’’بیسٹ آف لک‘‘

’’بیسٹ آف لک‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حسن عباس زیدی
منفرد موضوع پر بنائی جانے والی ڈائریکٹر اے حفیظ کی فلم
فلم اور ٹی وی کے جانے مانے ڈائریکٹر اے حفیظ کی نئی فلم ’’ بیسٹ آف لک ‘‘ کا کیمرہ کلوز ہوگیا ہے ۔ فلم کی کاسٹ میں آصف سلیم ، جنید ملک ، نشا ملک ، زارا ملک ، راحیلہ آغا ، اچھی خان ، زاہد قریشی ، خاور خان ، عباس باجوہ ، سرفراز خان سمیت دیگر اداکار شامل ہیں ۔ فلم کے مصنف عامر ادیب ، میوزک ڈائریکٹر ذوالفقار علی عطرے ، پروڈیوسر زین حفیظ اور ہدایتکار اے حفیظ ہیں جو اس سے قبل کئی سُپر ہٹ ڈرامہ سیریلز بنا چکے ہیں ڈائریکٹر اے حفیظ کی فلم’’بیسٹ آف لک ‘‘عید قربان پر عام نمائش کے لئے پیش کیا جائے گی ۔ ’ ’پاکستان‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے اے حفیظ نے کہا کہ ہماری فلم انڈسٹری کی جتنی عمر ہے اسے بھارت نہیں تو کم ازکم ایران، ترکی، بنگلہ دیش، سری لنکا کے برابر ہی ہونا چاہئے تھا مگر افسوس ہم نے فلمی مارکیٹ جو پہلے ہی محدود تھی وہ بھی تیزی سے بھارت کے حوالے کردی۔ بھارت نے ہمارے ملک میں موجود غداروں اور مفاد پرستوں کو جس کامیابی سے استعمال کیااس کی مثال نہیں ملتی۔ جدید ٹیکنالوجی کی ایجادات ہمیں اکثرحیران کردیتی ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اگرآج دنیا بھرکی اکانومی پرراج کررہے ہیں تو اس میں سب سے اہم کرداربلاشبہ جدید ٹیکنالوجی کا ہی ہے۔ خاص طورپرفنون لطیفہ کے تمام شعبوں کی بات کی جائے توپھرجہاں لوگوں کو انٹرٹین کرنے میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے والوں کوآج عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، وہیں ان کی قابلیت کے ڈنکے بھی بجتے ہیں۔ ہالی ووڈ اس حوالے سے سرفہرست مانا جاتا ہے۔ جس اندازسے اس فلم انڈسٹری سے وابستہ تکنیک کاروں نے اپنی صلاحیتوں کواستعمال کیا ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی فلم انڈسٹری بالی ووڈ بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہے۔ آج اگرپوری دنیا میں بالی ووڈسٹارزکی فلمیں دیکھی اورپسند کی جاتی ہیں تواس کا کریڈٹ بڑی حد تک جدید ٹیکنالوجی کوہی جاتا ہے ، جس سے استفادہ کرتے ہوئے آج بالی ووڈ والے کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کمانے لگے ہیں۔ فلم ’’بیسٹ آف لک‘‘میں وہ سب کچھ ہے جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں ۔آصف سلیم نے کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری بمعہ حکومت حب الوطنی اور ایسی کسی سرگرمیوں سے قطعی لاتعلق رہتی ہے۔ نتیجہ بھارتی غلط ہندو ثقافت کا زیر ہماری نوجوان نسل اور بچوں کے ذہنوں کو متاثر کرنے میں مصروف ہیں۔ ہماری قوم بھارتی فلموں کی نمائش سے لطف اندوز ہوکر بے حسی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کرتی رہی۔ جو ایک افسوسناک المیہ ہے۔ قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے کے بعد پاکستان میں ہندوستانی فلموں کی نمائش کے حوالے سے اس دور کے حب الوطنی چند فلمی شخصیات نے جو کام کیا تھا اسے ہندوستان نے چند برسوں میں خاک میں ملادیا۔ ہماری فلم مارکیٹ جہاں چند برس قبل پہلے تحفے میں مفت بھارتی فلمیں آئیں پھر تھوڑے معاوضے دیکر بھارتی فلموں کی نمائش کا آغاز ہوا۔ اب ناجائز طریقوں سے ہر ماہ کروڑوں روپے کا زرمبادلہ بھارت منتقل ہورہا ہے۔ فلم میں کام کرنے والے تمام فنکاروں کی اداکاری کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔اچھی خان نے کہا کہ ماضی میں تو وسائل کی شدید کمی کے باوجود ہمارے ملک میں بننے والی فلموں کے کامیاب بزنس کی سلوراورگولڈن جوبلی منائی جاتی تھی لیکن پھرایک دورایسا بھی آیا کہ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہالی وڈ اوربالی ووڈ فلموں کودیکھنے کے بعد شائقین کی بڑی تعداد پاکستانی فلموں سے دورہونے لگی۔ ہمارے ہاں پیسے اورجدید ٹیکنالوجی کی کمی کے باعث اس معیار کی فلمیں نہ بن سکیں جس کو لوگ دیکھنا چاہتے تھے۔’’بیسٹ آف لک ‘‘ ایک اعلیٰ اور معیاری فلم ہے تمام فنکاروں نے اپنے اپنے کردار کے ساتھ مکمل انصاف کیا ہے یہ بات بے حد خوش آئند ہے کہ اب بھارتی فلموں کے ساتھ ساتھ پاکستان فلموں کو بھی دیکھا اور پسند کیا جا رہا ہے گزشتہ دو سالوں میں عام نمائش کے لئے پیش کی جانے والی فلمیں جدید ٹیکنالوجی کے مطابق بنائی گئی ہیں اس وقت پاکستان فلم انڈسٹری ایک بار پھر ترقی کی جانب گامزن ہے۔ لالی ووڈایک بار پھرترقی کی راہ پرہے ۔فلم ’’بیسٹ آف لک ‘‘منفرد موضوع پر بنائی جانے والی فلم ہے ہم اس فلم کو جدید تقاضوں کے مطابق بنایا ہے فلم کی کہانی کیا کیا موڑ لیتی ہے یہ تو فلم دیکھنے کے بعد ہی معلوم ہوگا۔ ہماری فلم میں مقصدیت اور پیغام دونوں ہیں۔ اے حفیظ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ لاہور سے وابستہ فلمی صنعت کے لوگوں کے بے شمار بلند بانگ دعوے حکومتی نجی اورفلم انڈسٹری کی سطح تک ہوتے رہے مگر سب ہی بے کار ثابت ہوئے۔ ہماری فلم انڈسٹری کے کرتا دھرتا لوگ فلموں کی نمائش بڑھا کر پاکستان انڈسٹری کی ترقی اور بزنس کے جو بلند بانگ دعویٰ کئے تھے۔ وہ بھی ریت کی دیوار ثابت ہوگئے جبکہ کراچی میں مسلسل اعلیٰ اور معیاری فلموں نے حالات بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے دوسری جانب چند برسوں کے دوران سینکڑوں بھارتی فلموں نے ماسوائے کروڑوں روپے مالی خسارے کے سوا کچھ نہ دیا۔ سینما گھروں کو دوبارہ آباد کرنے کیلئے ہم نے کروڑوں روپے ضائع کرکے نام نہاد بھارتی بڑے فنکاروں کی فلمیں امپورٹ کرکے عارضی طور پر اپنی فلموں، فنکاروں کو تباہی اور اندھیروں میں چھپا دیا۔ مگر اب ہمیں خود دوبارہ اپنے فنکاروں اور فلموں کیلئے اپنے جذبے بیدار کرنے ہو ں گے۔ ڈائریکٹرز، کیمرہ مینوں، موسیقاروں کو عزت دیں ان پر سرمایہ کاری کریں تو امید ہے کہ ہم پھر دوبارہ پاکستان فلم انڈسٹری کو دوبارہ زندہ کرسکتے ہیں۔ہمارے نزدیک آج بھی یہ بات ایک حقیقت ہے کہ فلم ہندوستان کی ہو یا پاکستان کی وہ نئے دور کے تقاضوں، مسائل اور معاشرے کی عکاسی کرے گی تو ضرور کامیاب ہوگی۔زارا ملک نے کہا کہ آج بھی جو لوگ فلمیں بنا رہے ہیں ان میں محض چند فلمیں ایسی آرہی ہیں جن میں کسی حد تک سرمایہ کاری کے ساتھ ذہنوں کا استعمال بھی کیا جارہاہے مگر یہ چند لوگ بھی اعتماد کی اس سطح پر متزلزل ہیں جو کبھی کسی زمانے میں ہمارے فلمسازوں، ہدایت کاروں کو حاصل تھا۔ اس وقت ضرور ت اعتماد اور حالات کو بحال کرنے کی ہے کہ جس سے فلم بینوں کا کھویا ہوا اعتماد دوبارہ حاصل کیا جاسکے۔ ماضی میں ہمارے جن فلمسازوں نے کامیاب فلموں سے کروڑوں روپے کمائے۔ جن سینما مالکان کی جائیدادوں میں اضافہ ہوا۔ جن فنکاروں نے بے پناہ نام شہرت اور دولت سمیٹ لی۔ وہ اب دوبارہ اس طرف آنے کی ہمت کریں۔ اپنے دھیان اور سرمائے کا رخ دوبارہ اپنی فلمی صنعت کی طرف موڑیں۔ ہمیں امید ہے کہ اگر ہمارے موجودہ فلمی لوگ صدقے دل سے دوبارہ کام کرنے میں سنجیدہ ہوگئے تو ضرور ہم محض بھارتی فضول فلموں کی امپورٹ اور مالی نقصان سے چھٹکارہ پالینگے۔ اب یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کی بقاء اپنی ہی بنائی ہوئی فلموں میں ہے۔ اپنے ہی فنکاروں، موسیقاروں اور ہنر مندوں میں ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں اپنے اعتماد کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔عباس باجوہ نے کہا کہ ہم نے ماضی میں بھی سوشل، معاشرتی مسائل، ایکشن، کامیڈی اور دیگر موضوعات پر یادگار اور کامیاب فلمیں بنا کر بھارت سمیت دیگر ممالک کی فلموں سے بہتر کام کیا ہے تو یہ کام اب کیوں نہیں ہوسکتا؟ اب کیوں نہیں ہم ایسی فلمیں بنا سکتے ہیں کہ جن سے باری اسٹوڈیو تعمیر ہوگیا تھا۔شبستان سینما لاہور کے مالک نے ایک فلم کی کامیابی سے پرنس سینما بنالیا تھا۔ فیصل آباد کے ایک سینما مالک نے فلموں سے ہی 3سینما بنا لئے تھے۔ یہ سب کچھ اب بھی ممکن ہے۔ فنکاروں میں اداکار شان ریما، میرا، معمر رانا، بابر علی ایک مرتبہ پھر آگے آئیں یہ اپنی فلمی شہرت کو مزید کیش کرانے کے لیے نجی ٹی وی چینلز اور کمرشلز میں سستے داموں فروخت نہ کریں۔ اس سے بہتر ہے کہ دوبارہ بڑی سکرین پر آجائیں۔ ہمیں اب بھارتی ثقافتی یلغار کا منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے۔ اب بھارتی فلموں میں بھی موضوعات کا خاتمہ ہو چلا ہے اور وہ بھی یکسانیت سے دوچار ہوکر زبردست ناکامی سے ہمکنار ہو رہی ہیں۔ وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ واقعات بھی بدلتے رہتے ہیں جو لوگ بدلتے وقت کے ساتھ چلتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں۔ آج کا تماشائی بھی ماضی کے تماشائیوں کے مقابلے میں بہت بدل چکا ہے۔ اب وہ اپنی فلموں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے۔ جو فلمیں فلم بینوں کے معیار پر پوری نہیں اترتیں انہیں وہ مسترد کردیتا ہے۔ ہمارے ہاں بھارتی فلموں کی یلغار میں بھی پنجابی فلم ’’مجاجن‘‘ اور اردو فلم ’’خدا کے لئے‘‘ نے بہترین بزنس کیا۔ مگر پھر ہمارے فلم میکر نے دلچسپی چھوڑ دی اور ہمارا ناکامی کا گراف بڑھنے لگا۔ آج بھی اگر فلمساز وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کا ساتھ دے تو دوبارہ ہماری فلم انڈسٹری اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہے۔ ہمیں اپنی پرانی روائتی کہانیوں، موضوعات سے جان چھڑا کر نئی فلمیں بنانا ہونگی۔ ہم اپنی ہی فلموں سے دوبارہ عزت، مقام اور شہرت حاصل کرسکتے ہیں اور کرینگے۔شبیر سراج نے کہا کہ آج کا فلم بین غنڈوں بد معاشوں اور ذات برادری پر مبنی فلمیں نہیں دیکھنا چاہتا اور کم از کم شان، معمر رانا اور بابر علی کو بڑی بڑی مونچھوں اور ہیبت ناک خون سے بھرے چہروں کے ہمراہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ اب سکرین کو سجانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہیروز کلین شیو اور خوبصورت لباس کے ہمراہ منظر عام پر آئیں تو ان کے امیج اور اہمیت میں اضافہ ہوگا۔ اب محبت کے مناظر میں بھی سکیں کم اور حقائق کے قریب رہ کر گفتگو اور مکالمے ڈالے جائیں تو اس سے نوجوانوں کو سیکھنے اور سوچنے کا موقع ملے گا۔ اس سلسلے میں ہمارا رائیٹر اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اب رائٹرز کو بھی اپنی سوچ اور مکالموں کا رخ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ فلم انڈسٹری میں موجود لوگوں کو چاہیے کہ وہ نامور ہیروز کے ہمراہ اب نئے چہروں کی ضرورت پر بھی زور دیں اور نئے لوگوں کو بھی بہتر مواقع فراہم کریں۔ میوزک کے شعبے پر توجہ دیں۔میوزک کے حوالے سے ریکارڈنگ کی سہولتوں سے فائدہ اٹھائیں۔ اس طرح ہم اپنی ہی بنائی فلموں سے حالات بہتر بنا سکتے ہیں اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اچھی فلم بنانے والوں کی مل کر حوصلہ افزائی کریں۔ اگر فلم انڈسٹری کو دوبارہ عروج پر لانا ہے تو ہم ایک دوسرے کے کام کو سراہا نا شروع کریں۔ فلم کی نمائش پر مل کر ایک دوسرے کو مبارکباد دیں۔ فلم میں شامل فنکار دوبارہ سینماؤں میں آکر اپنی فلموں کی پرموشن اور پبلسٹی کے حوالے سے وقت نکالیں۔ اس طرح ہم دوبارہ بہت جلد اپنی فلموں کو دوبارہ مقبولیت دینے میں کامیاب ہو جائینگے۔ ہمیں فلموں کو بتدریج فنی حوالوں سے بھی بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے؟ اس طرح ہم بھارتی

مزید :

ایڈیشن 2 -