ملک میں بڑے ڈیم نہ بننے سے ہر سال 35ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع ہونے لگا
لاہور(عدیل شجاع)پاکستان میں میگا ڈیمز نہ بننے کی وجہ سے ہر سال 30 سے35 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع ہو جاتا ہے اور اس پانی کی قیمت بلین ڈالرز میں ہے،کالا باغ ڈیم بننے سے اریگیشن ہی نہیں ملک میں انرجی کرائسس ختم ہونے میں بھی مدد ملے گی،ہمارے پاس 65 ہزار میگا واٹ ہائیڈرو پاور کا پوٹینشل موجود ہے، ہم نے پانی کے ذخائر تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے صرف اس سال یکم اپریل سے 10اگست تک 5 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں پھینکا ہے جو منگلا اور تربیلا ڈیم کے ذخیرے کے برابر ہے ،کالا باغ دنیا کے بہترین ڈیموں میں سے ایک ہے اور اس کے بننے سے پاکستان کا مالی خسارہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 30 سے35 فیصد کم ہو سکتا ہے سیکرٹری اریگیشن پنجاب اسد اللہ اور سٹریٹیجک پلاننگ اینڈ ریفارم یونٹ اریگیشن کی پاکستان کے گفتگو۔گزشتہ روز پاکستان سے بات کرتے ہوئے سیکرٹری اریگیشن پنجاب اسد اللہ نے بتایا کہ پاکستان میں زرعی اور معاشی ترقی کے لیے کالا باغ ڈیم بننا انتہائی ضروری ہے اور وہ چیئر مین واپڈا سے صد فیصد متفق ہیں کہ کالا باغ ڈیم ملک کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں میگا ڈیمز نہ بننے کی وجہ سے ہم ہر سال30 سے35 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع کر رہے ہیں جس کی ورتھ بلین آف ڈالرز ہے اور ہم 1947 سے لے کر اب تک ہر سال تقریباً اسی مقدار میں پانی ضائع کر رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں فی آدمی سالانہ پانی کی دستیابی1200 کیوبک میٹر ہے جبکہ پنجاب میں یہ دستیابی 1000 کیوبک میٹر رہ چکی ہے جو بین الاقوامی پیمانہ سے سٹریس زون کی پوزیشن کہلاتی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کالا باغ ڈیم بنا کر نہ صرف ہم پانی کاضیاع روک کے ذخیرہ کر سکتے ہیں بلکہ اس سے سیلابی صورتحال سے بھی چھٹکارہ پایا جا سکتا ہے جیسا کہ 2010 میں پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا مالی تخمینہ ورلڈ بنک اور ایشین بنک کی جانب سے 10 بلین ڈالرز لگایا گیا تھا۔جبکہ سٹریٹیجک پلاننگ اینڈ ریفارم یونٹ اریگیشن کے چیف محمد عامر خان کا کہنا تھا محکمہ اریگیشن پنجاب کی خواہش ہے کہ کالا باغ ڈیم بنے اور انہوں نے بتایا کہ صرف پنجاب میں 21 ملین ایکڑ اراضی پر کاشت کاری کی جا رہی ہے جبکہ پانی کی قلت کی وجہ سے 14 ملین ایکڑ اراضی بنجر پڑی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ زراعت پاکستان کیGDP کا تقریباً نوے فیصد ہے اور اگر کالا باغ ڈیم یا اسی طرح کے بڑے ڈیمز بن جاتے ہیں تو پھر ہماری معیشت کہاں پہنچ جائے گی اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ہمارے پاس ہائیڈرو پاور سے65 ہزار میگا واٹ پیدا کرنے کی صلاحیت ہے اگر پانی کو محفوظ کیا جا سکے۔جس سے نہ صرف ملک میں انرجی کرائسس ختم ہو جائے گا بلکہ ہم بجلی دوسرے ممالک کو بیچ بھی سکیں گے۔جبکہ ڈائریکٹر سٹریٹیجک پلاننگ اینڈ ریفارم یونٹ ڈاکٹر محمد جاوید کا کہنا تھا کہ ہم نے پانی کے ذخائر تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے صرف اس سال یکم اپریل سے 10اگست تک 5 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں پھینکا ہے جو منگلا اور تربیلا ڈیم کے ذخیرے کے برابر ہے۔جبکہ پانی کی کمی کے باعث کسان پمپ لگا کے پانی حاصل کرتے ہیں جس سے سطح زمین سے نیچے پانی کی سطح روز بروز گر رہی ہے۔جبکہ ہائیڈ رالکس ریسرچ اریگیشن انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر چوہدری غلام قادر نے بتاہا کہ کالا باغ ڈیم پاکستان کے لیے لائف لائن ہے اور اس پر 1978سے1988 تک مختلف پیرائے میں 30 کے قریب ماڈل سٹڈیز ہوئی ہیں اور نندی پور میں اس کا عملی تجربہ بھی کیا گیا اور اس کو ہر لحاظ سے موذوں پایا جبکہ نوشہرہ کے زیر آب آنے کی بات میں کوئی صداقت نہیں مگر تحفظات کو دیکھتے ہوئے کالا باغ ڈیم کا لیول 924 سے 915 کر دیا گیا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ساڑھے تین لاکھ ڈیمز ہیں مگر کالا باغ ڈیم ان سب میں ایک بہترین منصوبہ ہے اور اگر حکومت کہے تو ہم کل ہی اس کی پہلی اینٹ رکھ سکتے ہیں اور تمام تیاریاں تقریباً مکمل ہیں بس احکامات کا انتظار ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ کالا باغ ڈیم بننے سے چولستان کی66 لاکھ ایکڑ اور ڈیرہ غازی خان کی 8لاکھ ایکڑ اراضی سیراب ہو سکتی ہے۔
میگا ڈیمز