نواز شریف اور عمران خان کے لاہور میں پارٹی رہنماؤں سے صلاح مشورے
پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں سیاسی گرما گرمی، سیاسی گہما گہمی میں تبدیل ہو گئی ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ 120 میں انتخابی سرگرمیاں آہستہ آہستہ تیز ہو رہی ہیں کیونکہ سیاسی قیادت، وزراء ، ارکان اسمبلی کو الیکشن مہم چلانے سے منع کر دیا گیا ہے۔وفاقی وزیر اور مرکزی لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق نے اس پابندی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ تمام جماعتوں کا نمائندہ اجلاس بلا کر یہ مسئلہ حل کیا جائے۔ الیکشن مہم چلانے میں دشواری ہو رہی ہے۔جہاں تک این اے 120 کے انتخاب کی بات ہے تو مسلم لیگ (ن) کی امیدوار بیگم کلثوم نواز کے کینسر میں مبتلا ہونے کی خبر سے لیگی کارکنوں کو دھچکا لگا تھا۔ بیگم کلثوم نواز لندن میں زیر علاج ہیں ان کی انتخابی مہم چلانے کے لئے مریم نواز نے ذمے داری قبول کرنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ دو ہفتے قبل حمزہ شہباز یہ کام کررہے تھے کہ ان کی جگہ وفاقی وزیر پرویز ملک کو انچارج بنایا گیا جس پر چند روز بعد حمزہ شہباز اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ کلثوم نواز کی عیادت کے بہانے لندن چلے گئے۔ بعدازاں مریم نواز نے انتخابی مہم چلانے کا اعلان کیا۔ چنانچہ وہ عید لاہور میں منائیں گے۔
انتخابی سرگرمیوں کی صورت حال یہ ہے کہ لیگی حلقے اس سیٹ کو اپنی جیتی ہوئی سیٹ قرار دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی امیدوار یاسمین راشد مختلف علاقوں میں ووٹ مانگنے جا رہی ہیں، عبدالعلیم خان ابھی ان کی مدد کھل کر نہیں کر رہے ہیں۔ عمران خان پچھلے ہفتے دو روز تک لاہور میں مقیم رہے، انہوں نے یاسمین راشد اور مقامی رہنماؤں سے انتخابی مہم کی رپورٹ حاصل کی اور ایک جلسے سے خطاب کے پروگرام کی منظوری بھی دی۔ انہوں نے شریف برادران پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ طویل عرصہ تک اقتدار میں رہنے کے باوجود کینسر کا ایک ہسپتال تک نہ بنا سکے اور کلثوم نواز کو لندن جانا پڑا۔ ان کی اس بات میں کافی وزن ہے۔ عمران خان نے نوازشریف کی جارحانہ سیاست کو جمہوریت کے لئے خطرناک قرار دیا۔
پیپلزپارٹی کے رہنما لاہور میں اپنی سیاسی اور انتخابی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے ٹف ٹائم دینے کی باتیں تو کر رہے ہیں لیکن زور دار انتخابی مہم کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔آصف زرداری اور بلاول کے بیانات فی الحال جیالوں کو باہر نہیں نکال پائے ہیں۔ عیدالاضحی کے بعد دیکھئے،کیا تیزی آتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں اور عوامی حلقوں نے الیکشن کے موقع پاک فوج کی تعیناتی کو اچھا فیصلہ قرار دیا ہے، تاہم ن لیگ، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے بعض جذباتی کارکنوں( جن کی مقامی سطح پر ایک دوسرے سے غیر سیاسی ناراضی بھی ہے) کی وجہ سے خدشہ ہے کہ الیکشن مہم کے دوران کوئی تصادم نہ ہو جائے، لہٰذا الیکشن کمیشن حکام کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ معمولی تصادم بڑی پریشانی پیدا کر سکتا ہے۔
