جس طرح بادلوں میں چاند دوڑتا نظر آتا ہے اسی طرح پل بھی دوڑ رہا تھا

 جس طرح بادلوں میں چاند دوڑتا نظر آتا ہے اسی طرح پل بھی دوڑ رہا تھا
 جس طرح بادلوں میں چاند دوڑتا نظر آتا ہے اسی طرح پل بھی دوڑ رہا تھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : عمران الحق چوہان 
قسط :60
ایک لیڈر کی بپتا:
 میں نے اور ندیم نے ہمت کر کے سہارے والے آ ہنی رسوں کو پکڑ کر پُل پر پاو ں رکھا۔پہلے دو تین تختوں تک تو دل ذرا مضبوط رہتا ہے کیوں کہ زمین قریب ہو تی ہے لیکن اس کے بعد قدم اٹھا تے ہی انسان اپنے آ پ کو خلا ءمیں محسوس کر تا ہے۔ مجھے لگا جیسے کسی نا دیدہ طاقت نے حسینی کی زمین کا ٹکڑا ایک دم پیچھے کھینچ کر گدلے سرمئی (اور یقیناً ٹھنڈے یخ)پا نی سے بھرے دریا کا پاٹ کئی گنا چو ڑا کر دیا ہے۔ ایسے میں جسم بے وزن سا ہو کر آ پ کے اختیار میں نہیں رہتا۔ اورکانوں میں دریا پر دوڑتی ہو ئی ہوا کی سائیں سائیں بہت واضح سنائی دینے لگتی ہے۔ میں نے خود کو پل کے وسط میں رکھتے ہو ئے سہارے کےلئے بازو پورے کھول کر لوہے کے رسّوں کو مضبو طی سے پکڑا ہوا تھا۔ لیکن آ گے بڑ ھنے کےلئے قدم اٹھا نا اور ہاتھ ہلا نا ضروری تھا اور ہر دو اعضا ءکو حر کت دینے کےلئے جو حو صلہ درکار تھا وہ میرے ساتھیوں کے ساتھ چند فٹ پیچھے رہ گیا تھا۔ میرے پاوں پتھر کے اور ٹا نگیں روئی سے بنی لگتی تھیں۔ ہاتھوں میں جا نے کیسے مقناطیسی قوت پیدا ہو گئی تھی اور وہ لو ہے کے رسے سے یوں چپکے تھے کہ علا حدہ نہیں ہو تے۔ دو ستوں کے مذاق سے بچنے کےلئے قدم بڑھا نا بھی ضروری تھا لہٰذا میں نے تھوڑا سا فاصلہ مزید طے کیا۔ اپنا خوف چھپانے کےلئے اونچی آواز میں ندیم کو محتاط رہنے اور سنبھل کر چلنے کی ہدایات دیں جس کے جواب میں مجھے عقب سے اس کی آواز آئی۔
”آپ میرے آ گے ہیں۔ آپ چلیں گے تو میں چلوں گا۔ ‘ ‘ 
اس کی آواز میں خوف کا رنگ نہیں تھا،مجھے اس کی بے خوفی پر غصہ بھی آیا۔میں نے ہمت کر کے چند قدم مزید بڑھائے۔تختوں کے درمیان جو غیر مستقل فا صلہ تھا اس میں سے دریا کا تیز بہاو¿ بہت واضح اور قریب نظر آتا تھا۔ میں نگاہ تختوں پر جمائے چلنے لگا لیکن اچانک دریا ساکن ہو گیا۔ اس کی سطح گندم اور مکئی سکھانے والے اس میدان جیسی ٹھوس اورہم وار ہو گئی جسے ہم”پِڑ“ کہتے تھے، اور میں لڑکپن میں وہاں روز شام کو دوستوں کے ساتھ ہاکی کھیلتاتھا۔ میں ابھی اس تبدیلی پر حیران ہو نے ہی والا تھا کہ پل دریا کے بہاو کے مخالف بد کے ہوئے گھوڑے کی طرح بگٹٹ دوڑنے لگا ۔اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ مجھے توازن برقرار رکھنا مشکل ہو گیا۔ یوں لگتا تھا میں دریا کی طرف کھنچ رہا ہوں اور کسی بھی لمحے پل سے نیچے جا پڑوں گا۔جس طرح بادلوں میں چاند دوڑتا نظر آتا ہے اسی طرح یہ پل بھی دوڑ رہا تھا۔
