امام کعبہ کا کامیاب دورہ، کئی سوال چھوڑ گیا، سوشل میڈیا پر بحث
تجزیہ : چودھری خادم حسین
امام کعبہ الشیخ خالد الغامدی کی آمد اور ان کی پذیرائی نے یہ واضح اور ثابت کر دیا کہ پاکستان کے عوام حرمین شریفین کے لئے کیسے جذبات رکھتے ہیں۔ کعبہ کے متعدد امام حضرات میں سے ایک امام الشیخ خالد الغامدی بھی ہیں لیکن عوام کو اس سے بھی کوئی غرض نہیں تھی۔ ان کی عقیدت تو ان مقامات مقدسہ سے ہے جہاں سے یہ تشریف لائے ان کا استقبال اپنی جگہ۔ تاہم انہوں نے جہاں جہاں نماز پڑھائی ان مقامات کے حوالے اور خود ان کے بیانات سے کئی سوال پیدا ہو گئے ہیں اور اب سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث شروع ہو گئی کہ وہ کس مشن پر آئے تھے اور کیا امام کعبہ کو سیاسی مشن ادا کرنا چاہئے اور کیا ان کی طرف سے عوامی جذبات کی تعریف کے ساتھ یہ کہنا کہ پارلیمینٹ کی قرار داد اور عوامی جذبات میں فرق ہے مناسب تھا؟
سوشل میڈیا پر تو جو بھی کہا جا رہا ہے اس سے ہمیں غرض نہیں لیکن یہ بھی ایک عوامی وسیلہ بن گیا ہوا ہے اس لئے اسے نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا، امام کعبہ کو سیکیورٹی تو سرکاری سطح پر دی گئی، وزیر اعلیٰ سے ملے تو اسلام آباد میں بھی اعلیٰ سطحی ملاقاتیں کیں۔ لیکن ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کا دورہ سرکاری سطح پر تھا یا پھر ایک خاص دینی جماعت نے مدعو کیا کہ قریباً تمام پروگرام اسی مخصوص دینی جماعت کے توسط ہی سے بنے۔ البتہ خطبہ جمعہ (بحریہ ٹاؤن ملک ریاض کی ذاتی کاوش ہو سکتی ہے) بہر حال بہتر یہ تھا کہ ان کے دورے کو پروٹو کول کے ساتھ خود حکومت سنبھالتی اور ان کی ایک ملاقات تمام تر مکاتب فکر کے اکابرین سے سرکاری سطح پر کرائی جاتی اور تبادلہ خیال ہوتا یقیناً جب سب اکابر بھی حرمین شریفین کے لئے جانیں نچھاور کرنے کے عزم کا اظہار کرتے تو اس سے پاکستان اور حکومت پاکستان کے موقف کی تائید ہوتی۔ اس سلسلے میں احتیاط کی ضرورت ہے آئندہ اور بھی حضرات تشریف لا سکتے ہیں یا دعوت دے کر بلائے جا سکتے ہیں۔
آج اگر عسکری عزم کی بات کر لی جائے تو کیا حرج ہے، آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بہاول پور میں خطاب کیا بھرپور تقریر اور پر عزم خطاب تھا۔ ان کا یہ کہنا ایک اور سنگ میل ہے کہ فوجی آپریشن کی وجہ سے دہشت گردی ختم ہوئی تو ملکی ترقی کی راہیں بھی ہموار ہو رہی ہیں اور انشاء اللہ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کر کے ملک کو پر امن اور ترقی یافتہ بنائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی یہ اطلاع کہ پاکستان کی فضائیہ نے رات کی تاریکی میں ہدف تلاش کر کے نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ بہت خوش کن ہے اور پاکستان کے دفاع میں ایک اور سنگ میل عبور کر لیا گیا ہے۔ بلکہ اسے بڑی کامیابی قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
اب اس پر بھی باتیں بنائی جائیں گی ، لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے حربی ماہرین دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے کم نہیں ہیں اور یہ بات میزائل ٹیکنالوجی کے بعد اب ’’نائٹ وژؤ سے بھی ثابت ہوتی ہے۔
عسکری صلاحیتیں ا ور افادیت اپنی جگہ، لیکن سیاسی استحکام کی حالت وہ نہیں جو ہونا چاہئے۔ اس کے لئے کسی ایک حصے کو الزام نہیں دیا جا سکتا ہمارے خیال میں زیادہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے جو کچھ لینے یا دینے کی پوزیشن میں ہے، حکمران جماعت اور مخالفوں میں بہت فرق ہوتا ہے، حکمران جماعت کے حضرات میں زیادہ تحمل ہونا چاہئے اور اعتراضات کا صرف جواب ہی نہیں اگر غلطی ہو تو تسلیم بھی کرنا چاہئے اور کام صحیح نہ ہو تو اسے درست بھی کرنا چاہئے اسی طرح مخالفین کو ذاتی حملے بند کر کے ذاتی پر خاش کی بجائے قومی مسائل پر گفتگو کرنا چاہئے۔
ان گزارشات کی وجہ یہ ہے کہ جس زور شور سے چینی سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے اب اسی زور شور سے یہ کام بھی شروع ہوں گے تو اعتراض بھی ویسے ہوں گے اس کے لئے بھی ساز گار فضا ضروری ہے۔