نوازشریف فی الحال جاتی امراء میں ہی مقیم ہیں۔ ان کا دوسرا سیاسی مارچ عیدالاضحی کے بعد ہوگا۔ لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگلا مارچ ملتان، بہاول پور تک ہوگا۔ رحیم یارخان تک مارچ کا ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ نوازشریف عید گزارنے اور اپنی اہلیہ کی عیادت کے لئے لندن گئے تو وہاں اپنا میڈیکل چیک اپ بھی کروائیں گے۔ ڈاکٹروں نے اجازت دی تو دوسرے سیاسی مارچ کا حتمی پروگرام بنایا جائے گا۔لاہور میں وکلاء کنونشن سے خطاب کے دوران نوازشریف کی طبیعت خراب تھی۔ ان کا گلا اس قدر خراب تھا کہ ڈاکٹروں نے خطاب سے منع کیا مگر اس کنونشن کو ملتوی نہ کیا گیا۔ اسی حالت میں نوازشریف نے محنت سے تیار کئے گئے بارہ بنیادی سوال پیش کرکے آئینی اور قانونی حلقوں سے جواب مانگا۔سچی بات ہے، جتنی محنت اب کی جا رہی ہے، نوازشریف کی لیگل ٹیم پاناما کیس کے موقع پر بھی اتنی محنت کرتی تو صورت حال مختلف ہوتی۔ یہی کہا جا رہا ہے کہ نوازشریف مصلحت پسندی کی وجہ سے نااہل ہو گئے۔ اب تو سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹنے والی بات ہے۔ یہ بھی مشورہ دیا جا رہا ہے کہ سیاسی اور قانونی دونوں محاذوں پر چومکھی لڑائی کے ذریے مقصد حاصل کرنے کی کوشش کریں تو شائد بات کچھ بن جائے۔
جہاں تک پیپلزپارٹی کی بات ہے تو بلاول مختلف شہروں میں جلسے کرکے یہ سمجھ رہے ہیں کہ پنجاب میں پارٹی پوزیشن مضبوط ہو سکتی ہے، لاہور میں انتخابی مہم پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ ان کے امیدوار فیصل میر اپنے اور دوستوں کے وسائل پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ سینئر رہنما محض بیان بازی تک محدود ہیں۔ بھرپور الیکشن مہم کے لئے لاہور قیادت بھی بوجوہ کوئی ہلچل پیدا نہیں کر پائی۔ حاجی عزیز الرحمن چن تنہا کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ لاہور تنظیم کے جنرل سیکرٹری کہاں ہیں اور کیا کررہے ہیں، کچھ پتہ نہیں۔ قمرالزمان کائرہ بھی اپنی حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
آصف زرداری کی نیب مقدمات کے آخری مقدمے میں بھی بریت کی خبر بلاشبہ جیالوں کے لئے خوشخبری تھی۔ عمران خان لاکھ کہتے رہیں کہ ن لیگ اور پی پی کے مک مکا کی وجہ سے زرداری بری ہوئے،لیکن مختلف مقامات پر پیپلزپارٹی کے ذرائع نے جشن منانے کا دعویٰ کیا ہے۔ لاہور میں یہ ہوا کہ انفرادی سطح پر ’’جشن‘‘ منایا گیا۔ پارٹی کی سطح پر کچھ نہیں ہوا۔ اگر کہیں کچھ ہوا بھی تو بہت ’’ماٹھا جشن‘‘ تھا۔ بریت کے حوالے سے باقاعدہ جشن منایا جانا چاہیے تھا۔آصف زرداری نے نوازشریف کو اقتدار کی ’’باری‘‘ میں الجھائے رکھا اور خود فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے بداشت کرکے اپنے مقدمات کو ختم کرواتے رہے۔ نوازشریف کی جگہ کوئی دوسرا وزیراعظم ہوتا زرداسری اتنی آسانی سے نیب مقدمات سے بری نہ ہوتے۔ اب بڑے اعتماد سے وہ کہتے ہیں کہ آزاد عدلیہ نے جھوٹے مقدمات ختم کرکے انصاف دیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر فیصلہ ان کے خلاف ہوتا تو کیا پھر بھی عدلیہ کی تعریف کرتے؟ کنگرو کورٹس اور چمک کی باتیں نہ کرتے؟؟امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو جو دھمکیاں دی ہیں، ان پر حکومتی، سیاسی اور عوامی حلقوں کی طرف سے جوابی ردعمل لاہور میں بھی سامنے آ رہا ہے۔ یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ زندہ دلانِ لاہور نے شایانِ شان طریقے سے ٹرمپ کو فوری جواب نہیں دیا ہے۔ سیاسی اور دینی جماعتوں کا ردعمل، سفارتی ردعمل کی طرح زیادہ پرجوش نہیں ہے ۔