میں مسحور کن رنگ بھرے ماحول کے حسن میں ایسا کھو یا کہ دھڑکن رکنے والا خوف بھی ہوا ہو گیا
مصنف : عمران الحق چوہان
قسط :61
خوب صورتی۔۔ بد صورتی:
سو حسینی کے پُل پر بھی میں لیڈر تھا اور آ گے بڑھنا میری مجبوری تھی چناں چہ میں آ گے بڑھتا رہا۔ رفتہ رفتہ میرا ڈر ذرا کم ہونے لگا۔ باقی دوست بھی پُل پر آ گئے۔ پُل کے تقریباً وسط میں آ کر منظر بہت حیران کن اور دل کش تھا۔ میں نے سر اٹھا کر آ سمان کی جانب اور گنجائش کی حد تک گردن گھماکر ارد گرد دیکھا۔چاروں طرف خشک پہاڑ تھے جن کے پیچھے برفا نی چوٹیاں تھیں۔ شام کی سنہری دھوپ کی چھوٹ دریا کے گدلے پا نی پر پڑی تو وہ پگھلے ہو ئے سو نے میں بدل گیا۔ بھورے بنجرپہاڑ بھی نرم سنہری ریشے سے بنے بہت رومانی اور غیر زمینی لگنے لگے تھے۔ میں ایک ایسے منظر میں کھڑا تھا جو اس زمین پر نہیں ہوتا۔ وہ اس لمحے کسی اور ستارے سے،کسی اور آ سمان سے ہمارے لیے اترا تھا۔ میں اس مسحور کن رنگ بھرے ماحول کے حسن میں ایسا کھو یا کہ کچھ دیر پہلے دھڑکن روکنے والا خوف بھی ہوا ہو گیا۔ خوف دراصل بد صورتی کی ایک قسم ہو تی ہے۔ ہم خوب صورتی اور بد صورتی کو صرف شکلوں اور پیکنگ(packing) تک محدود کر تے ہیں۔ بدصورتی کی اور بھی کئی قسمیں ہو تی ہیں۔ جھوٹ دنیا کی سب سے بڑی بد صورتی ہے اور سچائی سب سے عظیم اور امر خوب صورتی ہے۔تکبر، جہالت، نفرت، حسد اور خوف بھی بدصورتی کی دوسری شکلیں ہیں۔ہر سچائی خوب صورت ہو تی ہے اورہر خوب صورتی میںسچائی کی کوئی کرن پوشیدہ ہو تی ہے لیکن اُن آوازوں نے، جن سے تقریریں بنتی ہیں، اُن الفاظ نے، جن سے تحریریں بنتی ہیں اور اُن تصاویر نے، جن سے اشتہار بنتے ہیں، خو بصورتی اور بد صورتی کو یوں گڈ مڈ کیا ہے کہ لوگوں میں ان کی تمیز اور پہچان ختم کر دی ہے۔
لیکن پھر بھی جب کبھی دیدہ بینا پرحسن ظاہر ہوتا ہے،بد صورتی غبار بن کر تحلیل ہونے لگتی ہے۔اور اس لمحے جب میرے گرد وپیش میں اور مجھ پر خوب صورتی کا نزول ہورہا تھاتو خوف کی بدصورتی پسپا ہو گئی تھی۔ سچائی، حق ہے اور حق خوب صورت ہو تا ہے۔ جھوٹ، باطل ہے اور باطل بد صورت ہوتا ہے۔
میں خود اندر باہر سے اس سنہرے رنگ میں یوں نہاگیاتھا جیسے ہو لی کھیلنے والے رنگوں میں شرابور ہو جاتے ہیں۔ ہر چہرے اور ہر جگہ کا حسن کسی خا ص لمحے اور کسی خا ص زاوئیے سے نکھرتا ہے۔ کو ئی لمحہ اور کوئی زاویہ کسی عام سی صورت اور منظر کو کچھ اورہی بنا دیتا ہے۔ کچھ ایسا ہی یہاں تھا۔ شام کے رنگ مزید گہرے ہو تے جارہے تھے۔ ہوا میں خنکی کی نا محسوس مہک اورہلکا پن تھا۔ سانس کے ساتھ ہوا اندر جاتی تو جسم میں سردی سی بھرنے لگتی۔ میرے دوستوں نے بھی اس سنسنی خیز پل کا جی بھر کر مزہ لیا۔میں یہاں بہت دیر رکنا اور منظر میں شامل رہنا چاہتا تھااور اسے اپنی روح میں شامل کرنا چاہتا تھا لیکن اعظم کا کہنا تھا کہ ابھی بوریت جھیل بھی جانا ہے۔ مسافروں کی کتنی مجبوریاں ہو تی ہیں! اسیں آپے اُڈن ہارے ہُو!!
