زرداری کو در اصل نیب سے کس نے اور کیسے بری کروایا ?تہلکہ خیز انکشاف سامنے آگیا ،ہمارے جج اور بڑے بڑے ادارے سب بے نقاب ہو گئے
اسلام آباد (ویب ڈیسک) ایک بڑا اسکینڈل سامنے آیا ہے جسے نیب اور عدلیہ دونوں نے نظر انداز کر دیا ہے۔ یہ اسکینڈل سابق صدر آصف علی زرداری کیخلاف تین بڑے کرپشن سکینڈلز (اثاثوں، کوٹیکنا اور ایس جی ایس کیس) کے متعلق ہے۔یہ کیس اصل دستاویزی ثبوتوں کی عدم موجودگی کی بنا پر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کے حق میں خارج کیے جا چکے ہیں۔ یہ شواہد گم ہو چکے ہیں۔ نیب کے باخبر ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ بیرون ممالک سے حاصل کیا جانے والا اصل دستاویزی ثبوتوں کا ایک سیٹ دستیاب تھا لیکن احتساب عدالت نے بیورو کو یہ ثبوت پیش کرنے کی اجازت نہیں دی۔ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اصل ریکارڈ کا دوسرا سیٹ، جو مقامی حکام وغیرہ سے حاصل کیا گیا تھا، مبینہ طور پر عدالتوں میں سے گم ہوگیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ٹرائل کورٹ نے زرداری کو بری کر دیا۔ گمشدہ ریکارڈ کہاں ہے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس اہم پہلو کے حوالے سے کوئی انکوائری کیوں نہیں کرائی گئی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب اب تک نہیں مل سکا۔ چند ماہ قبل شائع ہونے والی میڈیا رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کیخلاف اثاثوں کی کرپشن کے 15 سال سے گھسیٹے جانے والے ریفرنس کا اصل ریکارڈ احتساب عدالت سے کھو گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا، ایس جی ایس اور کوٹیکنا کے دو دیگر ریفرنسز کا ریکارڈ بھی گم ہوگیا تھا جس کے بعد انہیں بری کر دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق، نیب نے اثاثوں کی کرپشن کے ریفرنس میں راولپنڈی احتساب عدالت کے روبرو ایک حلف نامہ جمع کرایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ نیب نے 15 سال قبل عدالت کو اصل کیس ریکارڈ فراہم کیا تھا جو آج تک نیب کو واپس نہیں کیا گیا۔ نیب حکام کا دعویٰ ہے کہ بیورو کے قانونی ماہرین کی ٹیم نے عدالت کو اپنا خط دکھایا تھا جس میں عدالت نے اصل ریکارڈ (لوکل ڈاکیومنٹس) وصول کرنے کی تصدیق کی تھی۔یہ خط عدالت میں جمع کرایا گیا۔ اس بات کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں کہ عدالت نے نیب کو یہ ریکارڈ واپس کر دیا ہے۔ کیس کی سماعت کے دوران، ٹرائل کورٹ کو یہ بھی بتایا گیا کہ ریکارڈ عدالت کی تحویل سے لاپتہ ہو چکا ہے۔ نیب حکام کا دعویٰ ہے کہ بیورو نے جنوری 2001ءمیں احتساب عدالت میں کیس درج کرایا تھا اور اس وقت کیس کے متعلق عدالت کو اصل دستاویزات بھی جمع کرائی تھیں۔ ایک ذریعے کے مطابق، نیب کے دستاویزی شواہد (مقامی) ایک مرتبہ ہائی کورٹ میں جمع کرایا گیا تھا۔یہی ریکارڈ اب گم ہو چکا ہے اور اسی وجہ سے اثاثوں کے ریفرنس میں ملزم کے حق کے فیصلہ سنایا گیا۔ نیب کے ایک اور سینئر ذریعے کا کہنا تھا کہ بیرون ممالک سے حاصل کیا جانے والا اصل ریکارڈ نیب کے پاس موجود ہے۔ انہوں نے آگاہ کیا کہ اثاثوں کے ریفرنس کی سماعت کے دوران متعلقہ انوسٹی گیشن افسر نے عدالت سے اصل ریکارڈ پیش کرنے کی اجازت طلب کی لیکن وکیل صفائی کے اعتراض پر انہیں اصل ریکارڈ پیش کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ذریعے نے واضح کیا کہ وکیل صفائی نے اعتراض اٹھایا تھا کہ اصل دستاویزی شواہد نیب کے صرف وہی حکام عدالت میں پیش کر سکتے ہیں جو یہ ثبوت بیرون ممالک سے خود لائے تھے۔ نیب ذرائع نے واضح کیا کہ یہ دستاویزات لانے والے نیب کے دونوں افسران میں سے کوئی بھی دستیاب نہیں کیونکہ ایک کا انتقال ہو چکا ہے جبکہ دوسرا افسر بیرون ملک منتقل ہو چکا ہے۔اسی وجہ سے دستیاب اصل ریکارڈ ٹرائل کورٹ میں پیش کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ ماضی میں بھی زرداری کے کیسز میں دو مرتبہ ایسا ہو چکا ہے جب ایس جی ایس کوٹیکنا اور اے آر وائی ریفرنسز میں اصل ریکارڈ غائب ہوگیا؛ یہی وجہ ہے کہ ان ریفرنسز میں بھی انہیں بری کر دیا گیا۔ عدالت کے باہر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے مسٹر زرداری کے وکیل فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ اثاثہ ریفرنس کا کوئی ریکارڈ غائب نہیں ہوا، یہ پرانہ ریکارڈ ہے اور عدالتی عملہ اسے ڈھونڈنے میں مصروف ہے۔پانچ دیگر گواہوں کو کیس میں اپنا بیان ریکارڈ کرانا ہے جس کے بعد عدالت اپنا فیصلہ سنا دے گی۔ 2015ءمیں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کو احتساب عدالت نے ایس جی ایس کوٹیکنا ریفرنسز میں بری کر دیا تھا۔ ایس جی ایس کوٹیکنا ریفرنس پری شپمنٹ کنٹریکٹ دینے کے حوالے سے تھا جس میں آصف زرداری پر 6 فیصد کمیشن لینے کا الزام تھا۔ ان کیسز میں نیب عدالت کا کہنا تھا کہ احتساب کا ادارہ ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا ہے اور عدالت میں پیش کی جانے والی دستاویزات مکمل نہیں اور جو ہیں وہ اصل کی بجائے فوٹو کاپی کی صورت میں ہیں۔تاہم، پیپلز پارٹی نے دلیل دی کہ یہ مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں اور ان کا مقصد آصف زرداری اور ان کی شریک حیات بینظیر بھٹو شہید کو نشانہ بنانا ہے۔ اثاثہ ریفرنس میں آصف زرداری کی بریت کے بعد ان کے وکیل فاروق نائیک نے مبینہ طور پر کہا ہے کہ یہ ریفرنسز 1998ءمیں قائم کیے گئے تھے اور دو دہائیوں تک ان کی کارروائی جاری رہی۔ انہوں نے کہا کہ ریفرنسز کی سماعت کے دوارن نیب کے 6 چیئرمین ریٹائر ہوچکے، 6 پراسیکوٹر جنرلز کو تبدیل کیا گیا اور کئی اسپیشل پراسیکوٹرز کو مقرر کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر 40 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے لیکن کسی نے زرداری پر براہِ راست الزامات عائد کیے اور نہ ہی کسی نے کرپشن میں ان کے براہِ راست کردار کی نشاندہی کی، جوابی جرح میں گواہوں اور شواہد کو پارا پارا کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جن گواہوں کو پیش کیا گیا وہ غیر متعلقہ تھے اور عدالت کے سامنے پیش کیے جانے والے شواہد قانونِ شہادت میں وضع کردہ معیار پر پورا نہیں اترتے تھے۔ نائیک کا کہنا تھا کہ یہ الزام عائد کیا جاتا تھا کہ پاکستان اور بیرون ملک موجود جائیدادیں زرداری کی ہیں، لیکن الزامات کو ثابت کرنے کیلئے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ انوسٹی گیشن کے عمل میں خامیاں تھیں، ایک انوسٹی گیشن افسر نے عدالت کے روبرو اعتراف کیا کہ وہ ریکارڈ پر زرداری کے نام سے کسی طرح کے شیئر سرٹیفکیٹ پیش نہیں کر سکا۔