وہ قانون بتایا جائے جس سے پارلیمنٹ کو قانون سازی سے روکا جا سکے ،سپریم کورٹ

وہ قانون بتایا جائے جس سے پارلیمنٹ کو قانون سازی سے روکا جا سکے ،سپریم کورٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 اسلام آباد(آن لائن)سپریم کورٹ نے اٹھارہویں اور اکیسویں آئینی ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے سے متعلق درخواست گزاروں کے وکلاء سے آئینی اور قانونی معاونت طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ۔ عدالت کا کہنا ہے کہ قانون سازی کی آئینی حیثیت جاننے کی کوشش کررہے ہیں وہ قانون بتایا جائے کہ جس سے پارلیمنٹ کو قانون سازی سے روکا جاسکے ۔ بدھ کے روز چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سترہ رکنی فل کورٹ بینچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو حامد خان ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی یا سیاستدانوں کا نہیں اداروں کا ہے اگر پارلیمانی کمیشن کو اختیارات دیئے گئے ہیں تو ممکنہ بائیسویں ترمیم کے ذریعے وہ اختیارات کم بھی کئے جاسکتے ہیں اس پر عدالت نے کہا کہ اگر کمیشن کو اداروں سے رپورٹ طلب کرنے کے اختیارات دے دیئے جائیں تو کیا اس سے کارکردگی بہتر ہوگی ۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کیا بہتر نہیں کہ اداروں سے رپورٹ منگوانے اختیار دے دیا جائے پارلیمانی کمیٹی کو اگر کمیشن میں شامل کیا جائے تو کیا کسی کو اس پر اعتراض ہوگا اس پر حامد خان نے کہا کہ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا ہے اور وہ ایسی قانون سازی نہیں کرسکتی جو آزاد عدلیہ اور بنیادی آئینی ڈھانچے کے خلاف ہو ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم تو پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کالعدم قرار نہیں دے سکتے اب تک عدالت نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے حامد خان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے معاملات میں قانون سازی کو آئین کے تحت پرکھا جاسکتا ہے جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اگر ججز تقرری میں اگر پارلیمنٹ کو بھی شامل کرلیا جائے تو کیا قباحت ہے اس پر حامد خان نے کہا کہ بات کسی قباحت کی نہیں بات آئین اور قانون کی ہے پارلیمانی کمیٹی بنا کر جوڈیشل کمیشن کے اختیارات پر جو قدغن لگائی گئی ہے یہ کس طرح سے ممکن ہے کہ جن ججز کی تقرری کا فیصلہ ججز کمیٹی کرے تو اس کو پارلیمان کی کمیٹی کس طرح سے مسترد کرسکتی ہے میں تو کہتا ہوں کہ پارلیمانی کمیٹی سرے سے ہونی ہی نہیں چاہیے یہ پارلیمانی کمیٹی آزاد عدلیہ اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے اوراس کے علاوہ یہ بنیادی انسانی حقوق کیخلاف بھی سمجھی جاسکتی ہے اس پر عدالت نے کہا کہ قانون کالعدم قرار دینے کیلئے عدالت اسے آئین کی کسوٹی پر پرکھتی ہے ہم اس علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کررہے ہیں جس کا دروازہ بند ہے وکلاء اس معاملے پر عدالت کی معاونت کریں عدالت نے بعد ازاں کیس کی مزید سماعت پیر تک کیلئے ملتوی کردی اور وکلاء کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس معاملے پر عدالت کی معاونت کریں کہ پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی قانون سازی کو کس طرح کالعدم قرار دیاجاسکتا ہے حامد خان آئندہ سماعت پر بھی دلائل جاری رکھیں گے ۔ در یں اثنا ء لا ہو ر ہا ئی کو رٹ با ر ایسو سی ایشن را ولپنڈی نے18ویں آ ئینی تر میم کے خلا ف در خواست واپس لے لی جو عدا لت نے نمٹا دی

مزید :

صفحہ اول -