توہین مذہب کا تازہ واقعہ:توجہ طلب امور
اسلام آباد کے نواحی علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک مسیحی لڑکی کی طرف سے مبینہ طور پر قرآن مجید کے اوراق جلائے جانے کے واقعہ نے ایک بار پھر توہین رسالت کے قانون اور اس کے منفی استعمال کو ملکی و غیر ملکی میڈیا میں موضوع بحث بنا دیا ہے۔ ابتدائی اطلاعات (20اگست2012ئ) کے مطابق مسلمانوں کے ایک ہجوم کی طرف سے ملزمہ کے گھر کا گھیراﺅ کرنے اور اس پر قرآن مجید کے اوراق جلانے کا الزام عائد کرنے پر پولیس نے لڑکی اور اُس کے والدین کو اپنی حفاظت میں لے لیا ہے اور صدر آصف علی زرداری کی خصوصی ہدایت پر اس ضمن میں تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔
توہین رسالت یا توہین قرآن کا ارتکاب کرنے والے کسی شخص کو کیا سزا دی جانی چاہئے اور کیا اس نوعیت کے ہر مجرم کے ساتھ ایک ہی انداز کا معاملہ کیا جانا چاہئے؟ یہ ایک الگ بحث ہے اور اس ضمن میں کچھ عرصہ قبل اخبارات و جرائد میں تفصیلی علمی بحثیں شائع ہو چکی ہیں۔ اسی طرح اِس سوال کو بھی سردست ایک طرف رکھ دیجئے کہ اسلامی شعائر کے تحفظ و احترام کے تناظر میںکیا یہ رویہ از روئے حکمت عملی مناسب ہے کہ کسی بھی کونے کھدرے میں رونما ہونے والے ہر واقعہ کو مسلمان از خود منظر عام پر لاتے ہوئے اس کی تشہیر کریں اور جس واقعے کی منفی تاثیر ایک مضافاتی علاقے کی کسی گلی تک محدود تھی، اس کو بڑھا چڑھا کر بین الاقوامی میڈیا کا موضوع بحث بنا دیں؟ ان دونوں سوالوں سے صرف نظر کرتے ہوئے سر دست توہین قرآن کے اس تازہ واقعہ کے حوالے سے اخباری رپورٹوں کی روشنی میں تین امور ہیں، جن کی تحقیق قانون کے مطابق مقدمے کے اندراج اور اس پر عدالتی کارروائی کے لئے بالکل غیر جانب دارانہ طور پر ضروری ہے۔
سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ کیا واقعتا قرآن مجید کے اوراق جلائے گئے ہیں؟ ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق ایک مقامی پولیس افسر قاسم نیازی کا کہنا ہے کہ جب لڑکی کو تھانے میں لایا گیا تو اس کے پاس موجود ایک شاپنگ بیک میں جزوی طور پر جلے ہوئے مذہبی نوعیت کے کچھ دوسرے اوراق موجود تھے، لیکن ان میں قرآن مجید کے اوراق شامل نہیں تھے۔ اگر یہ بات درست ہے، تو پھر واقعہ میں جتنی سنگینی پائی جاتی ہے، اس کو اسی حد تک محدود رکھنا ملکی قانون اور اسلامی فقہ، دونوں کی رو سے واجب ہے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ کیا ملزمہ کی ذہنی حالت درست ہے اور کیا شرعی، اخلاقی اور قانونی طور پر اس پر قانون کا نفاذ کیا جا سکتا ہے؟ یہ اس لئے ضروری ہے کہ لڑکی کے والدین کے بیان کے مطابق وہ ذہنی طور پر بیمار اور ایک مخصوص دماغی بیماری کا شکار ہے۔ یہ دعویٰ خلاف واقعہ ہو سکتا ہے، لیکن قانون کے منصفانہ نفاذ کے لئے اس پہلو کی غیر جانب دارانہ تحقیق بہرحال ضروری ہے۔
تیسری چیز ملزمہ کی عمر کا مسئلہ ہے۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق ملزمہ مبینہ طور پر نوعمر ہے اور اُس کی عمر11سے16سال کے درمیان ہے۔ اگر واقعتا ایسا ہے تو اُس کے خلاف مقدمہ چلاتے ہوئے پاکستان کے قانون کے مطابق اُس کی عمر کا لحاظ رکھنا اور بالغ اور نابالغ مجرم کے مابین، جس فرق کو دُنیا کا ہر قانون ملحوظ رکھتا ہے اس کو پیش نظر رکھنا ضروری ہو گا۔ ان تینوں باتوں کی تحقیق نفاذ قانون کی بنیادی شرائط میں سے ہے اور ان کو نظر انداز کرتے ہوئے اگر محض عوامی جذبات یا مذہبی طبقات کے سیاسی دباﺅ کو اس معاملے میں اصل فیصلہ کن عامل کا درجہ دیا جائے گا تو یہ قانون اور انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہو گا جو پاکستان کے عمومی حالات کے لحاظ سے کوئی نادر الوقوع چیز نہیں۔
