اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 130

Apr 30, 2019 | 11:26 AM

جب بابا فرید الدین گنج شکرؒ نے عبادت دریاضت میں کمال حاصل کیا تو آپ نے فرمایا ”جو خدا کرت اہے، وہی ہوتا ہے۔“
باتف نے اعلان کیا ”جو کچھ فرید کہتا ہے وہی ہوتا ہے۔“
٭٭٭
ایک دفعہ شیخ المشائخ حضرت ابو العمر ابو عباسؒ نے حضرت ابو الحسن خرقانیؒ سے کہا ”چلو مَیں اور تم درخت پر چڑھ کر چھلانگ لگائیں۔“
فرمایا کہ چلیے مَیں اور آپ فردوس اور جہنم سے بے نیاز ہوکر اور خدا تعالیٰ کا دست کرم پکڑ کر چھلانگ لگائیں پھر ایک مرتبہ شیخ المشائخ نے پانی میں ہاتھ ڈال کر زندہ مچھلی پکڑ کر آپ کے سامنے رکھ دی۔
اس کے جواب میں آپ نے تنور میں ہاتھ ڈال کر زندہ مچھلی آپ کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ آگ میں سے زندہ مچھلی پکڑ کر نکالنا پانی میں سے مچھلی نکالنے سے زیادہ معنی خیز ہے۔ پھر ایک دن شیخ المشائخ نے فرمایا کہ چلو ہم دونوں تنور میں کود جائیں پھر دیکھیں زندہ کون نکلتا ہے۔
آپ نے فرمایا ”اس طرح نہیں بلکہ ہم دونوں اپنی نیستی میں غوطہ لگا کر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی سے کون باہر آتا ہے۔ یہ سن کر شیخ المشائخ نے سکوت اختیار کرلیا۔
٭٭٭

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 129 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا کہ جس کا علم یقین تک۔ یقین خوف تک ۔ خوف عمل تک، عمل ورع تک اور اخلاص مشاہدے تک نہیں پہنچتا وہ ہلاک ہوجاتا ہے۔
٭٭٭
کہتے ہیں کہ جگدیو کلاں میں ایک برہمن ذات کی لڑکی تھی جو کہ کوڑھ کے مرض میں مبتلا تھی۔ اسے اس کے وارثوں نے لاعلاج جان کر گھر سے نکال دیا۔ وہ سید ہاشم شاہؒ (پنجابی کے شاعر) کے پاس چلی آئی اور انہوں نے اس کا علاج شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ بالکل صحت یاب ہوگئی۔ اس کے گھر والوں کو جب معلوم ہوا تو وہ اسے لینے آئے مگر اس نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ وہ اسے زبردستی اپنے ساتھ لے گئے اور زنجیروں سے باندھ دیا مگر ہاشم شاہؒ کی دعا سے اس کی زنجیریں خود بخود کھل گئیں اور وہ پھر ان کے پاس چلی آئی کیونکہ وہ ان کی عقیدت مند ہوچکی تھی۔
اس پر اس لڑکی کے وارثوں اور دوسرے برہمن ذات کے لوگوں نے راجہ دینا ناتھ، دیوان ساون مل اور دیوان ٹیک چند کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ چنانچہ ہاشم شاہؒ کی گرفتاری کے لیے سپاہی بھیجے گئے مگر آپ کی جلالت دیکھ کر سپاہیوں کو ہمت نہ ہوسکی کہ آپ کو گرفتار کرتے۔
یہ دیکھ کر آپ خو دہی ان کے ساتھ چل دئیے اور انہیں لاہور جیل میں بند کردیا گیا مگر جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کو پتہ چلا تو اس نے آپ سے معذرت کیا ور ایک ہفتے تک اپنے ہاں مہمان رکھا۔
٭٭٭
جب ہلاکو نے خوارزم پر یلغار کی تو اس وقت حضرت شیخ نجم الدین کبریٰؒ کی عمر ساٹھ سے متجاویز تھی۔ شیخؒ نے اپنے مریدین و اصحاب شیخ سعد الدین حمبوریؒ اور شیخ رضی الدین علی لالا وغیرہم کو طلب فرما کر یہ ہدایت فرمائی کہ تم اپنے اپنے وطن کی راہ لو مشرق سے آتش سوزاں کے شعلے بھڑکتے ہوئے آرہے ہیں جو مغرب تک صفایا کردیں گے مجھے یہیں رہنا ہے۔ یہ منشاء خداوندی ہے۔
جب ہلاکو کی فوج حملہ آور ہوئی تو آپ نے نیزہ ہاتھ میں لیا اور کفار سے جنگ شروع کی۔ یہاں تک کہ آپ نے جام شہات نوش کیا۔
روایات میں ہے کہ شہادت کے وقت ایک کافر کے گیسو آپ کے ہاتھوں میں تھے۔ اور کسی کی یہ مجال نہ تھی کہ آپ کے ہاتھوں سے انہیں چھڑاسکے۔ آخر کار یہ گیسو تراشے گئے۔(جاری ہے)

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 131 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں