چینیوں نے ملتان میٹرو پراجیکٹ میں کرپشن کیسے پکڑی اور شہباز شریف کا اس میں کیا کردار ہے؟ حامد میر نے سارا کچا چٹھہ کھول دیا، چینی تحقیق کاروں کے بارے میں ایسی بات بتا دی جو پاکستانیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) سینئر صحافی و کالم نگار حامد میر نے کہا ہے کہ ملتان میٹروپراجیکٹ میں کرپشن ایک چینی کمپنی کے نام پر ہوئی تو جب چین میں ایک ریگولیشن کے ادارے نے مذکورہ کمپنی سے پوچھا کہ یہ اتنے پیسے کہاں سے آئے تو انہیں جواب دیا گیا کہ یہ پیسے ملتان میٹرو پراجیکٹ سے کمائے ہیں۔
اس پر چینیوں نے کہا کہ اسے ثابت کریں تو اس پر چینیوں کو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، سینیٹر مشاہد حسین، سینیٹر کلثوم پروین اور ایک وزیر مشاہد اللہ خان کی جانب سے دئیے گئے تعریفی لیٹر دکھائے گئے کہ ہم نے بہت اچھا کام کیا ہے اور اس پر ہمیں یہ لیٹر بھی دئیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں۔۔۔ سہیل تنویر نے ٹی 20 کی تاریخ میں انوکھا ترین کارنامہ سرانجام دیدیا، صرف 3 رنز دے کر کتنی وکٹیں حاصل کیں؟ جواب آپ کے تمام اندازے غلط ثابت کر دے گا
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ ” ملتان میٹرو پراجیکٹ میں ہونے والی کرپشن ایک چینی کمپنی کے نام پر ہوئی ہے اورچینی حکومت کے ریگولیشن کے ایک ادارے نے چینی کمپنی کے بینک اکاﺅنٹ میں پاکستان سے بھیجے گئے 17 ملین ڈالرز پر تحقیقات کیں اور پوچھا کہ اتنے پیسے کہاں سے آئے جس پر انہیں جواب دیا گیا کہ ہم نے ملتان میٹرو پراجیکٹ سے یہ پیسے کمائے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اتنے زیادہ پیسے کیسے کمائے، ثابت کریں تو اس کے بعد انہوں نے سینیٹر مشاہد حسین، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، سینیٹر کلثوم پروین اور ایک وزیر مشاہد اللہ خان کے لیٹر پیش کئے کہ یہ دیکھیں ہمیں تعریفی لیٹر دئیے گئے ہیں کیونکہ ہم نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ اب تین سینیٹر صاحبان سی پیک کمیٹی کے ممبر ہیں، شہباز شریف صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں جبکہ مذکورہ کمپنی میٹرو بس سے وابستہ ہی نہیں ہے اور اسے کوئی ٹھیکہ وغیرہ بھی نہیں ملا ہوا۔ چینی تحقیقاتی ٹیم جب پاکستان آئی اور ان لوگوں سے رابطہ کیا جن کے لیٹرز انہیں دکھائے گئے تھے تو سب نے تردید کر دی۔
اب یہ معاملہ تقریباًسات آٹھ مہینے سے چل رہا ہے اور چینی حکومت کی تحقیقاتی ٹیم پاکستان کے دو دورے کر چکی ہے۔ یہ معاملہ وزارت خزانہ، پنجاب حکومت، سینیٹ کی سی پیک کمیٹی، ایف آئی اے اور ایس ای سی پی کے بھی علم میں ہے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق اس سارے معاملے کو ایس ای سی پی کے سربراہ ظفر حجازی ، جو پانامہ کیس میں بھی ملوث رہے، نے دبانے کی کوشش کی اور اسے آگے پیچھے کرتے رہے اور اب جب یہ معاملہ میڈیا میں بھی آ گیا ہے اور ہم نے گزشتہ روز اپنے پروگرام میں بھی اس پر بات کی تو حکمران جماعت کی طرف سے کوشش کی گئی کہ اس معاملے کو دبا دیا جائے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اتنی بڑی کرپشن میں تقریباً پونے دو ارب روپے منی لانڈرنگ کے ذریعے چین میں منتقل ہوئے ہیں۔ ساری حکومت کو پتہ ہے، نیب، ایف آئی اے، ایس ای سی پی، سٹیٹ بینک آف پاکستان کو پتہ ہے لیکن کوئی انکوائری نہیں کر رہا۔ اگر یہی کرپشن سندھ میں یا خیبرپختونخواہ میں ہوئی ہوتی تو آپ دیکھتے کہ پاکستان کے کچھ بڑے بڑے میڈیا گروپس اور بڑے بڑے اخبارات نے زمین آسمان ایک کر دینا تھا اور اتنی سینہ کوبی اور ماتم کرنا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا کہ پاکستان میں بہت بڑا طوفان آ گیا ہے۔
اب بھی دیکھ لیںکہ خیبرپختونخواہ اور سندھ میں کرپشن کو بہت اٹھایا جاتا ہے لیکن پنجاب میں کرپشن ہو ملتان میٹرو پراجیکٹ میں کرپشن ہو تو ایسے معاملات پر کرپشن کے خلاف جہاد کے دعویدار اور آزادی صحافت کے علمبردار، سب خاموش ہیں۔ ملتان میٹرو پراجیکٹ میں کرپشن کا معاملہ صرف کرپشن کا معاملہ نہیں بلکہ پاکستان کے میڈیا کی جانبداری اور بے ایمانی اور بڑے بڑے میڈیا گروپس کے دوہرے معیار کو بھی ایکسپوز کر رہا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ کرپشن کی کوئی مخصوص سیاسی جماعت اور صوبہ ہوتا ہے، کرپشن اگر سندھ ، خیبرپختونخواہ یا بلوچستان میں ہو تو اس کی بڑی بڑی خبریں لگتی ہیں لیکن اگر وہ ہی کرپشن پنجاب میں ہو تو کسی کو نظر نہیں آتی، اور پتہ نہیں ایسا کیوں ہے۔ بڑے بڑے میڈیا گروپس بھی کرپشن کو اگر ایک خاص سیاسی جماعت یا صوبے سے وابستہ کر دی جائے اور پھر اسی پر ہی بولا جائے گے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ صحافت نہیں بلکہ منافقت کر رہے ہیں اور آپ بھی کرپشن میں ملوث ہیں۔
