یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
(انضمام العیش )
صبح صبح جب میں گھر سے یونیورسٹی کے لیے نکلتا تو راستے میں اعوان ٹاﺅن کے سامنے مزدوروں کا رش لگا دیکھتا جو مزدوری کی تلاش میں اس انتظار میں کھڑے ہوتے کہ ابھی کوئی آئے گا اور انہیں کام کے لیے اپنے ساتھ لے جائے گا ،میں روزانہ انہیں دیکھتا اور بنا کچھ سوچے وہاں سے گزر جاتا ،گزشتہ شب میں نیوز روم میں اپنے سینیئر کے ساتھ باتیں کرنے میں مشغول تھا کہ ایک ساتھی بولا کل چھٹی ہے جس پر میں نے ان سے پوچھا جناب کیوں ۔۔؟کل کس بات کی چھٹی ہے ۔۔۔؟ ان کا جواب تھا کہ ”کل مزدوروں کا عالمی دن ہے“۔۔یہ سنتے ہی میرے ذہن میں روزی کی تلاش میں سڑک کے کنارے کھڑے ان تمام مزدوروں کی تصاویر گھوم گئیں جنھیں میں روزانہ دیکھتا تھا اور میرے لاشعور کے کسی کونے میں موجود سوالات میرے شعور میں آنا شروع ہوگئے کہ مزدوروں کا عالمی دن کیوں منایا جاتا ہے۔۔۔؟ میں نے تاریخ پر نظر دوڑائی تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ دن 1886ءمیں امریکی ریاست شکاگو میں اپنے حقوق کے لیے احتجاج کے دوران گولیوں کا نشانہ بننے والے محنت کشوں کی یاد میں منایا جاتا ہے مجھے میرے ایک سوال کا جواب تو مل گیا لیکن اسی جواب نے میرے ذہن میں سوالات کے انبار لگا دیے،،کہ امریکہ میں مزدور گولیوں کا نشانہ بنیں تو ان کی یاد میں ایک صدی سے زائد عرصے سے عالمی دن منایا جاتا ہے لیکن پاکستان میں تو مزدور ہر دن اک نئی موت مرتے ہے،ہر دن ظلم کی چکی میں پستے ہیں ،کبھی وہ تربت کے علاقے گوگدان میں نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں تو کبھی راولپنڈی اور اسلام آباد کو میٹروبس کے ذریعے جوڑتے ہوئے اپنی روح اور جسم کا تعلق توڑ بیٹھتے ہیں ،کبھی ہنگو میں کوئلے کے کان میں دھماکے سے کوئلے میں کوئلہ بن جاتے ہیں،تو کبھی مہمندایجنسی میں ماربل پہاڑ کی کان کے ملبے تلے دب کر سسک سسک کے دم توڑ جاتے ہیں ،، کبھی سر منہ کالا کیے ہوئے 8سالہ حسن مکینک کے دکان پر اس کی گالیوں کے سامنے بے بسی کی تصویر نظر آتا ہے ،،کبھی اجرت مانگنے پر بھٹہ مزدوروں پر کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں تو کبھی انہیں جلا کر ان کی فرمائشوں کا دم گھوٹ دیا جاتا ہے ،اس طرح کے سینکڑوں واقعات خبروں کی زینت بنتے ہیں جن پر ہمارے حکمران تعزیت کر کے مرنے والوں کے لواحقین کو محص چند لاکھ روپے ان کے پیاروں کی لاشوں کے معاوضے کی مد میں ادا کر کے بری الذمہ ہو جاتے ہیں ،میں ان حکمرانوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ لوگ صرف ایک دن سو کھی روٹی کو پانی میں بھگو کر کھائیں،،ایک دن کڑکتی دھوپ میں مزدوروں کی طرح روزی کی تلاش میں کھڑے ہوں ،ایک دن اپنے 10سال کے بچے کو اس بچے کی جگہ بھیجیں جو ٹریفک سگنلز پر گاڑیوں کے شیشے صاف کر کے اپنی ننھی بہن کے لیے دودھ خریدتا ہے ،صرف ایک دن اپنی شاہانہ زندگی کو چھوڑ کر ایک عام آدمی کی زندگی جیئیں تو انہیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ مزدوری کہتے کسے ہیں اور حکمرانی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہے،اسلام میں ایک خلیفہ وقت دریائے فرات پر بھوک سے مر جانے والے کتے کی ذمہ داری تو قبول کرتا ہے لیکن یہاں سینکڑوں مزدور مارے جاتے ہیں اور لوگ غربت اور افلاس سے تنگ آکر خودکشیاں کر رہے ہیں مگرکوئی ذمہ داری قبول کرنے والا نہیں،مزدوروں کی فلاح کے لیے صرف قوانین بنا دیے جاتے ہیں جو کاغذوں میں دب کر رہ جاتے ہیں کیونکہ اگر ان قوانین پر عمل ہو جائے تو ملک کا غریب طبقہ یعنی مزدور خوشحال ہو جائیں گے جو کہ ہمارے سیاستدان کبھی نہیں چاہتے ،لیکن میں سیاستدانوں کو وقت سے پہلے فیض کے الفاظ میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں