اب سعودی عرب میں شاہ عبدالعزیز کے بیٹوں کی بجائے پوتوں کا دور شروع ہو گا
تجزیہ :قدرت اللہ چودھری
شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے تازہ فیصلے خاصے دھماکہ خیز معلوم ہوتے ہیں۔ انہوں نے شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد عنان اقتدار سنبھالتے ہی شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز کو جو سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ تھے اپنا خصوصی مشیر مقرر کیا تھا۔پھر چند دن بعد انہیں ولی عہد نامزدکیا گیا ، ساتھ ہی شہزادہ محمد بن تائف کو نائب ولی عہد بنا دیا گیا۔اس سے پہلے ولی عہد کا نائب مقرر کرنے کی کوئی روایت نہیں تھی ،اس نامزدگی سے یہ عندیہ ملا کہ شہزادہ مقرن ،عبدالعزیز کے آخری بیٹے ہونگے جو ولی عہد سے ترقی کرکے بوقت ضرورت بادشاہ بن سکیں گے ۔ اس کے بعد محمد بن نائف سے عبدالعزیز کے پوتوں کا دور شروع ہوجائیگالیکن شہزادہ مقرن چند ماہ ہی ولی عہد رہ سکے اور اب انہیں ہٹا کر محمد بن نائف کو ولی عہد نامزد کرنے کا مطلب ہے کہ عبدالعزیز کے بیٹوں میں سے آخری بادشاہ ،شاہ سلمان خود ہونگے۔ان کے بعد اب بادشاہ بننے کی باری نئے ولی عہد شہزادہ محمدبن نائف کی ہے ۔ سعودی رائل فیملی سے روابط رکھنے والے باخبر ذریعوں کاکہناہے کہ شہزادہ مقرن کو ان کی خراب صحت کی وجہ سے خود ان کی خواہش پر ولی عہد سے ہٹایا گیا ہے کیونکہ وہ بیمار ہیں اور گزشتہ دنوں بیرون ملک سے علاج کراکے لوٹے ہیں۔شہزادہ مقرن کے بیٹے منصور کو شاہی دیوان کا مشیر مقرر کرنے کے فیصلے سے مترشح ہوتا ہے کہ شہزادہ مقرن کو ہٹانے کی وجہ ان سے کوئی مخالفت نہیں ہے ورنہ ان کے بیٹے کو شاہی دیوان کا مشیر مقرر نہ کیا جاتا۔
شاہی خاندان اب بہت وسیع ہو چکا ہے اس لئے یہ امر بعید از قیاس نہیں کہ ان کی سوچوں اور خیالات میں بھی تنوع ہو، اس لئے مشاورت کے وقت بہت سی آرا سامنے آتی ہیں۔تاہم سعودی فرمانروا کوئی بھی بڑافیصلہ کرنے سے پہلے مختلف سطحوں پر مشاورت کرتے ہیں۔ مشاورت کا یہ عمل شاہی خاندان سے لے کر علماء اور اہل رائے حضرات تک پھیلا ہوا ہے ۔آخری فیصلہ بہر حال رائل فیملی کی مشاورت سے کیا جاتاہے۔
سعودی وزیرخارجہ سعود الفیصل کو عہدے سے الگ کیا جانا واقعی دھماکہ خیز فیصلہ ہے ۔وہ گزشتہ چار عشروں سے وزیر خارجہ چلے آرہے تھے اوراس دوران آنے والے تمام سعودی فرمانرواؤں نے انہیں ان کے عہدے پر برقرار رکھا۔یہ کہا جا سکتاہے کہ گزشتہ چالیس برس سے سعودی خارجہ پالیسی کے نقش و نگار سعود الفیصل ہی سنوارتے چلے آرہے تھے ، اس وقت بھی خارجہ پالیسی تو پرانی ہی چلی آرہی ہے ۔البتہ گزشتہ کچھ عرصے سے امریکہ کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں ایران کے معاملے پر تھوڑی سی دراڑ ضرورنظر آئی ہے۔ سعودی عرب ایران کے ساتھ امریکی نیوکلیئرمعاہدے کے حق میں نہیں، خود امریکہ کے اندر سارے ری پبلکن ارکان کانگرس بھی ایران امریکہ معاہدے کے مخالف ہیں ، اسرائیلی وزیر اعظم نے تو کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ایران کے ساتھ معاہدے کی مخالفت کی اور سفارتی روایات سے ہٹ کر 47ارکان کانگرس نے ایرانی حکومت کو خط لکھ دیاکہ وہ صدر اوباما کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کرے اور اگر ایسا کیا گیا تو آنے والا ری پبلکن صدر اس معاہدے کو منسوخ کردے گا۔امریکہ کے اندر ری پبلکن ارکان کی ان سرگرمیوں کو زیادہ پسند نہیں کیا جا رہا اور اسے امریکی صدر کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے مترادف قراردیا گیا ہے،اس لئے جب خود امریکہ کے اندر اوباماکی ایران پالیسی کی مخالفت ہو رہی ہے تو سعودی مخالفت زیادہ حیران کن نہیں۔ سعودالفیصل کے جانشین کے طورپر امریکہ میں سعودی سفیر عادل الجبیر کو وزیرخارجہ بنایا گیا ہے۔
بعض حلقے سعودی کابینہ کی ان تبدیلیوں کو مخصوص زاویے سے دیکھ کر یہ نظریہ قائم کرتے ہیں کہ ایسے فیصلے شاہی خاندان کے اندرونی اختلافات پر دلالت کرتے ہیں ۔ یہ بات اس حد تک تو ضروردرست ہو سکتی ہے کہ وسیع شاہی خاندان جو اس وقت ہزاروں افراد پر مشتمل ہے زندہ و متحرک انسانوں پر مشتمل ہے ۔ اس لئے اگر خاندان میں اختلاف رائے ہے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ،حیرت تو اس وقت ہوتی جب ہزاروں افراد ایک ہی طرح سوچتے اورمختلف مناظرکو مخصوص عینک کے ساتھ ایک ہی طرح سے دیکھتے ۔ شاہی خاندان میں ہر طرح کے لوگ ہیں ۔جدید تعلیم یافتہ اورجدید علوم پر گہری نظر رکھنے والے بھی، ان میں سے اکثر نے امریکہ اورمغربی ملکوں میں تعلیم پائی۔ظاہر ہے یہ ان معاشروں سے متاثر بھی ہونگے اوروہاں کی روشن خیالی نے بھی ان کے ذہنوں کو کسی حد تک جلابخشی ہوگی۔اس لئے اختلافات کی بات تو قدرتی ہے اورجب خاندان کا سربراہ (یعنی بادشاہ)خاندان کے دوسرے لوگوں سے مشاورت کرتاہے تو اختلافی خیالات بھی سامنے آتے ہونگے لیکن فیصلے بہرحال مشاورت کے نتیجے میں ہی طے پاتے ہیں۔جب شاہ عبدالعزیزکے جانشین سعود بن عبدالعزیز کوبادشاہت سے ہٹا کر فیصل کو بادشاہ بنایا گیاتو کہاجا رہا تھا کہ سعودبن عبدالعزیز کی خراب صحت کی وجہ سے انہیں ہٹا گیا لیکن بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ شاہ سعود کی بعض حرکتیں پسندیدہ نہ تھیں اور وہ امور مملکت کو احسن طریقے سے نہیں چلا رہے تھے چنانچہ خاندان نے انہیں ہٹا کر فیصل کو بادشاہ بنانے کا فیصلہ کیا لیکن خود شاہ فیصل بھتیجے کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔یہ بھی شاہی اختلافات کا ہی ایک رخ تھا۔ جب سے سعودی عرب قائم ہوا ہے شاہ عبدالعزیز کے بعد ان کے بیٹے ہی بادشاہ کا منصب سنبھالتے رہے ہیں۔ اب پہلی مرتبہ ہے کہ شاہ عبدالعزیز کا پوتا بادشاہ بنے گا ۔ بیٹوں کا عہد شاہ سلمان کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوجائے گا یا یوں کہہ لیں کہ شاہ سلمان آخری بادشاہ ہونگے جو شاہ عبدالعزیز کے بیٹے ہیں۔ ان کے بعد نئے عہد کا آغاز ہو گا تاہم پوتوں سے یہ مراد نہ لی جائے کہ وہ کوئی نوجوان ہیں۔ شاہ عبدالعزیز کے کسی بھی پوتے کی عمر 50سال سے کم نہیں ہے۔