پنجاب میں چیف سیکرٹری کا عہدہ
اسے پنجاب کی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ سول بیوروکریسی کے انتہائی محنتی، ہر عہدے اور ہر موقع پر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے شاندار کیرئر کے حامل افسر میجر اعظم سلیمان کو چیف سیکرٹری کے عہدے سے چند ماہ بعد ہی تبدیل کر دیا گیا ہے۔کوئی کہ رہا ہے کہ میجر (ر)اعظم سلیمان پنجاب حکومت کی محلاتی سازشوں کی بھینٹ چڑھ گئے اور کچھ اس تبدیلی کو انوکھے لاڈلے کی ایک اور ضد اور خواہش کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ ویسے میجر اعظم سلیمان کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا، وہ پنجاب میں ہونے والی بیڈ گورننس کو گڈ گورننس میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے تھے جو سیاسی جغادریوں کو پسند نہ آئی،اسے چاہئے تھا سٹیٹس کو برقرار رہنے دیتا ، خود بھی موج کرتا اور باقیوں کو بھی کھل کھیلنے دیتا۔ مگر بقول منیر نیازی کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی۔
میجر اعظم کا جرم کیا ہے؟ قصور کیا ہے؟ اسے کیوں بدلا گیا؟ یہ ان دنوں ایک ملین ڈالر سوال ہے ،ماضی میں کہاوت مشہور تھی ”ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات“مگر اس کہاوت کو پنجاب میں غلط ثابت کر دیا گیا ہے ،اب ناقص کارکردگی نہیں اچھی کارکردگی جرم ٹھہری ہے،اعظم سلیمان کو جب پنجاب کے چیف سیکرٹری کا عہدہ سنبھالنے کی پیشکش کی گئی تھی تو انہوں نے واضح طور پر بعض معاملات پر تحفظ کا اظہار کیا تھا، تب انتظامی معاملات کو سیاست سے پاک کرنے کے دعویدار وزیر اعظم نے ان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ آپ کے کام میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہوگی،آپ کھل کر اور میرٹ پر اپنا کام کریں،مگر پنجاب کے سادہ طبیعت کے مالک حکمرانوں کو حکومت اور پنجاب کی نہیں اپنی اچھائی اور بہتری کی ضرورت ہے اور یہ اعظم سلیمان سجھ ہی نہ سکے۔انہیں اور ان کی کارکردگی کو شروع دن سے اپنے کاموں میں رکاوٹ سمجھا جانے لگا تھے، حالانکہ اعظم سلیمان نے وزیراعظم کی یقین دہانی اور عہدہ سنبھالنے کے بعد پانچ ماہ سے بھی کم میں وہ کر دکھایا جو ناممکن دکھائی دیتا تھا۔انہوں نے پنجاب کے انتظامی معاملات کو راہ راست پر لانے کی کامیاب کوشش کی،بیوروکریسی جو نیب کے خوف سے کوئی کام کرنے پر تیار نہ تھی کا اعتماد بحال کیا،وزیر اعظم سے بیوروکریسی کے خلاف صرف اطلاعات پر کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی لی،جس کے بعد افسروں میں کام کرنے کی لگن پیدا ہوئی اور عرصہ دراز سے لٹکتی فائیلوں پر کام شروع کر دیا گیا،جن عہدوں پر تعیناتی کیلئے کبھی بولی لگا کرتی تھی ان پر اہل افسر میرٹ پر تعینات کئے اور اس حوالے سے کسی دباؤ کو خاطر میں لائے نہ کوئی بڑی سے بڑی سفارش قبول کی،بااثر افسروں کو من مانی سے روکا،جن افسروں بارے رشوت کے لین دین کی اطلاع تھی ان کو فوری تبدیل کیا،وزیر اعظم کی ہدائت کے مطابق سرکاری امور میں سیاسی مداخلت کا قلع قمع کیا۔