ایک مسلمان ریاست میں توہین رسالت یا توہین قرآن پر سزا کے قانون کا موجود ہونا اور جو مجرم فی الواقع سزا کے مستحق ہوں، ان پر اس قانون کا نافذ ہونا ہمارے نزدیک اسلام، جمہوریت اور عقل عام، تینوں کا ایک بدیہی تقاضا ہے، لیکن اسلام اور عمومی اخلاقیات کا اس سے بھی بڑھ کر تقاضا یہ ہے کہ اس قانون کا نفاذ نہایت منصفانہ، غیر جانب دارانہ اور کتب قانون میں درج شرائط اور ضوابط کے مطابق ہو اور اس میں مذہبی تعصب، فرقہ واریت ، خاص طور پر اقلیتی گروہوں کے احساس تحفظ کو ناروا طور پر مجروح کرنے کا عنصر کسی بھی درجے میں نہ پایا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں نفاذ قانون کی اخلاقیات کے حوالے سے عمومی مذہبی و معاشرتی رویے اس کے بالکل برعکس ہیں اور مَیں یہ بات نہایت ذمہ داری کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ اس نوعیت کے مقدمات کی ایک بڑی تعداد کے پیچھے اصل عوامل اور محرکات وہی ہوتے ہیں، جن کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستان میںتوہین رسالت کے قانون ے تحت اب تک جن افراد کے خلاف مقدمہ چلایا گیا ہے، ان میں سے نصف سے زیادہ مقدمات میں ملزم غیر مسلم نہیں، بلکہ مسلمان ہیں،جبکہ یہ سامنے کی بات ہے کہ کوئی مسلمان، اسلام پر قائم ہوتے ہوئے بقائمی ہوش و حواس اس جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔
ایسے مقدمات عام طور پر یا تو کسی ایک فرقے سے وابستہ لوگوںکی طرف سے اپنے مخصوص عقائد پر تنقید کی بنیاد پر مخالف فرقے کے کسی فرد کے خلاف درج کرائے گئے ہیں....(مثلاً ایک واقعے میں دیوار پر لکھے ہوئے ”یا رسول اللہ“ کے الفاظ میں سے ”یا“ کا لفظ مٹا دینے پر توہین رسالت کا مقدمہ درج کروا دیا گیا، جبکہ ایک دوسرے مقدمے میں مدعی نے کہا کہ ملزم نے میلاد مصطفی کانفرنس کا پوسٹر پھاڑا ہے، جو کہ توہین رسالت ہے) اور یا کسی ذاتی یا گروہی عناد اور مخاصمت کو مذہبی رنگ دیتے ہوئے مخالفین پر توہین رسالت کا الزام عائد کر دیا گیا ہے۔ بعض دینی حلقوں، بالخصوص اہل حدیث مکتب فکر کی مختلف جماعتوں کی طرف سے ان تحفظات کا اظہار بھی ہو چکاہے کہ مسلکی اختلافات کی بنیاد پر توہین رسالت کے متعدد مقدمات درج کرائے گئے ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگوںکو مقدمات اور دارو گیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے واقعات بھی موجود ہیں، جن میں ملزم کی ذہنی حالت درست نہیں، لیکن نہ تو مدعی اس پہلو کا لحاظ کرنے پر آمادہ ہیں اور نہ عدالتیں ہی عوامی دباﺅ کو نظر انداز کرتے ہوئے خالص قانونی بنیادوں پر مقدمے کو نمٹانے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
