اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام آن لائن عالمی مشاعرے کا انعقاد
جب سے پروفیسرڈاکٹر یوسف خشک نے اکادمی ادبیات پاکستان کے چیرمین کا عہدہ سنبھالا ہے وہ اکادمی کو جدید خطوط پر فعال کرنے کی کوششوں میں سرگرم ہیں۔اسی سلسلے میں اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے زیر اہتمام 15 اپریل کو شام چھ بجے ایک آن لائن عالمی مشاعرے کا انعقاد عمل میں آیا۔اس مشاعرے کی صدارت معروف شاعر افتخار عارف نے کی۔جب کہ جناب شفقت محمودوفاقی وزیر برائے تعلیم، قومی تاریخ وادبی ورثہ‘ مہمان خصوصی تھے۔
نظامت کا فریضہ ڈاکٹر شائستہ نزہت نے ادا کیا۔اس مشاعرے کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کا شرف محبوب ظفر کو حاصل ہوا۔
حرف آغاز میں ڈاکٹر یوسف خشک نے کہا کہ تخلیق کاروں نے کبھی کٹھن حالات میں لکھنا نہیں چھوڑا بلکہ ایسے دورِ ابتلا میں زیادہ اچھا ادب تخلیق کیا گیا۔پاکستان میں اس وقت 72سے زیادہ زبانیں بولی جارہی ہیں۔ہم نے ان زبانوں سے وابستہ ایک انتھالوجی پر بھی کام شروع کردیا ہے۔ڈینجر زون میں موجود زبانوں کو ڈینجر زون سے نکالنا ہے۔ انھوں نے اقبال کی وفات کے حوالے سے اور نعتیہ ادب کے حوالے سے بھی آن لائن تقریبات منعقد کرانے کا بھی اعلان کیا۔
جناب شفقت محمود وفاقی وزیر تعلیم نے نے یوسف خشک کی کوششوں کو سراہااور کہا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح ان کٹھن حالات میں نظام حکومت قائم ہے، عدالتیں کام کر رہی ہیں، اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ علم وادب کی محفلیں قائم ہیں۔اگر قائم ہیں تو کوئی خوف کی بات نہیں۔انھوں ہے رائٹرز کے لیے ایوان احترام ہاؤس کی بھی بات کی۔کہ لوگ اپنے شعراء کو رائٹرز کو اعزاز کے طور پر ہال آف فیم بنائیں۔
اس مشاعرے میں درج ذیل شعراء وشاعرات نے اپنا کلام پیش کیا۔
تجھ سے تو مراسم تھے مرے اور طرح کے
اس شخص سے رشتہ ہے مرا اور طرح کا
(شائستہ نزہت)
تباہ دل ہے جگر بھی فگار ہے صاحب
کہ مجھے اب بھی ترا انتظار ہے ساحب
(رباب تبسم)
تنکوں کی طرح بکھرے ہوئے
ہر اک کو اپنی منزل کا سفر تھا
(ابراہیم کھوکھر)
ماسوا حیرت میں گم ہوجائے گا
تو بھی کیا حیرت میں گم ہوجائے گا
(راشدہ ماہین)
اب نہیں تو نہیں گلا میں خوش
کچھ بھی ایسا نہیں مرا میں خوش
(بیرم غوری،کوئٹہ)
اغیار سے کیا شکوہ کہ ہیں یار بھی خوش
اس بار تو ہیں میرے طرف دار بھی خوش
(نذیر تبسم۔پشاور)
اکثر بنی ہیں قومیں یونہی ابتلا کے بعد
کرب وبلا کے پیشِ نظر کربلا کے بعد
(یشب تمنا۔برطانیہ)
نظم:نوائے شاعری
ہے شاعری ہی مرا ساز اور مرا پرچم
ہے شاعری ہی مرا زخم اور مرا مرہم
(تقی عابدی۔کنیڈا)
لے کے بارہ ہزار ہم جیسے
خوش ہیں پروردگار ہم جیسے
لاک ڈاؤن ہوا جو بستی میں
ہوگئے ہم شکار ہم جیسے
(سرفراز شاہد۔اسلام آباد)
نظم:قاتل کرونا
اے کرونا تو اس جہاں کو قتلِ عام کردیا
تو وہ وبا ہے جس نے ہمارے جینے کو حرام کردیا
(محمود الاسلام۔بنگلہ دیش)
یہ کیسا اشارہ دکھایا گیا تھا
ہمیں خواب میں کیوں ملایا گیا تھا
(ناہید ورک۔امریکہ)
حصارِ ذات میں خانہ بدوش اک لڑکی
خود اپنے دل میں ہی خیمہ لگا کے بیٹھی ہے
(مہ جبین غزل انصاری۔برطانیہ)
نظم: پردیسی
جب چمک کر طلوع کرے گا سورج ہنستے ہوئے
شبنم کے پانی سے منہ دھو کے جاگیں گے گلاب
تتلیاں خوشی سے اُڑ کر جشن منائیں گی آس پاس
پرندے اپنی روزی ڈھونڈنے نکلیں گے
(خلیل طوقار۔ترکی)
مرے غم کدے میں عزیزِ جاں
ترے درد کا جو چراغ تھا
وہ چراغ بجھنے لگے ہیں اب
(نصیر احمد ناصر۔بہاولپور)
زندگی بس ریاضی کا پرچہ نہیں
دواور چار ہی کا سبق سیکھ لینے سے ہر کام چلتا نہیں
(امجد اسلام امجد۔لاہور)
کتنا گم صم رہتا تھا۔بیچ شہر میں تنہا تھا
