” ایک رمضان تو ایسا بھی آئے“
کیڈٹ ساز ادارے میں پاسنگ آؤٹ پریڈ ہو رہی تھی۔ ادارے میں زیرتربیت کیڈٹس کی یہ باقاعدہ آخری تقریب تھی۔تقریب میں کیڈٹس کے والدین واعزّہ کے علاوہ وردی اور غیر وردی محکموں سے معززین کو بھی مدعو کیا گیاتھا۔چاک و چوبند جوان کیڈٹس بائیں بازوسے جی تھری رائفل سنبھالے، دائیں بازو کو سامنے اور پیچھے کی جانب خوبصورت ہم آہنگی کے ساتھ حرکت دے رہے تھے۔چھوٹی چھوٹی پلوٹونوں میں منقسم،وہ ایک ساتھ پاؤں کی ایڑی زمین پر رکھ رہے تھے اور ایک ساتھ اٹھا رہے تھے۔پریڈ کرتی کیڈٹس کی اتنی کثیر تعداد میں سے کسی ایک کا بھی پاؤں یا بازو ترتیب سے نکلا ہوا نہیں تھا۔پلوٹونوں کے دستے باری باری سلامی کے چبوترے کے سامنے سے گزرکر پریڈ گراؤنڈ میں واپس اپنے اپنے نشانات پر کھڑے ہوتے جارہے تھے۔پریڈ کے اختتام پر مہمانِ خصوصی نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں میں تعریفی اسناد اور شیلڈز تقسیم کیں۔اس کے بعد مہمانِ خصوصی نے جوان کیڈٹس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا،”میرے عزیز جوانو،وہ دن یاد کرو جب تم نے اس تربیتی ادارے میں پہلا قدم رکھا تھا۔تم میں سے ہر ایک اپنی چال ڈھال،لباس،وضع قطع اورگفتگو کی بُنیاد پر اپنے انفرادی تشخص وتعارف کاحامل تھا۔ایک سال کے عرصہ میں لگن،محنت اور دیانتداری کے ساتھ حاصل کی گئی تربیت سے تمہاری وضع قطع میں نکھار آچکا ہے، چال میں حُسنِ ترتیب،گفتگو میں خود اعتمادی،سلیقہ اور متانت ڈھل چکی ہے۔اگر آپ نے اس تربیت کے سفر کوفراموش نہ کیاتویہ تربیت آپ کے لئے آئندہ زندگی میں کامیابی کی منازل طے کرنے میں انتہائی ممدومعاون ثابت ہو سکتی ہے“۔
جوں جوں ماہِ رمضان اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے،ہم وطنوں کا عید کی تیاریوں میں جوش و ولولہ بڑھتا جا رہا ہے۔عید کہاں پڑھنی ہے، اس موقع پر کونسا لباس زیبِ تن کرنا ہے، کس کے ہاں دعوت پر جانا ہے اور کس کو عید پر اپنے گھر ملن کے لئے بلانا ہے،موضوعِ گفتگو بنتا جا رہا ہے۔راقم کو ماہِ رمضان کی تکمیل، عید کی آمد اور اس کی تیاریوں کا منظر کیڈٹ ساز ادارے کی الوداعی تقریب جیسالگتا ہے۔رمضان سے قبل ہماری وضع قطع،چال ڈھال اور گفتگو انفرادری شناخت رکھتی تھی۔لیکن جوں ہی ماہِ رمضان کا چاند طلوع ہوا، اکثر مسلمانوں نے اپنی چال ڈھال، وضع قطع اور گفتگو کو نیا سلیقہ دینے کا ارادہ باندھ لیا۔ہاتھ میں تسبیح،سر پر ٹوپی،شلوار یا چادر ٹخنوں سے اوپر،زبان پر درودِ پاک یا دیگر کلماتِ طیبہ، نماز باجماعت کا اہتمام اور دیگرشعائرمعمولاتِ زندگی میں اُمڈ آئے۔مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں یکسر اضافہ دیکھنے کو ملا۔رات گئے تک تراویح میں تلاوتِ قرآن کانوں میں رس گھولنے لگی۔نمازی خواتین و حضرات، قبل ازرمضان، دانستہ و غیر دانستہ سرزد کردہ اپنے اپنے گناہوں پرخدا کے حضور دامن ِ ندامت پھیلائے گریہ کناں ہو گئے۔ گھروں کے اندر فریموں میں سجی دیدہ زیب تصاویر کو اٹھا کر الماریوں میں رکھ دیاگیا یاجہاں رکھی تھیں وہیں الٹا دیاگیا۔ گھروں میں والدین بچوں کودینی کتابوں سے ایمانیات،اخلاقیات اور عبادات سے متعلق اسباق سنانے لگے۔