چیف سیکرٹری پنجاب کے طور پر اعظم سلیمان کا جرم یہ بھی تھا کہ وہ سچ کو جھوٹ بنانے کی راہ میں حائل تھے، چیف سیکرٹری اعظم سلیمان وزیر اعظم کا انتخاب بنے مگر پنجاب والوں کیلئے قابل قبول نہ ٹھہرے جس کے بعد پنجاب میں چوتھا چیف سیکرٹری لایا گیا ہے۔اعظم سلیمان نے دستیاب افسروں میں سے ہی اہل دیانتدار افسروں کی ٹیم منتخب کر کے صوبہ کے انتظامی معاملات کو کامیابی سے چلا لیا تھا سیاسی لوگوں کو عزت دی گئی مگران کا انتظامیہ سے عمل دخل ختم کر دیا گیا، اس کے ساتھ ہی اعظم سلیمان سے اختیارات کی کھینچا تانی شروع کر دی گئی اور وزیر اعظم کو بھڑکایا جانے لگا،خود کوپنجاب کیلئے ناگزیر ثابت کرنے کیلئے بیوروکریسی میں بھی پھوٹ ڈالنے اور گروپ بندی کیلئے کوشش تیز کر دی گئی۔ وہ افسران جو وزیر اعظم کے حکم پر کرپٹ اور نااہل ٹھہرے وہ پنجاب میں ناک کا بال بنے رہے۔وہ کھلے عام کہتے رہے کہ میجر اعظم کو نہیں چلنے دیا جائے گا۔ایک طرف اچھی پوسٹنگ لینے کیلئے ایوان وزیر اعلیٰ سے جو افسر چیف سیکرٹری پر دباو ڈلواتے تھے دوسری طرف انکے جانے کی تاریخیں بھی دیتے تھے۔
حیرت کی بات ہے کہ راتوں رات ایسا کیا ہوا کہ محنتی اور پسندیدہ اعظم سلیمان اچانک ناپسندیدہ ٹھہرے جبکہ مقتدر حلقے اور تمام ادارے بھی اعظم سلیمان کی کارکردگی سے خوش تھے،کورونا کی وباء کے دوران جبکہ ساری قوم خوف دہشت میں مبتلاء تھی،انتظامی افسر اور ڈاکٹر صاحبان کورونا کی ڈیوٹی دینے کو تیار نہ تھے مگر اعظم سلیمان نے ان کو حوصلہ دیا،ان کیلئے حفاظتی لباس، ماسک، گلووز، وینٹی لیٹر،سینی ٹائزر کی فراہمی یقینی بنائی اور بغیر حفا ظتی سازو سامان کے سرکاری افسروں کو کورونا ڈیوٹی دینے پر آمادہ کیا جس کے نتیجے میں وباء کو تیزی سے پھیلنے سے روکا،صلہ ملا تبدیلی ،اس یدھ میں پنجاب سرکار نے ثابت کیا کہ کہ وہ وفاق کی پالیسیوں کے خلاف اپنے کسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور عمران خان کی صوبہ میں پالیسیوں کو ناکام بنانے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔
میجر اعظم سے پہلے انتہائی شریف النفس اور وضع دار چیف سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر بھی پنجاب حکومت کے ساتھ نہ چل سکے ، موجودہ چیف سیکرٹری جواد ملک بھی ایک اچھے اور محنتی افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں اب دیکھتے ہیں وہ پنجاب حکومت کے ساتھ کتنی دیر رفیق کار رہتے ہیں۔ ماضی میں کوئی حکومت بیورو کریسی کی مدد کے بغیر کامیاب نہیں ہوئی اور موجودہ حکومت کے اب تک ڈیلیور نہ کرنے کی ایک وجہ بیورو کریسی میں پائی جانے والی بے چینی اور بار بار تبدیلیاں ہیں اور جس انداز میں پنجاب میں تعینات ہونے والے چیف سیکرٹریوں کو تبدیل کیا جا رہا ہے یہ سینئر افسروں کیلئے بڑی الارمنگ صورت حال ہے،ویسے بہتر ہے وزیر اعظم موجودہ پنجاب حکومت کے دورانیے میں چیف سیکرٹری کی پوسٹ کو ختم کر کے چیف منسٹر کے عہدے میں ہی ضم کر دیں،انہیں روز روز کے اس جھنجھٹ سے سکون تو ملے اور یوں نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ پنجاب میں تعینات افسران کو بھی اب سوچنا ہو گا کہ انہوں نے کس قسم کے سیاسی ماحول میں کام کرنا ہے ایسے ماحول میں جہاں میرٹ پر تعیناتیاں ہوں یا پھر جی حضوری اور حصے داری پر۔