فاطمہ بھٹو کا نیا سفر شروع، پسند کی شادی،سادہ تقریب!

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو (شہید) کا یہ اعزاز ہے کہ ان کے دور صدارت اور وزارت میں شملہ معاہدہ ہوا۔ بھارت سے چورانوے ہزار سول اور فوجی جنگی قیدی واپس ہوئے۔ ایٹمی پروگرام کا آغاز ہوا۔1973ء کا آئین ہی منظور نہ ہوا بلکہ قادیانیوں کو اقلیت بھی قرار دیا گیا اور اسلامی کانفرنس ہوئی جس کے ذریعے اس رہنما نے ملک کی معاشیات کو درست پٹڑی پر ڈالا اور آج جن اوورسیز پاکستانیوں اور زرمبادلہ کی تعریف کی جاتی ہے وہ اسی اسلامی کانفرنس ہی کے نتیجے میں طے ہوا اور افرادی قوت کو بیرونی ممالک میں محنت کی اجازت ملی۔ اسی ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا اور اس وقت کے آمر نے نہ صرف بیوی اور بیٹی کو آخری دیدار کی اجازت نہ دی بلکہ نماز جنازہ تک نہ ہونے دی جس فوجی افسر (بریگیڈیئر (ر) سلیم) نے دوبارہ غسل کفن اور مختصر تعداد میں ملازمین وغیرہ کو نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت دی، ان کو قبل از وقت ریٹائرڈ کر دیا گیا، یہ قدرت کا اپنا اضافہ ہے کہ اس محروم لیڈر کی قبر آج ان کے چاہنے والوں کی درگاہ ہے اور جیالوں کے بقول سزائے موت دلانے والے کے لئے اب فاتحہ خوانی کرنے والے بھی محدود ہو گئے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو ہی کا ایک قول ہے۔ انہوں نے اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کے اس خیال کی تردید کر دی تھی جو انہوں نے ہاتھ کی لکریں دیکھ کر ہی کہ ان کی زندگی طویل ہے۔ بھٹو نے کہا تھا ”بھٹو خاندان کے افراد 55سال کی عمر سے پہلے اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں اور ایسا نہ صرف ان کے ساتھ ہوا۔ ان صاحبزادی بے نظیر بھٹو اور بھائی بھی اس عمر سے پہلے وفات پا گئے اور ان کے دونوں صاحبزادے جوانی میں ہی مار دیئے گئے۔
آج مجھے یہ سب یوں یاد آیا کہ میرمرتضیٰ بھٹو کے صاحبزادے اور ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے ذوالفقار جونیئر نے اطلاع دی کہ ان کی بڑی بہن (ماں سے سوتیلی) فاطمہ بھٹو رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئی ہیں، ان کا نکاح 70کلفٹن والی کوٹھی کی لائبریری میں ہوا جو دادا بھٹو کی تھی اور کراچی میں ہوتے فاطمہ بھٹو زیادہ وقت یہاں گزارتیں اور یہ ان کی پسندیدہ جگہ تھی۔ خبر یہ ہے کہ فاطمہ بھٹو کی یہ پسند کی شادی ہے۔ شوہر کا نام گراہم (غیر ملکی) جو مسلمان ہوئے اور ان کا نام جبران رکھا گیا۔ ذوالفقار جونیئر نے اطلاع دی کہ یہ تقریب نکاح انتہائی سادگی سے انجام پائی اس میں گھر کے افراد (معہ ملازمین) نے شرکت کی۔ کسی طرف سے کوئی مہمان شریک نہ ہوا۔ فاطمہ بھٹو نے مصنف اور کالم نگار کے طور پر بہت نام کمایا وہ عالمی سطح پر پہچانی جانے والی شخصیت ہیں۔ ان کے حوالے سے عالمی میڈیا میں بہت کچھ کہا گیا۔ آخر کار وہ اپنی یہ منزل پانے میں کامیاب ہو گئیں۔
میں نے فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار جونیئر سے لاہور کے خاکوانی ہاؤس میں ملاقات کی۔ جب غنویٰ بھٹو کے انٹرویو کے لئے گیا تھا۔ تب فاطمہ ہائی سکول کی طالبہ اور ذوالفقار جونیئر کی عمر 4،5 سال تھی، میں اور فوٹو گرافرشاہد جگو(مرحوم) خاکوانی ہاؤس پہنچے اور ان کے ڈرائنگ روم میں غنویٰ بھٹو کا انتظار کررہے تھے کہ فاطمہ بھٹو ہمارے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔ میں نے ان سے بات چیت شروع کر دی اور کچھ تحریر کئے بغیر بعض سوالات کئے، انہوں نے مختصر جواب دیئے ان میں دو باتیں اہم ہیں ایک تو یہ کہ دادی (نصرت بھٹو) بہت یاد آتی ہیں اور دوسری یہ کہ پھوپھو بے نظیر اچھی نہیں ہیں۔ یہ گفتگو زیادہ وقت جاری نہ رہ سکی کہ غنویٰ آ گئیں اور انہوں نے فاطمہ بھٹو کو ڈانٹ کر بھگا دیا، میں نے غنویٰ کا انٹرویو مختصر کر دیا، غالباً ان کو یہ احساس ہو گیا تھا اور اگلے روز جب میں دفتر میں تھا کہ اکبر بھٹی (مرحوم) نے بلایا، ان کے دفتر میں غنویٰ بیٹھی تھیں، سلام دعا کے بعد بھٹی صاحب نے غنویٰ کے انٹرویو کے لئے کہا اور مجھے تفصیل سے بات کرنا پڑی۔ یہ بھی عرض کر دوں کہ اس کے بعد بھی بیٹ رپورٹر کی حیثیت سے ان سے رابطہ ہوا۔ حتیٰ کہ لاڑکانہ میں بھی ان کے جلسے کی کوریج کی یہ بھی عرض کر دوں کہ جب میں اور شاہد جگو خاکوانی ہاؤس سے باہر نکلے تو گیراج میں ذوالفقار جونیئر نظر آ گئے۔ وہ کھیل رہا تھا، کبھی گاڑی کے بونٹ پر چڑھتا اور پھسل کر نیچے آ جاتا، جگو نے تصاویر بنائیں اور میں نے بچے سے گپ کی تو معلوم ہوا کہ اس کے ذہن میں بھی پھوپھو کا امیج خراب کیا گیا ہے۔
یادیں تو بہت ہیں، لیکن یہ موقع فاطمہ بھٹو کے حوالے سے میسر آیا، بھٹو خاندان کے حوالے سے بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن میرا مشاہدہ یہ ہے کہ اس خاندان نے سیاست میں بہت کچھ کھویا حتیٰ کہ ابھی تک سر شاہ نواز بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی وفات کے بعد سے جائیداد کی شرعی اور قانونی تقسیم نہیں ہوئی جو اراضی اور گھر مرتضیٰ بھٹو کے پاس تھے وہ اب غنویٰ کی تحویل میں ہیں ان میں لاڑکانہ کی المرتضیٰ (حویلی سے بڑی کوٹھی) اور 70کلفٹن کے ساتھ 71کلفٹن والی کوٹھی بھی شامل ہیں 70اور 71کلفٹن دو جڑواں کوٹھیاں ہیں چونکہ سیاست 70سے ہوئی اس لئے مشہور 70کلفٹن ہی ہے، یہ بھی عرض کروں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حیات صاحبزادی صنم بھٹو لندن میں مقیم ہیں اور بعض اطلاعات کے مطابق بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے بچے ان کے ہاں اکثر اوقات ملتے رہے، لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ یہ سگے کزن ایک دوسرے سے دور ہیں حتیٰ کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار جونیئر نوڈیرو آئے لیکن وہ رہائش والے اس حصے میں نہ جا سکے جہاں بے نظیر کی میت تھی، حالانکہ یہ وقت ایسا تھا کہ کزنز کے درمیان دوری ختم ہو سکتی تھی۔ عرض کیا کہ صنم بھٹو لندن میں مقیم ہیں، انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ایماء پر سندھ ہائی کورٹ میں جائیداد کی تقسیم (وارثوں میں بٹوارہ) کے لئے کئی سال پہلے درخواست دائر کی اس کی شنوائی نہیں ہوئی، مرتضیٰ بھٹو والی جائیداد غنویٰ کے زیر قبضہ ہے تو بے نظیر بھٹو والی جائیداد کی دیکھ بھال فریال تالپور کرتی ہیں جو محترمہ کی ”وصیت“ ہی کے تحت بچوں کی سرپرست ہیں، میں ایک بار پہلے بھی عرض کر چکا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے میاں مصباح الرحمن کی رہائش پر میرے ساتھ کئی گھنٹوں پر مشتمل جو گفتگو کی (زیادہ تر آف دی ریکارڈ) اس کے دوران ان کی اپنی بھانجیوں اور بھانجے سے بڑی محبت کا اظہار ہوتا تھا اور وہ غنویٰ کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتی تھیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ تو بھٹوز وراثت میں سے سسی (شاہ نواز کی بیٹی) کو بھی حصہ دینا چاہتی ہیں، یاد رہے کہ فاطمہ بھٹو اور سسی خالہ زاد کزن بھی ہیں اور تایا چچا کی اولاد کے حوالے سے بھی کزن ہیں۔ یہ افغان نژاد ماؤں سے ہیں جبکہ ذوالفقار جونیئر غنویٰ کے بطن سے مرتضیٰ کی نرینہ اولاد ہیں۔
یہ سب یادوں کے خانے میں محفوظ ہے اور آج فاطمہ بھٹو کے لئے اس دعا کے ساتھ لکھا کہ ان کی یہ ازدواجی زندگی کا سفران کے لئے رحمتوں اور برکتوں کا باعث بنے، یہ عرض کردوں کہ نہ صرف فاطمہ بھٹو بلکہ ذوالفقار جونیئر بھی بہت ذہین ہیں، ان کو یہ ذہانت ددھیال سے ورثے میں ملی ہے تاہم یہ نامہربان قسمت ہے کہ سیاست ہی نے ایسی دوریاں پیدا کیں آج یہ کزن بھی ایک دوسرے دور ہیں حتیٰ کہ نکاح جیسے مبارک موقع پر بھی ذوالفقار جونیئر کے سوا کوئی قریبی رشتہ دار موجود نہیں تھا۔