گویا پورا ماہِ رمضان اہلِ ایمان کے ہاں اپنی وضع قطع،چال ڈھال،گفتگو اور رویہ میں ایک یکساں تبدیلی کی تربیت کے طور پربسر ہوا،بالکل اسی طرح جس طرح کیڈٹ ساز ادارہ میں کیڈٹس کا ایک سال ان کی وضع قطع،چال ڈھال،گفتگو اور رویہ میں یکسانیت پیدا کرنے میں گزرا۔ماہِ رمضان کے تربیتی پروگرام کی اختتامی تقریبات عید کے روز،پورے عالم میں،مساجد، عید گاہوں اور کھلے میدانوں میں منعقد ہوں گی،جہاں اہل ِ ایمان آشنا اور نا آشنا، دونوں طرح کے لوگوں سے گلے مل کر عید مبارک کے الفاظ کا تبادلہ کرر ہے ہوں گے۔اپنی سال بھر کی عبادات کی قبولیت کے لئے خدا کے حضور سرجھکائے گلوگیر آواز میں دعائیں مانگ رہے ہوں گے۔دیکھنا یہ ہے کہ پورے ماہ کی”کٹھن“ تربیت کم از کم ایک سال تک اُن کے ساتھ چل پائے گی یا عید گاہ سے واپس گھر کی جانب اٹھنے والے قدم، منہ سے نکلنے والے الفاظ،ہاتھوں سے ادا ہونے والے معاملات قبل از رمضان کی سطح کو چھونے پر مائل ہوں گے۔
جیسا کہ قرآنِ کریم نے اطلاع پہنچائی ہے کہ روزے نہ صرف مسلمانوں پر فرض کیے گئے،بلکہ ان سے قبل کی امتوں پر بھی فرض تھے۔ دوسری ہجری میں مسلمانوں پر فرض ہونے کے وقت سے،ہر سال ماہ رمضان لوٹ کے آتا ہے، اپنے اندر موجود تربیت کا سامان اورکامیابی کی جُملہ سہولیات اور اجزاء مسلمانوں کے سامنے کھول کے رکھ دیتا ہے، اور قیامت تک یہ ماہِ مبارک اپنا فریضہ یونہی تسلسل کے ساتھ ادا کرتا رہے گا۔
ماہِ رمضان کے اندر موجود شخصی زندگی کے لوازمات و فوائد اپنی جگہ پر مُسلّم ہیں، مگر یہ مہینہ اہلِ ایمان کو انفرادی زندگی کے کونوں کھدروں میں مقیّد ہو کر تزکیہ نفس کا درس دینے نہیں آتا۔بلکہ اُن کی اجتماعی زندگیوں کو اُس مربوط نظام میں ڈھالنے کے لئے تشریف لاتا ہے،جس کانصاب قرآن و حدیث نے متعین کر دیا ہے،اور جس کی تفاسیر اَئمہ،علماء اور خدا کے برگزیدہ بندے بیان کرتے رہتے ہیں۔اگرہم اپنی زندگیوں میں بیسیوں رمضان گزارنے کے باوجوداجتماعی طورپر آج وہیں پر کھڑے ہیں،جہاں باہمی دھوکہ دہی،منافع خوری،چغل خوری،ایذا رسانی، اقربا پروری و دیگر شیطانی اوصاف ہمارے حرزجان ہیں،توپھر ہمیں اپنی منافقت پر جی بھر کے ماتم کرنا چاہیے کہ ہم نے جُملہ بیتے رمضانوں میں اپنے اوپرتربیت کا ایک عارضی خول چڑھائے رکھا،جو ہر سال عید گاہ سے گھر جاتے وقت راستے میں،ہر اُٹھنے والے قدم کے ساتھ زمین کی طرف لڑھکتاچلا گیا۔
اگر ہم اپنی تربیت کا سامان یونہی کرتے رہے تو ہماری زبانوں پر سوائے بے چارگی،یہودو انصار کے ہاتھوں کم مائیگی اوراپنے خلاف عالمی سازشوں کی رُودادسنانے کے سوا کچھ نہ ہوگا۔اگرہم انفرادیت سے نکل کر اجتماعیت کے فلسفہ کی طرف بڑھے ہوتے تو آج پچاس اکثریتی اسلامی ممالک محض پچاس بھیڑیں ثابت نہ ہوتیں، اوران میں بسنے والے ایک ارب نو کروڑ کی آبادی پر مشتمل افراد محض ڈیڑھ کروڑ آبادی کی حامل قوم کے سامنے دریُوزہ گری نہ کر رہے ہوتے۔
آئیے!دعا کریں۔ وہ واحد کام جو ہم کرنے کو ترجیح دیتے ہیں،کہ ہماری زندگیوں میں کوئی ایک رمضان توایسا بھی آئے جس سے حاصل کردہ تربیت کے نتیجہ میں ہماری اختتامی تقریب دونوں جہاں میں ہماری کامیابی کی تصویر ٹھہرے۔