جو لوگ ملتان میٹروپراجیکٹ کی کرپشن کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس پر خاموش ہیں اور آواز نہیں اٹھا رہے، وہ اس کرپشن کا حصہ ہیں۔ پاکستان کے سارے میڈیا کو مل کر مطالبہ کرنا چاہئے کہ ملتان میٹرو پراجیکٹ میں کرپشن کے معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئے۔
ابھی تک ایف آئی اے اور نیب نے کیوں نہیں کی، اگر یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا تو پھر آپ کہیں گے کہ سپریم کورٹ ہر معاملے میں آ جاتی ہے۔ سپریم کورٹ اسی لئے اس طرح کے معاملات میں آتی ہے کہ ایف آئی اے اور نیب انکوائری نہیں کرتی، اگر یہی شکایت سندھ میں پیپلز پارٹی کے کسی وزیر یا خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کے کسی وزیر کے حوالے سے ہوتی، یا بلوچستان کا کوئی قوم پرست سیاستدان اس میں ملوث ہوتا تو اب تک یہ تحقیقات شروع ہو گئی ہوتیں، لیکن بڑی بدقسمتی اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چونکہ یہ کرپشن پنجاب کے شہر ملتان میں ہوئی ہے اس لئے اس پر پاکستان کا کوئی ادارہ ابھی تک تحقیقات شروع کرنے کی جرات نہیں کر سکا اورپاکستان کے تمام میڈیا گروپس خاموش ہیں۔
آج ہم نے سینیٹر مشاہد حسین سے رابطہ کیا اور کہا کہ کیمرے پر آ کر بتائیں کہ آپ کی طرف سے جعلی تعریفی لیٹر کیوں جاری ہوا، آپ اس کی وضاحت کریں مگر وہ کیمرے پر بات نہیں کر رہے، کلثوم پروین نے بھی بات نہیں کی، شہباز شریف بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کے حوالے سے جو لیٹر جاری ہوا وہ بھی جعلی ہے، سارے اس کی تردید کر رہے ہیں مگر سامنے آ کر بات کرنے کو تیار نہیں ہیں، اس کا مطلب ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے، اور پھر ایس ای سی پی نے اتنا عرصہ انکوائری کیوں نہیں کی، یہ معاملہ وزارت خزانہ کو بھجوا دیا گیا ہے، حالانکہ یہ معاملہ نیب کو بھجوایا جاتا، ایس ای سی پی کو چاہئے تھا کہ نیب یا ایف آئی اے کو انکوائری کا حکم دیتی۔ لیکن ابھی تک انکوائری شروع نہیں کی گئی، اور یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ اس کرپشن میں پاکستان کی کوئی انتہائی اہم شخصیت ملوث ہے اور وہ بہت بااختیار ہے اور وہ انکوائری کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے اور اس اہم شخصیت نے کچھ بڑے میڈیا گروپس کو مینیج کیا ہوا ہے، اور وہ بھی اس پر بولنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں۔۔۔ قومی کرکٹر شرجیل خان پر 5 سال پابندی عائد
خیبرپختونخواہ میں درخت لگانے کے مسئلے پر تو بہت بڑی بڑی خبریں آ رہی ہیں لیکن ملتان کے معاملے پر خاموشی ہے، کیوں ہے یہ خاموشی؟ اس کا جواب ہمیں حاصل کرنا چاہئے۔ شہباز شریف صاحب تو پارٹی بن گئے کیونکہ ان پر الزام آ گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ پنجاب حکومت کے سائے تلے یہ کرپشن ہوئی ہے، اس لئے وہ تو انکوائری نہیں شروع کروا سکتے، اب اس کی انکوائری ایف آئی اے اور نیب نے شروع کرنی ہے اور اگر وہ نہیں کریں گے تو پھر سپریم کورٹ میں اگر کوئی درخواست چلی گئی یا ازخود نوٹس لے لیا تو پھر مسلم لیگ (ن) والے کہیں گے کہ سپریم کورٹ ایگزیکٹو کے اختیارات میں مداخلت کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ اس قسم کے معاملات میں مداخلت اس لئے کرتی ہے اور ازخود نوٹس لے لیتی ہے یا اگر کوئی درخواست دائر کر دے تو کارروائی اس لئے کرتی ہے کہ پاکستان کے بڑے سویلین تحقیقاتی ادارے اس طرح کے معاملات میں خاموشی اختیار کرتے ہیں۔
جمہوریت کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے نام پر کرپشن کو تحفظ دیں، اگر پاکستان میں واقعی ایک سچی، صاف اور شفاف جمہوریت ہوتی اور موجودہ حکمران جماعت یہ سمجھتی کہ وہ پارلیمینٹ کو جواب دہ ہے، تو ابھی تک ایف آئی اے اور نیب نے انکوائری شروع کر دی ہوتی، لیکن انہوں نے انکوائری شروع نہیں کی بلکہ انکوائری کے راستے میں رکاوٹ ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ جمہوریت کے نام پر کرپشن کو تحفظ دے رہے ہیں اور یہ جمہوریت کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔
۔۔۔ویڈیو دیکھیں۔۔۔