کرپشن فری پاکستان، بات چل نکلی، کہاں تک پہنچے
تجزیہ : چودھری خادم حسین
بات چل نکلی ہے دیکھیں کہاں تک پہنچے، فی الحال تو ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے حوالے سے آصف زرداری تک پہنچنے کے خلاف ردعمل کے بعد تھوڑی مختلف پالیسی اختیار کی گئی اور یہ تاثر پھیلایا گیا کہ سہولت کاری کا الزام کسی کالعدم دہشت گرد تنظیم کے حوالے سے نہیں۔ یہ ایک جماعت کی حمایت اور اس کے گروپوں کو فنڈز مہیا کرنے کے حوالے سے ہے، اس کے باوجود آصف علی زرداری کلیئر نہیں ہیں۔ ان کے خلاف زیر التوا ریفرنس دوبارہ سماعت کے لئے پیش ہوچکے اور بعض مزید ریفرنس بھی تیار کئے جا رہے ہیں۔ اسی طرح مخدوم یوسف رضا گیلانی، مخدوم امین فہیم اور راجہ پرویز اشرف کے خلاف بھی تحقیق اور ریفرنس پہلے سے موجود ہیں اور ان کی سماعت متوقع ہے۔ مخدوم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف ضمانت کرائیں گے، اگر ہو بھی گئی تو پھر مقدمہ تو بھگتنا ہوگا۔ یوں قیاس کیا جاتا ہے کہ کرپشن کے خلاف مہم کو درجہ بدرجہ تیز کیا جائے گا، اب نیب پنجاب کے سربراہ میجر (ر) سید برہان الدین نے کہا ہے کہ نیب پنجاب بھی عمل شروع کرے گی۔
اب اگر پنجاب میں بھی یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے اور ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے بعد حکمران جماعت سمیت دیگر حضرات کی باری بھی آتی ہے تو یہی واضح ہوگا کہ کرپشن فری پاکستان کی منزل حاصل کرنے کے لئے کیا ہوگا؟
سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے احتجاج کیا۔ وفاقی ایجنسیوں کی اجازت کے بغیر کارروائی کو مداخلت قرار دے کر ان کو چلے جانے کو کہا ہے۔ یوں ان کارروائیوں کے باعث سندھ اور وفاق کے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں اور سندھ حکومت کے خلاف کوئی بھی کارروائی بحران میں اضافہ کرسکتی ہے۔ ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس میں شیخ رشید والی تھیوری کی گنجائش نہیں کہ صرف سابقہ حکومت گردن زدنی اور موجودہ حکومت غلط کار ہے۔ خود ان کی باری بھی آسکتی ہے۔
بہرحال آج بات یہ اطلاع دے اور بتا کر ختم کرتے ہیں کہ بلاول کرپشن کے خلاف ہیں، وہ اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو صاف شفاف دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ خود اور ان کے مشیر بھی عدالتوں کا سامنا کرنے کے حق میں ہیں کہ جن پر الزام ہیں، وہ پہلے صفائی پیش کریں۔ اگر کسی نے اولے (آملہ) کھائے ہیں تو پیٹ کی درد بھی وہ خود ہی سنبھالے۔