مولانا محمد اکبر سلیم
مولانا محمد اکبر سلیم سے 20سال قبل راقم کا تعلق قائم ہوا۔ان کی شفقت، محبت اور پُرخلوص رویے کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ پیار بھرا تعلق بڑھتا ہی چلا گیا اور ان کی وفات تک یہ تعلق الحمدللہ قائم دائم ہے۔ مولانا محمد اکبر4جون 1967ء کو الٰہ آباد کے نواحی گاﺅں لاڈی میں ایک محنت کش اور درویش منش انسان ولی محمد کے گھر پیدا ہوئے۔والد نے نام محمد اکبر رکھا،جو بعد ازاں مولانا اکبر سلیم کے نام سے معروف ہوا۔اکبر سلیم نے ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی، بعدازاں دینی تعلیم کے شوق نے انہیں مختلف دینی درسگاہوں اور بعض مذہبی سکالروں اور نابغہ ءروزگار شخصیات سے ملاقات پر مجبور کیا۔ مولانا مرحوم نے جن شخصیات سے ملاقات کی، ان میں سے مولانا معین الدین لکھوی، مولانا حافظ محمد یحییٰ عزیز میر محمدی، مولانا محمد یوسف راجوال اور دیگر جید اور اعلیٰ پائے کے علماءشامل ہیں۔ مولانا محمد اکبر سلیم نے میرے کلاس فیلو حافظ محمد عمر دین سے جو نابینا بھی تھے ، قرآن پاک پڑھا۔ مولانا مرحوم میں ایک خاص اور لائق تحسین وصف تھا کہ وہ اپنے اساتذہ کا حد سے زیادہ احترام کرتے۔ان کے لئے بہترین کھانا اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔حاجی محمد اکبر سلیم نے معمولی اور غیر متمول گھرانے میں آنکھ کھولی اور حصولِ علم کے لئے مشکل حالات کا مقابلہ کیا۔آپ نے ایک واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس کپڑوں کا ایک ہی جوڑا تھا اور جب انہیں دھونا ہوتا تو خود صافہ باندھ کر اس کے خشک ہونے کا منتظر رہا کرتا۔جامعہ محمدیہ اوکاڑہ سے جب سندفراغت حاصل کی۔آپ ہی کی زیر نگرانی فاضل عربی ،درس نظامی، وفاق المدارس کے امتحانات اچھے نمبروں میں پاس کئے۔ مولانا معین الدین لکھوی نے علم ہونے پر مجھے ایک نیا سوٹ سلوا کردیا۔ مولانا لکھوی کی شفقت اور محبت میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔حج بیت اللہ کی سعادت کے دوران بندے کو شاہی مہمان کا درجہ حاصل رہا۔اس دوران خادم الحرمین شریفین شاہ فہد نے حسب روایت شاہی مہمان ہونے کے ناتے غلاف کعبہ کے بابرکت ٹکڑے سے نوازا جو یقینا ایک سرمایہ افتخار ہے۔
مولانا مرحوم نے بتایا کہ انہوں نے اہل حدیث یوتھ فورس کے ضلعی جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔جمعیت شبان اہل حدیث کے چیف آرگنائزر رہے۔ بعدازاں آپ بطور عربی ٹیچر سرکاری ملازمت بھی کرتے رہے۔خدمت خلق اور دین سے منسلک رہے ۔یکم جنوری 1995ءکو وارڈ نمبر1الٰہ آباد میں دینی درسگاہ کاآغاز کیا جو بعد ازاں 21دسمبر2002ءکو بائی پاس الٰہ آباد کے قریب جگہ خرید کرکے وہاں مرکز ابن الخطاب الاسلامی کی بنیاد رکھی،جہاں آج خوبصورت اور وسیع و عریض عمارت میں سینکڑوں طلباءعلمی پیاس بجھا رہے ہیں۔الٰہ آباد کے درس کو طالبات کے لئے وقف کردیا گیا ہے۔جہاں سے سینکڑوں طالبات دینی تعلیم حاصل کررہی ہیں۔یہ ان کی موت کے بعد یقیناً بطور صدقہ جاریہ ہے۔الٰہ آباد بائی پاس پر قائم درسگاہ کا سنگ بنیاد حافظ محمد یحییٰ عزیز میر محمدی اور مولانا محمد یوسف آف راجووال نے ایک روح پرور تقریب کے دوران رکھا۔ مولانا اکبر سلیم کی دینی، سماجی،فلاحی اور رفاہی خدمات بھی لائق تحسین ہیں۔آپ نے الٰہ آباد میں ایک ویلفیئر ٹرسٹ بھی قائم کیا،جس کے تحت غریب اور مستحق طلباءو طالبات میں یونیفارم،کاپیاں، کتابیں اور دیگر تدریسی سامان دیتے رہے۔
رمضان المبارک کے دوران ضرورت مند گھرانوں کی مدد کرنا ، ان کی اولین ترجیح رہا۔ مولانا محمد اکبر سلیم 31جولائی 2012ءکو مکہ مکرمہ سے طائف جاتے ہوئے ایک حادثے میں 45سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ، 19اگست 2012ءکومرحوم کاجسدخاکی پاکستان لایا گیااور مرکز ابن الخطاب الاسلامی میں ان کی نماز جنازہ اداکی گئی۔نماز جنازہ میں مختلف مکاتب فکر کے ہزاروں افراد نے شمولیت کی، اس طرح ایک بھرپور اور شاندار زندگی گزار کر مولانا راہی ملک عدم ہوئے۔نماز جنازہ سے قبل جن معروف شخصیات شرکاءنے خطاب کیا، ان میں مولانا عبدالوہاب روپڑی، ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی ، پروفیسر محمد حمود لکھوی،صوبائی صدر مرکزی جمعیت اہل حدیث پروفیسر عبدالستار حامد، مولانا حسن محمود کمیر پوری، پروفیسر ڈاکٹر عبدالغفور راشد، مولانا محمد شفیع ضلعی امیر قصور، سابق کونسلربابا خوشی صدر الٰہ آباد کے علاوہ دیگر اہم شخضیات شامل تھیں۔انہوں نے مولانا محمد اکبر سلیم کی دینی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔اس موقع پرمولانا مرحوم کے صاحبزادے احسان اکبر ظہیری، شہباز احمد نے شرکاءکا شکریہ ادا کرتے ہوئے مولانا محمد جمیل کی خدمات اور جسد خاکی کو سعودی عرب سے پاکستان لانے میں خصوصی دلچسپی پر اپنا اظہار تشکر پیش کیا۔ ٭