غیر مسلموں کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات کا معاملہ اِس سے بھی زیادہ نازک ہے، کیونکہ اگر کسی مسلمان فرقے سے تعلق رکھنے والے کسی فرد پر یہ الزام عائد کیا جائے تو اس کی معاشرتی حیثیت اور اثرو رسوخ کے لحاظ سے اسے اپنے طبقے کی طرف سے حمایت اور دفاع کی سہولت میسر آ ہی جاتی ہے، لیکن غیر مسلموں کے معاملے میں گویا پورا معاشرہ مدعی کی جگہ پر آ کھڑا ہوتا ہے اور بپھرے ہوئے ہجوم عام طور پر ایسے مواقع پر الزام کی منصفانہ تحقیق اور ملزم کو کسی قسم کی صفائی کا موقع دینے کے بجائے اس کو اپنے دین و ایمان اور مذہبی حمیت کا تقاضا سمجھتے ہیں کہ قانون کو خودہاتھ میں لے کر برسر موقع ”مجرم“ کو نمونہ عبرت بنا دیں۔
یہ صورت حال بے حد افسوس ناک ہے اور اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ مذہبی طبقات کی طرف سے مثبت طور پر اس رجحان کی روک تھام کے لئے جس قدر کوشش کی ضرورت ہے،اس کی ادنیٰ خواہش بھی اُن کے کے ہاں دکھائی نہیںدیتی۔ اس کے نتیجے میں غیر مسلم اقلیتیں، جو اصولی طور پر توہین رسالت پر سخت سزا کے قانون کے خلاف نہیں اور ان کے اعلیٰ سطحی ذمہ دار رہنما اپنا یہ مو¿قف برملا ظاہر کر چکے ہیں۔ اقلیتیں جب کسی مشکل سے دوچار ہوتی ہیں تو انہیںاپنے حق میں آواز اٹھانے کے لئے مذہبی رہنما اور علماءنہیں، بلکہ غیر مذہبی قائدین ہی میسر آتے ہیں۔ مظلوم غیر مسلموں کا ساتھ دینا تو دُور کی بات ہے، اگر خود مسلمانوں کے مذہبی فرقوں کے مابین کہیں تصادم ہو جائے تو کسی بھی فریق کے ذمہ دار قائدین اور اعلیٰ سطحی رہنماﺅں کے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے حلقے کے اختیار کردہ طرز عمل کے بارے میں تحفظات یا اعتراضات رکھتے ہوئے بھی عوامی جذبات سے مختلف کوئی بات علانیہ کہہ سکیں۔ اِس ضمن میں اُن کی عملی مجبوریوں سے انکار نہیں، لیکن یہ بھی امر واقعہ ہے کہ مذہبی قیادت کو درپیش اس داخلی مشکل سے مسیحی رہنماﺅں کے اِس سوال کا کوئی جواب بہرحال فراہم نہیں ہوتا کہ اگر مسلمانوں کے مذہبی رہنما خود اپنے پیرو کاروںکے طرز عمل کو حدود کا پابند رکھنے کی عملی ذمہ داری اُٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، تو وہ مسیحی اقلیت سے یہ مطالبہ کس منہ سے کرتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے سیکولر لابیوں کی مہم کو تقویت پہنچانے کے بجائے اپنا وزن اسلام پسندوں کے پلڑے میں ڈال دیں؟
توہین رسالت پر سزا کا مسئلہ اس وقت مغربی اور مغرب سے متاثر فکری طبقات کا خاص ہدف ہے۔ اُن کی طرف سے اِس قانون کی مخالفت کی بنیادیں فکری اور نظریاتی ہیں، لیکن اس کے خلاف استدلال کے لئے عام طور پر اِس قانون کے غلط اور جانب دارانہ استعمال کی مثالوں کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے عمومی مذہبی و معاشرتی رویے اس استدلال کو جواز بھی فراہم کر رہے ہیں اور مسلسل تقویت بھی پہنچا رہے ہیں۔ مَیں اپنی نجی مجالس میں کئی بار یہ عرض چکا ہوں کہ ہمارے ہاں جس بے دردی سے کسی بھی شخص پر توہین رسالت کا الزام عائد کر دینے کا رجحان فروغ پذیر ہے،اس کے نتیجے میں بعید نہیں کہ کچھ عرصے کے بعد خود مذہبی طبقات اور مذہب سے مخلصانہ وابستگی رکھنے والے عوام بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جا ئیں کہ اس صورت حال کے مقابلے میں تو اِس قانون کو ختم یا عملاً معطل کر دینا ہی باعث عافیت ہے۔ اگر نوبت یہاں تک پہنچتی ہے ، تو مَیں بلاخوف لومتہ لائم یہ کہوں گا کہ اِس کی بنیادی ذمہ داری خود اہل مذہب کے غیر متوازن رویوں پر عائد ہو گی، چاہے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے کے لئے اسے ”دشمنان اسلام کی سازش“ کا پُرفریب عنون دے دیا جائے۔ ٭