”ندیم!!!!“ میں نے اونچی آواز میں کہا۔ ”پل بھاگ رہا ہے۔“ 
”ہاہاہاہا۔ ایسا ہی ہے۔ آپ دریا کی طرف مت دیکھیں۔“ ندیم نے قہقہہ لگا کر کہا۔
میں نے اس کی ہدایت پر فوراً سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو پل سمیت سب کچھ اپنی جگہ قائم اور ساکن تھا۔ میرے اوسان ذرا بحال ہو ئے لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ اوپر دیکھتے ہوئے قدم اٹھا نا ممکن نہیں تھا۔ تختوں کے ٹیڑھے ترچھے ہو نے اور مختلف فا صلوں پر ہو نے کی وجہ سے پاو¿ں احتیاط سے بڑھا نا ضروری تھا اور اس کےلئے نیچے دیکھنا ضروری تھا اور نیچے دیکھتے ہی پُل بدک کر بھاگنے لگتا تھا۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا مقام تھا۔ پھر بھی مجھے آ گے تو بڑھنا ہی تھاکیوں کہ میں ایک طرح سے میرِ کارواں یعنی لیڈر تھا۔
بچپن میں جب ابن ِ صفی اور اشتیاق احمد کے جاسوسی ناول پڑھ پڑھ کر میں نے اپنے 2کزنز، ندیم اور نوید کے ساتھ جا سوسی گروپ بنا یا تھا (کبھی کبھی اس گروپ میں میری چھو ٹی بہن عالیہ بھی شامل ہو جاتی تھی) تو ناولوں کا مالک اور عمر میں بڑا ہونے کی وجہ سے اس گروپ کا بھی میں ہی سردار ہو تا تھا۔ گر میوں کی چلچلاتی دوپہروں میں شہر کے بڑے قبرستان پیر حافظ دیوان میں، جو دوپہر کے وقت اجاڑ اور بیا بان ہوتا تھا اور لوگ اس طرف جاتے ہوئے بھی ڈرتے تھے ، ہم اونچے درختوں پر چڑھنے اور ان سے کو دنے کی مہارت بہم پہنچا یا کر تے تھے (ہمارے خیال میں ایک جا سوس کےلئے درختوں پر چڑھنے اور کودنے کی مشق بہت ضروری تھی اور اس کی ضرورت کبھی بھی پڑ سکتی تھی)۔تو گینگ کا لیڈر ہو نے کے نا تے درختوں پر سب سے پہلے اونچا چڑھنا اور پھر وہاں سے زمین پرکودنا بھی مجھی پر لازم ہو تا تھا ۔ ندیم اس کام میں سب سے زیادہ بزدلی دکھا تا تھا اور علیٰ الاعلان اپنے خوف کا اظہار کرتا تھا۔ نوید البتہ ہم میں کم عمر ترین ہونے کے باوجود سب سے زیادہ تیز، پھرتیلا اور بے جھجک تھا۔ درخت کے اوپر پہنچ کر زمین زیادہ دور لگنے لگتی، دھڑکن تیز ہو جاتی اور پیٹ میں ہلکے ہلکے بھنور پڑ نے لگتے تھے۔ سوکھے حلق سے تھوک نہ نگلا جاتا، ٹا نگوں میں بھی لرزش کا احساس ہوتا تھا لیکن میں لیڈر تھا اس لیے نہ اپنا خوف ظاہر کرسکتا تھا اور نہ پیچھے رہ سکتا تھا کیوں کہ حفظ ِ مراتب کا یہی تقا ضا تھاچناں چہ مجھی کو پہلے کودنا پڑتا ۔ اس عمل میں ایک بار میری پنٹ سامنے ناف سے لے کر پیچھے کمر تک یوں پھٹی تھی کہ دونوں ٹا نگیں الگ الگ اتاری اور دوبارہ پہنی جا سکتی تھیں۔ (جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )۔