جرنلزم کے طلبا صحافت اور اردو سے نابلد،مضحکہ خیز جوابات
لاہور(ویب ڈیسک) بی اے صحافت کا امتحان دینے والے اکثر طلبا صحافت اور اردو سے نابلد نکلے جبکہ بعض طلبا نے امتحانی پرچے میں انتہائی بے تکے جوابات لکھے بعض نے تو املا کی بھی غلطیاں کر ڈالیں طلبا نے بعض سوالات کے جواب اس طرح دئیے ریڈیو سے تصاویر اور خبریں شائع کی جاتی ہیں۔
ٹی وی متحرک تصاویر شائع کرتا ہے ،ٹیلی ویژن سے اندھے ، گونگے اور بہرے استفادہ کرتے ہیں۔اکثر امیدواروں نے تو انتہائی عام فہم اور آسان الفاظ مثلاً سستا، ریڈیو، قارئین جیسے الفاظ کو سستہ، ریڈیوں اور کارئین لکھا ۔ ایک امیدوار نے ابلاغ میں زبان اور چہرے کے تاثرات پر مبنی سوال کے جواب میں لکھاکہ زبان گوشت کی بوٹی ہے بظاہر یہ گوشت کا ٹکڑا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہمارے حلق میں پیوست کر دیا ہے ۔
اس سے ابلاغ کئے بغیر کوئی انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔خبر کی زبان میں عامیانہ پن ہوتا ہے اور اسے بولنے اور سننے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ایک اور امیدوار نے لکھا کہ اے پی این ایس اور سی پی این ای نیوز ایجنسیوں اور رپورٹروں پر نظر رکھتی ہیں۔ حسن نثار آجکل روز نامہ نوائے وقت میں چوراہا کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں، عطاالحق قاسمی سرکاری ملازم ہونے کے باوجود حق سچ کی بات کرتے ہیں۔ایک اور دانا امیدوار نے اخبارات کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا کہ اخبار پڑھنے سے لوگوں کا وقت ضائع ہوتا ہے اور اسکی نشریات کا انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ اخبارات سیاستدانوں کی تخریبی کارروائیوں کی سرخیاں شائع کرتے ہیں۔
ریڈیو کو صرف گانوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔بے جان اشیاء جب تک مرتی نہیں ایک دوسرے سے ابلاغ جاری رکھتی ہیں،ٹیلی ویڑن کی خبر مصدقہ نہیں ہوتی ،اداریہ اخبار کے پہلے صفحے پر لکھا جاتا ہے ۔ ایک اور امیدوار نے جانوروں کے ابلاغ کی مثال دیتے ہوئے لکھا کہ مرغی انڈہ دینے کے بعد کوٹ کوٹ کراں کراں کی آوازیں نکال کر ابلاغ کرتی ہے ۔ایک امیدوار نے لکھا کہ روز مرہ کی زبان ہم اس طرح بولتے ہیں کہ اگلا سمجھ جاتا ہے۔