میں نے جب حسینی سے نکلتے ہو ئے پل کو مُڑ کر دیکھا تو شام ویسی ہی رنگین تھی۔ چوٹیوں پر پڑی برفیں او ر دریائے ہنزہ کا پگھلا سونا ویسا ہی تھا ۔ ہموار اور بے آواز بہتے پانی پر معلق رومانی پُل سُونا اور ویران تھا ا ور تب مجھے علم نہیں تھا کہ میں اس پُل کو آ خری بار دیکھ رہا ہوں۔ اگلی بار جب میں حسینی آوں گا تو یہ پُل عطا ءآباد لینڈ سلائڈ سے ہونے والی تباہی کی نذر ہو چکا ہوگا!
جادوئی ٹکڑا :
حسینی کے باہر وہ جگہ تھی جہاں نذیر کے بقول فون کے سگنلز آ تے تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس فٹ، 2فٹ مخصوص جگہ سے اِدھر اُدھر ہو نے پر سگنل غائب ہو جاتے تھے۔ مگر بدقسمتی یہ تھی کہ برمودا تکون جیسی یہ پر اسرار جگہ سڑک کے عین وسط میں تھی۔ فون کی گھنٹی بجتی رہتی اور جوں ہی دوسری طرف سے کوئی ”ہیلو!“ کہتا، اُدھر سے کوئی جیپ یا ویگن آجاتی اور بات کرنے والے کو جان بچانے کےلئے دائیں بائیں ہونا پڑتا اور ایسا ہوتے ہی رابطہ کٹ جاتا۔ ایسے میں کسی طویل گفتگو کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ سب نے قسطوں میں باری باری اپنے گھر والوں کو خیر خیریت بتا ئی اور پوچھی۔ عشاق نے اپنے گھر کی نسبت دوسرے گھروں میں زیادہ لمبی بات کی کیوں کہ ماں یا سگی بیوی کو حال بتا نے میں زیادہ وقت صرف نہیں ہوتا لیکن میرے دو ستوں پر اللہ کی رحمت فراواں تھی اور ان کی محبو باو ں کی تعداد فی کس کافی زیادہ تھی جنہیں خیریت کے علاوہ درد ناک، ہجر ناک اور انتہائی اداس لہجہ بنا کر اوربھی بہت کچھ کہنا اورسننا تھا اس لیے اس میں کافی وقت لگا۔ شام کے وقت سوست سے آ نے والی گاڑیا ں زیادہ ہو جاتی ہیں اس لیے ہر بار کسی گاڑی کی آ مد پر بات ادھوری رہ جاتی،جسے دوبارہ واپس آ کر جو ڑا جاتا۔ ہر بار پہلے معافی مانگنا پڑتی، فون کٹنے کی وجہ بتا نا پڑتی، پھر گفتگو کو وہیں سے جوڑا جاتا جہاں سے ٹو ٹی تھی اگر اس دوران کو ئی اور گا ڑی نہ آتی تو بات مکمل ہو جاتی ور نہ پھر شروع سے شروع کر نا پڑتی۔ جذباتی نشر و اشاعت کے بعدایک بار پھر محبوباوں کی تعداد اور ان کی ادا سیوں کا موازنہ کیا گیا کہ کس کی کون سی محبوبہ زیادہ اداس تھی پھر اس پر مسرت سے بھر پور قہقہے لگائے گئے جو صوتی تاثر میںان آوازوں سے ملتے تھے جو فلموں میں ٹارزن دشمن کو پچھاڑکر نکالتا ہے ۔ چیمے اور احمد علی کی جان میں جان آگئی، شکلوں کی بے زاری ختم ہو گئی اور اور لہجوں میں بشاشت لوٹ آئی۔ اب وہ مزیدچند گھنٹے اس جگہ گزار سکتے تھے۔ (جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )۔