت کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔۔۔عوام کیونکر پسند کریں گے کوئی لیڈر انہیں ’زندہ لاشیں ‘کہے یا پھر ہر شام کنٹینر پر چڑھ کر اوئے توئے کرے! عمران خان اکثر کہتے ہیں کہ عزت اور ذلت خدا کے ہاتھ میں ہے، کوئی ماجھا گاما انہیں ذلیل نہیں کر سکتا، لیکن ہم بصد احترام گزارش کریں گے کہ اس سے بڑھ کر ذلت اور کیا ہو سکتی ہے کہ آپ تقریر کے لئے کھڑے ہوں تو طوفان بادو باراں شروع ہو جائے، ایسی آندھی چلے اور ایسی بارش برسے کہ آپ کی آواز دب کر رہ جائے، آپ بولنا چاہیں تو بول نہ سکیں، سامنے والے سننا چاہیں تو سُن نہ سکیں۔۔۔اس سے بڑھ کر اور ذلت کیا ہو سکتی ہے کہ آپ لانگ مارچ کے لئے لاہور سے نکلیں تو گوجرانوالہ میں عوام جوتیاں دکھا کر آپ کا استقبال کریں۔۔۔اس سے بڑھ کر اور کیا ذلت ہوسکتی ہے کہ الیکشن سے دو روز قبل آپ30 فٹ کی بلندی سے قلابازی کھا کر زمین پر آ گریں۔۔۔اس سے بڑھ کر اور ذلت کیا ہوگی کہ ٹی وی اور اخبارات پر آپ کے بارے میں بیان داغے جائیں کہ آپ کوکین کا نشہ کرتے ہیں اور سیدھی لکیر پر چل نہیں سکتے۔۔۔سے بڑھ کر اور ذلت کیا ہو سکتی ہے کہ آپ کو پڑھے لکھوں کا لیڈر کہا جائے اور آپ پڑھے لکھوں کے علاقے میں ہی ہار جائیں۔۔۔اس سے بڑھ کر اور ذلت کیا ہو سکتی ہے کہ آپ دھاندلی کا شور مچائیں اور جوڈیشل کمیشن میں کوئی ڈھنگ کا ثبوت پیش نہ کر سکیں! اِسی طرح عمران خان ایک اور پالتو جملہ ہے کہ خدا نے انہیں سب کچھ دے دیا ہے، ہر طرح سے نواز دیا ہے، اس لئے انہیں کسی شے کی ضرورت نہیں اور اگر لوگوں نے ان کو ووٹ نہ دیئے تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گااور اگر کوئی فرق پڑے گا تو ان کے مخاطبین کو پڑے گا۔۔۔ اگر کوئی اپنے مخاطب کو ایسی باتیں سنائے تو اس سے بڑھ کر وہ اپنے مخاطب کی تذلیل نہیں کر سکتا کہ اپنی گفتگو سے اسے باور کرائے کہ خدا نے اسے کچھ نہیں دیا ہے، کسی نعمت سے نہیں نوازا ہے اور وہ شخص عمران خان کے مقابلے میں پستی کی انتہائی نچلی سطح پر ہے ، گویا کہ اپنے مخاطب کو اس قدر بے ہمتا کرکے عمران خان اپنی تان اس نعرے پر توڑتے ہیں کہ تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے! ہم بصداحترام عرض کریں گے کہ انداز کے یہ سوچ، یہ وطیرے، یہ طور طریقے سیاست میں نہیں چلتے، اس میدان میں جھکنا پڑتا ہے، ووٹر کو مائی باپ ماننا پڑتا ہے، اسے اپنے تن کا ماس کھلانا پڑتا ہے، تب بھی وہ راضی نہیں ہوتا، سو سو جتن کرنا پڑتے ہیں تب کہیں جا کر عوام آپ کو مینڈیٹ دیتے ہیں، اپنی مرضی اور اپنا اختیار دیتے ہیں! اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار تو ہوا جاسکتا ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ووٹوں سے اقتدار میں نہیں آیا جا سکتا، اس کے لئے عوام کے ارادوں کو جیتنا پڑتا ہے، ان کی امنگوں کا ادراک کرنا پڑتا ہے، تب کہیں جا کر رادھا ناچتی ہے! عمران خان کے حامی انہیں امید کی آخری کرن سے تعبیر کرتے ہیں، بجا، لیکن امید کی اس آخری کرن سے خیر کی امید رکھنا عبث ہے تا آنکہ وہ اپنے اندازتبدیل کرلیں۔۔۔اس میں شک نہیں کہ اگر پاکستانیوں کو متبادل قیادت میسرنہ آئی تو پاکستان سیاسی بحران کا شکار ہو جائے گا،جو عوامی مایوسی پر منتج ہو سکتی ہے ، اس لئے عمران خان کو چاہئے کہ وہ قدرت کے عطا کردہ موقع کو پہچانیں اور تبدیلی لانے سے پہلے خود تبدیل ہو کر دکھائیں، خالی ریحام خان کا نہیں عوام کا لاڑا بن کر دکھائیں وگرنہ آنے والے دنوں میں ان کی توقیر وہ بھی نہ رہے گی جو جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ آنے تک ہے!