میثاقِ جمہوریت اور رقصِ آتش
یہ المناک کہانی پاکستان پیپلزپارٹی کے شہر دادو کے ایک قریبی گاؤں سے تعلق رکھتی ہے۔ اس گاؤں کا نام فیض محمد اریانی چانڈیو ہے۔ جی ہاں یہی گاؤں جہاں دس معصوم بچے گھاس پھونس کی جھونپڑیوں میں جل کر راکھ ہو گئے۔ اور دو روز تک سندھ کے وزیراعظم ہاؤس کو اس کی اطلاع بھی نہ ہو سکی۔
سندھ میں پیپلزپارٹی گزشتہ چودہ برس سے مسلسل اقتدار میں ہے اور پاکستان کی تاریخ میں یہ کسی بھی سیاسی جماعت کے اقتدار کے تسلسل کا ایک ریکارڈ ہے اور شاید اگلے پانچ برس بھی اسی جماعت کی حکومت ہوگی۔ گویا سندھ میں پیپلزپارٹی کے اقتدار کا تسلسل بھارت میں نہرو اور گاندھی کی جماعت کانگریس کے اقتدار کے تسلسل کے قریب پہنچ چکا ہے۔ لیکن سندھ کہاں کھڑا ہے، اس کا اندازہ ان دس بچوں کی سوختہ لاشوں سے لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔
فیض محمد دادو ضلع میں مرکزی انتظامیہ سے صرف تیس کلو میٹر پر واقع ہے اور سندھ کے دور دراز جنگلوں اور کچوں کے علاقوں کی طرح وسائل کی سہولت سے محروم نہیں ہے۔ البتہ سندھ کی دیہاتی آبادی کی اکثریت کی طرح یہاں بھی لوگ گھاس پھوس کی جھونپڑیوں میں زندگی گزارتے ہیں اور یہ جھونپڑیوں کا گاؤں ہے۔ جس کے چاروں طرف بے آباد لیکن ممنوعہ علاقے ہیں۔ سندھ میں وڈیروں کے پاس ایسے وسائل اور اتنی زمین ہے کہ شہروں میں رہنے والے سوچ بھی نہ سکیں۔ یہاں نام نہاد زرعی اصلاحات کے بعد بھی وڈیروں کے پاس ہزاروں ایکڑ زمین شکارگاہ کے نام پر موجود ہے۔ جہاں وہ اور ان کے مقامی اور غیر ملکی دوست پرندوں اور جنگلی حیات کے شکار سے دل بہلاتے ہیں۔ سندھ کے اقتدار پر انہی وڈیروں کا قبضہ ہے، جن کی یادداشت میں عوام نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ اس المیہ کے آغاز کے چند گھنٹے بعد ہی مقامی اخبار نویس وہاں پہنچ گئے، انہوں نے اپنے موبائل فون کے ذریعے جلتے ہوئے گھروں اور چیختے ہوئے انسانوں کی فوٹیج ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کو بھیج دیں۔ قریبی قصبہ مہر Mehr میں تین فائر بریگیڈ گاڑیاں موجود ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی کام نہیں کرتی، کسی بھی المیہ کے وقت ان گاڑیوں میں پٹرول ہی موجود نہیں ہوتا۔
مقامی جماعتوں نے کہا ہے کہ بار بار اطلاع کرنے پر اور فوٹیج بھجوانے کے بعد بھی کسی نے توجہ نہ کی۔ بچوں کے مرنے اور گھروں کے خاکستر ہونے کے بارہ گھنٹے بعد فائربریگیڈ کا عملہ سرد ہوتی ہوئی راکھ پر پانی انڈیلنے کے لئے پہنچ گیا اور ان بارہ گھنٹوں کے آٹھ گھنٹوں کے بعد دادو کے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی پولیس موقع پر پہنچ گئے۔ یعنی بیس گھنٹے بعد،جو فاصلہ صرف ایک گھنٹے میں طے کیا جا سکتا تھا اور فائربریگیڈ صرف آدھ گھنٹہ مین پہنچ سکتا تھا اور پیپلزپارٹی کے جیالے ممبر صوبائی اسمبلی اور رکن قومی اسمبلی ان کے بعد گھنٹوں بعد وہاں پہنچے۔ سندھ میں مقامی انتظامیہ کی کرپشن کا یہ ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔ فائر بریگیڈ کا پٹرول کون استعمال کرتا ہے اور کون اسے بیچ دیتا ہے۔