جب تک وہ تھا ساتھ مرے۔ سب کچھ اچھا لگتا تھا
(ایاز گل۔سکھر)
نظم: بات سے بات نکل آتی ہے:
ایک سہیلی نے بتلایا: اس کی گاڑی کھوتے سے ٹکرا گئی ہے
دوجی بولے کھوتے سے ہک گل یاد آئی۔ جو بالکل ہی ویسی ہے
خیری صلا اب تیرے شوہر کی طبیعت کیسی ہے
(خالد مسعود۔لاہور)
آرام سے اب گھر میں رہو ملنے نہ آؤ
جو بات ہے دور ہی سے کرو ملنے نہ آؤ
(فاطمہ حسن۔کراچی)
تمام شہر پہ رُت خوف کی ہے چھائی ہوئی
یہ زندگی تو مری جان کو ہے آئی ہوئی
(شبانہ یوسف۔ برطانیہ)
گرم ہے مصر کا بازار ذرا دیکھو تو
کون ہے کس کا خریدار ذرا دیکھو تو
(سید نواب حیدر نقوی۔امریکہ)
کون مری روح پر غالب ہوا
اب مجھے بھول جانے کا غم غالب ہوا
(خانم والا جمال۔مصر)
خود فریبی کی کسی حد کو نہیں جانتی ہے
قامتِ شوق کسی قدر کو نہیں مانتی ہے
(مس عشرت معین سیما۔جرمنی)
اپنے حالات سناتے ہوئے ڈر لگتا ہے
دل کو ہمراز بناتے ہوئے ڈر لگتا ہے
(بشریٰ فرخ۔پشاور)
ہیں کتنے لوگ یہاں ایڑیاں اٹھائے ہوئے
کسی کا سر ابھی دستار تک نہیں پہنچا
(اشرف کمال۔بھکر)
اپنے پہاڑ عیب کھٹکتے نہیں مجھے
لوگوں کی غلطیاں تڑپاتی ہیں بہت
(ارشد فاروق۔ فن لینڈ)
پاؤں چلتے ہیں نہ رکتے ہیں عجب الجھن ہے
زندگی تھم سی گئی ہے ترے در پر آکر
(ناز بٹ۔لاہور)
مرے خاموشی نے مجھے یوں عیاں کر دیا ہے
جس طرح قید ہوئی خوشبو شیشے کے بدن سے آزاد ہوجاتی ہے
(شبنم گل۔حیدرآباد)
آپڑا سر پر اس بلا کا خوف
دل میں زندہ ہوا خدا کا خوف
(عابد سیال۔اسلام آباد)
نخلِ ممنوعہ کے رخ دوبارہ گیا میں تو مارا گیا
عرش سے فرش پر کیوں اتارا گیا میں تو مارا گیا
(فرتاش سید۔ملتان)
جو دور ہے قریب ہے عجیب ہے
عشق کا نصیب ہے عجیب ہے
(شمس جعفری۔ایران)
خود کو دیکھا تھا تیری آنکھوں سے
اور میں اپنے جمال میں گم ہوں
(عروج راجپوت۔کنیڈا)
اداسی چھوڑ دے مجھ کو جینا تو چاہتا ہوں میں
گلابی پھول وہ چہرہ چھونا تو چاہتا ہوں میں
(میر حاجن میر۔سہون شریف)
سفر تو کٹتا نہیں ہم سفر بدلتے ہیں
قدم قدم پہ یہاں راہبر بدلتے ہیں
(صائمہ نورین بخاری۔ملتان)
ملتے تھے روز فاصلے رکھ کر دلوں کے بیچ
جب سے جدا ہوئے ہیں قریب آگئے ہیں ہم
(جلیل عالی۔اسلام آباد)
اے گوری تری گفتار۔ساون رت کی نرم پھوار
حوروں کی سرخیل ہے تو۔پریوں کی چنچل سردار
(شائستہ حسن۔ناروے)
یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں
دعا کے دن ہیں مسلسل دعا کیے جائیں
(افتخار عارف۔اسلام آباد)
ان کے علاوہ ڈاکٹر صوفیہ خشک،ڈاکٹر قاضی عابد،ڈاکٹر اختر شمار،ڈاکٹر غلام قاسم مجاہد بلوچ،ڈاکٹر آرزو سورن(ترکی)، ڈاکٹر سعدیہ طاہر، اختر رضا سلیمی،محمد سلمان، محمد راحمون،ذیشان مہدی نے بھی آن لائن شرکت کی۔ ناسپاسی ہوگی اگر اس مشاعرے کے انعقاد میں اکادمی ادبیات کی ٹکنیکی ٹیم اور ڈاکٹر شیر علی کی قابل قدر خدمات کا ذکر نہ کیا جائے۔
آخر میں افتخار عارف نے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر یوسف خشک کو مبارکباد پیش کی کہ انھوں نے بڑے سخت اور مشکل زمانے میں بہت مشکل ادارے کی صدر نشینی کا منصب سنبھالا ہے اور آتے ہی اس ادارے کو فعال کردیاہے۔دنیا بھر میں یہ ادارہ ایک بڑے ادارے کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
ڈاکٹر یوسف خشک کے پیچھے پرانا علمی تجربہ ہے دانش گاہ کا تجربہ ہے۔ادیبوں اور شاعروں سے ان کے رابطے ہیں مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ وہ اس کو بہتر اور مثبت خطوط پر استوار کریں گے اور اس کا مطاہرہ انھوں نے چند دن مین کیا ہے اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔ آج کے مشاعرے کی اہم بات یہ ہے کہ بہت مشکل حالات میں انھوں نے پوری دنیا سے شعراء کو جمع کیا ہے۔ یوسف نے بہت محنت کی اور بہت کم وقت میں مشاعرہ کرایا۔
٭٭٭