جاوید ہاشمی اور علیحدہ صوبے کی تحریک
ایک بار ہم چند مشترکہ دوستوں نے،جن میں طارق قریشی، عبدالحکیم ملک، اللہ رکھا ملک اور ناصر محمود شیخ شامل تھے۔ یہ طے کیا کہ مخدوم جاوید ہاشمی سے مل کر انہیں یہ مشورہ دیں کہ وہ قومی سیاست کے بے ثمر راستے سے پلٹ کر اپنے وسیب کی طرف آئیں اور یہاں علیحدہ صوبے کی جو بے ترتیب تحریک چل رہی ہے اس کی قیادت سنبھالیں، لیکن ان سے کوئی اس طرح کی اجتماعی ملاقات تو نہ ہو سکی البتہ انفرادی ملاقاتوں میں انہیں یہ تجویز پیش کی جاتی رہی۔
اب ’’خبریں‘‘ کے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد نے علیحدہ صوبے کے حوالے سے ملتان میں ایک مشاورتی اجلاس بلایا تو مخدوم جاوید ہاشمی کو باقاعدہ طور پر یہ کہہ دیا کہ وہ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کا خیال دل سے نکال دیں اور علیحدہ صوبہ تحریک کی قیادت کریں اسی سے ان کی قدر مزید بڑھے گی اور تحریک میں بھی جان پڑ جائے گی۔ اب معلوم نہیں مخدوم جاوید ہاشمی ان کے اس مشورے کو اہمیت دیتے ہیں یا نہیں تاہم حقیقت یہی ہے کہ مخدوم جاوید ہاشمی کے لئے عمر کے اس مرحلے میں کہ جب وہ سب کچھ دیکھ بیٹھے ہیں، سیاست کے گرم و سرد کی ساری منزلیں طے کر چکے ہیں اور خود یہ کہتے ہیں کہ ان کے لئے اب وزارتوں یا پارٹی عہدوں میں کوئی کشش نہیں رہی تو پھر یہ ایک بہت بڑا آپشن کھلا ہے، وہ ایک نئی تاریخ رقم کر سکتے ہیں اور پورا جنوبی پنجاب ان کے پیچھے، ان کی قیادت کو مان کر علیحدہ صوبے کے لئے اکٹھا ہو سکتا ہے۔
جہاں تک جاوید ہاشمی سے میرا مکالمہ رہا ہے، وہ قومی سطح کی سیاست سے علاقائی سطح کی سیاست میں نہیں آنا چاہتے۔ وہ ایک طرح سے ایک ایسی نرگسیت کا شکار ہیں، جو انہیں کمتر سطح پر اترنے سے روکے ہوئے ہے وہ جب یہ کہتے ہیں کہ اب ان کی منزل اقتدار نہیں اور نیلسن منڈیلا کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں والی صورتِ حال میں پھنس گئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ مُلک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ان کی بھاری بھرکم سیاسی شخصیت کا بوجھ اُٹھانے کی سکت نہیں رکھتیں۔
حتیٰ کہ نوازشریف کے نا اہل ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی فضا ان کی شمولیت کے حق میں ہموار نہیں ہوئی۔ تحریک انصاف سے وہ ویسے ہی باغی بن کر نکل گئے، رہی پیپلزپارٹی تو آگ اور پانی کا ملاپ ہو ہی نہیں سکتا۔ گھوم پھر کر نظر جماعت اسلامی کی طرف جاتی ہے،لیکن اس میں اگر وہ شامل ہو بھی جائیں تو کوئی بڑا کردار ادا کرنے میں ناکام رہیں گے، کیونکہ امیر جماعت اسلامی تو وہ بننے سے رہے مجھ سے کئی بار گفتگو میں انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا وہ کچھ نہیں چاہتے سوائے رکن قومی اسمبلی بننے کے تاکہ مُلک کے اس سب سے بڑے ایوان میں اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ اب ان کی اس خواہش کو کیا نام دیا جائے،وہ اپنی رائے کا اظہار ہر جگہ کھل کر کرتے ہیں۔ میڈیا بھی اُن کی پریس کانفرنس کو بریکنگ نیوز کے طور پر چلاتا ہے،اُن کی رائے تو ہر جگہ ہاٹ کیک کے طور پر بکتی ہے۔ صرف اس خواہش کی تکمیل کے لئے اگر وہ خود کو ضائع کر رہے ہیں،تو اسے اُن کی دانشمندی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مخدوم جاوید ہاشمی کے حوالے سے یہ بات تو ثابت ہے کہ وہ چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کر دیتے ہیں انہوں نے جمہوریت کے خلاف سازسی تھیوری کو جس ڈرامائی انداز سے متعارف کرایا وہ انہی کا خاصا ہے۔ سازش کا سکرپٹ ایسے اعتماد سے بیان کرتے ہیں جیسے اُن کے ہاتھوں ترتیب پائی ہو،حالانکہ بہت سے اُن کے تجزیے اور قیافے ہوئے ہیں اس عمل میں انہوں نے بہت کچھ گنوایا۔ جب انہوں نے دھرنے کے دِنوں میں تحریک انصاف کی تحریک کو اپنی بغاوت کے ذریعے سبوتاژ کیا تو غیر جانبداری کا تاثر برقرار رکھنے کی بجائے وہ غیر اعلانیہ طور پر نواز شریف کیمپ کا حصہ بن گئے۔ اپنی تمام تر غیر اعلانیہ حمایت کے باوجود وہ مسلم لیگ(ن) میں واپسی کا باعزت راستہ نہ ڈھونڈ سکے۔اب مستقبل میں بھی وہ جس حلقے سے انتخاب لڑنا چاہتے ہیں اُسی حلقے سے گورنر رفیق رجوانہ نے اپنے بیٹے آصف رجوانہ کو میدان میں اتار رکھا ہے اور لوگوں کو یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ اس حلقے،یعنی این اے149 سے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار آصف رجوانہ ہوں گے۔جاوید ہاشمی نے اپنے حلقۂ احباب میں کہہ رکھا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی ٹکٹ ملے نہ ملے وہ اس حلقے سے انتخاب ضرور لڑیں گے۔ممکن ہے اس طرح وہ اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں،مگر اس کا ووٹر یا جنوبی پنجاب کو تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ ایک رکن اسمبلی کیا تبدیلی لا سکتا ہے، ایسا کام تو جمشید دستی بھی کرر ہے ہیں تاہم اپنے حلقے کے عوام کو کوئی ایک بڑا ترقیاتی منصوبہ بھی نہیں دے سکے۔
یہ ہیں وہ سب حالات جنہیں سامنے رکھ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ جاوید ہاشمی خود کو ضائع کر رہے ہیں وہ اس خطے کے عوام کو اُن کا حق دلانے کے لئے ایک بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں،مگر نہیں کر رہے،اس وقت غور سے صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ آئندہ انتخابات میں اس خطے کی سیاست کا سب سے بڑا نعرہ علیحدہ صوبہ ہو گا۔یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف اپنے ہر جلسے میں جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کا منشور دے رہی ہیں،لیکن سب جانتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کا یہ صرف ایک سیاسی سٹنٹ ہے،پہلے بھی انتخابات کے موقع پر اسی نعرے کو کیش کرایا جاتا رہا ہے۔اِس لئے عوام اُن پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔البتہ اس مطالبے کی مکمل حمایت کرتے ہیں،مگر انہیں کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں مل رہا جس کے ذریعے وہ اس مطالبے کے حق میں اپنی قوت کا اظہار کر سکیں سرائیکی قوم پرست جماعتیں اگرچہ خاصی سرگرم ہیں۔ وہ گاہے یہ بگاہے اپنی سیاسی طاقت کا اظہار کرتی رہتی ہیں،لیکن اُن کے پاس کوئی ایسا لیڈر نہیں جو ایک بڑا سیاسی پس منظر رکھتا ہو، جو اس تحریک کو منظم کر سکے اگر اس علیحدہ صوبے کی تحریک کو جاوید ہاشمی جیسا قد آور لیڈر مل جائے جو خود بھی سرائیکی ہے اور جس کے علیحدہ صوبے کے لئے جدوجہد کرنے والی قوم پرست تنظیموں کے عہدیداروں سے بڑے مضبوط مراسم ہیں اور وہ جاوید ہاشمی کو اپنے جلسوں میں بلا کر اُن سے حمایت کی درخواست بھی کرتی رہتی ہیں، تو یہ بکھری ہوئی تحریک ایک بھرپور جدوجہد کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب تمام سیاسی جماعتیں جنوبی پنجاب کو آئندہ انتخابات کے حوالے سے ہدف بنائے ہوئے ہیں۔جاوید ہاشمی اگر علیحدہ صوبہ بنانے کے لئے ایک نئی سیاسی جماعت کا اعلان کرتے ہیں اور اس جماعت کے پلیٹ فارم سے نہ صرف خود بلکہ پورے جنوبی پنجاب میں امیدوار کھڑے کر دیتے ہیں، تو ایک دلچپ مقابلہ دیکھنے میں آئے گا۔مظفر گڑھ سے جمشید دستی بھی اُن کے ساتھ شامل ہو جائیں گے اور ساری سرائیکی قوم پرست تنظیمیں بھی اُن کے ساتھ کھڑی ہوں گی۔یوں ایک ایسا ماحول بن جائے گا جس میں جاوید ہاشمی جنوبی پنجاب میں بیٹھ کر قومی سیاست کا رخ بدل سکیں گے۔ مجھے یقین ہے جاوید ہاشمی اگر یہ کر گزریں تو اُن کی ساری زندگی کی سیاست ایک طرف اور جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کی سیاست دوسری طرف ہو گی اور پلڑا بھی اسی کا بھاری ہو گا،لیکن اس کے لئے ایک جرأت مندانہ اور نعرۂ مستانہ چاہئے، کیا جاوید ہاشمی ایسا کر سکتے ہیں؟ وہ میرے ہر ایسے کالم کے بعد مجھے فون کرتے ہیں،اگر اس کالم کے بعد اُن کا فون آیا تو وہ یقیناًاس سوال کا جواب دیں گے اور وہ جواب شاید بریکنگ نیوز بن جائے۔