سندھ کے تیز ترین وزیراعلیٰ دو دن بعد وہاں پہنچے۔انہیں اور بھی بہت کام کرنے ہوتے ہیں، لہٰذا انہوں نے سب سے ضروری کام آتے ہی خاکستر ہوئے بچوں کی روح کے ایصال ثواب کے لئے دعا مانگی۔ حالانکہ انہیں اپنے اور اپنی انتظامیہ کے مردہ ضمیر کے لئے دعا مانگنی چاہیے تھی۔ ان دس معصوم بچوں کے کون سے گناہ تھے جن کی مغفرت کی دعا کی ضرورت تھی۔ دعائے مغفرت تو حکمرانوں کے لئے ضروری ے، جس میں معصوم بچے کبھی آوارہ کتوں کے دانتوں سے بھنبھوڑ دیئے جاتے ہیں اور کبھی تھر کے صحراؤں میں بھوک اور پیاس سے دم توڑ دیتے ہیں، جہاں بڑے لیڈر سکولوں کی زمین پر قبضہ کرتے ہیں اور انہیں اپنا ڈیرہ بنا لیتے ہیں۔ ڈان کے صحافی فرار کھوڑو نے ٹھیک سوال کیا ہے کہ پاکستان کے سبھی صوبوں میں 1122 کی سروس موجود ہے تو یہ سروس صوبہ سندھ میں کیوں موجود نہیں۔ سندھ کو گزشتہ چودہ برسوں سے ہر انسانی المیہ پر ایدھی ہی کی خدمات کیوں نظر آتی ہیں۔ سندھ کی حکومت ہر بار سوئی ہوئی نظر آتی ہے، البتہ کراچی سے لانچوں کے ذریعے پیسے بھیجنے والے وقت ملتے ہی دوبارہ وزیر بنا دیئے جاتے ہیں۔ سندھ میں سسٹم خوب چل رہا ہے جس سسٹم میں عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جانے والی رقم کے آسان استعمال کا طریقہ دریافت ہو چکا ہے۔
گاؤں فیض محمد کے اس رقصِ آتش کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ن لیگ کے قائد نوازشریف کے مابین ایک نئے میثاقِ جمہوریت کا سلسلہ چل رہا ہے۔ پہلا میثاقِ جمہوریت بلاول کی والدہ شہید بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے مابین ہوا تھا اور شاید اسی میثاق جمہوریت کا نتیجہ تھا کہ پارتی اور ن لیگ دوبارہ برسراقتدار آئی تھیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ بلاول آئندہ دس سال کا پروگرام لے کر گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر آئندہ دس برس تک پیپلزپارٹی اور ن لیگ مشترکہ یعنی مخلوط حکومت کا ارادہ کر لیں تو پاکستان میں ووٹ کو عزت مل سکتی ہے۔ سول بالادستی کا سورج طلوع ہوسکتا ہے، ملک میں خوشحالی آ سکتی ہے۔ بھوک، افلاس، بے روزگاری، مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ دو کروڑ غریب اور پسماندہ بچوں کو سکولوں میں داخلہ مل سکتا ہے۔ دیہات اور قصبوں میں شرمناک حد تک شہری سہولتوں کے فقدان پر قابو پایا جا سکتا ہے، لیکن یہ تو دس سال کے وعدے وعید ہیں، مگر سندھ میں مسلسل تین بار حکومت کرکے سندھ کے غریب اور پسماندہ علاقوں کے عوام اور علاقوں کو کیا ملا ہے۔ سندھ کی جمہوریت اور سندھ کے بلاشرکت اقتدار نے سندھ کے عوام کو تعلیم، روزگار، شہری سہولتوں کی فراہمی اور مہنگائی سے نجات کے لئے کیا کارنامے سرانجام دیئے ہیں۔
مقتول صحافی کی لرزتی ہوئی آواز میں قاتلوں کو معافی دینے کے اعلان کے بعد جشن منایا جاتا ہے۔ قتل میں ملوث اراکین اسمبلی کو اجرک اور سندھی ٹوپی پہنائی جاتی ہے کہ وہ کسی بڑے معرکے سے فتح یاب ہو کر لوٹے ہیں۔ رقصِ آتش ہی کی غذا بننے والے معصوم بچوں، پیاس اور بھوک سے مرنے والے افتادگانِ خاک کے لئے اس میثاقِ جمہوریت میں کیا ہوگا، دیکھتے ہیں۔
یہ شعلہ ساز بھی اسی بستی کے لوگ ہیں
ان کی گلی میں رقصِ ہوا کیوں نہیں ہوا