دفاع اور دفاعی پیداوار کی وزارتیں!
آج پاکستان کے دفاعی امور سے متعلق دو خبریں نظر سے گزریں۔۔۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ نئی حکومت میں پرویز خٹک صاحب کو وزیر دفاع مقرر کر دیا گیا ہے اور دوسری یہ کہ زبیدہ جلال صاحبہ کو وزیر دفاعی پیداوار تعینات کیا گیا ہے۔ یہ دونوں وزارتیں الگ الگ ہیں۔ دونوں کے دفاتر الگ ہیں اور عملہ بھی الگ ہے۔ وزیر دفاع، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے دفاعی معاملات کے وزیر ہیں لیکن عصرِ جدید میں چونکہ دفاع کا موضوع زیادہ وسعت اختیار کر گیا ہے اس لئے اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ایک کا تعلق دفاعی نفری سے ہے اور دوسرے کا دفاعی اسلحہ جات سے۔۔۔ ہر سپاہی کو روٹی، کپڑا اور مکان کے علاوہ جو چوتھی چیز درکار ہوتی ہے وہ اس کا اسلحہ ہے۔ اسلحہ نہ ہو تو کوئی بھی آدمی فوجی نہیں کہلا سکتا۔ فوج کا مشن مرنے یا مار دینے کے فن سے عبارت ہے۔ انسان کسی بھی حادثے کے سبب بغیر کسی اسلحہ کے، مر تو سکتا ہے لیکن مارنے کے لئے اس کے زندہ جسم کے ساتھ بے جان اسلحہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مرورِ ایام سے انسان نے نوکدار پتھر سے شروع کرکے اور جوہری بم تک پروڈیوس کرکے جنگ و جدال کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ جہاں زندگی کی ساری حدیں ختم ہو جاتی ہیں۔۔۔ جوہری اسلحہ جات انسان کی آخری جنگی ایجادیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کی تیسری عالمی جنگ تو ضرور ہو گی (جب کبھی ہوئی) لیکن چوتھی عالمی جنگ نہیں ہو سکتی۔۔۔ کیونکہ انسان تیسری عالمی جنگ ہی میں ایک بار پھر پتھر کے زمانے میں لوٹ جائے گا اور جو لوٹ بھی جائے گا وہ خوش قسمت تصور کیا جائے گا!
پرویز خٹک صاحب کو وزارتِ دفاع کے دفتر میں بریفنگ دی گئی اور زبیدہ جلال صاحبہ کو بھی وزارتِ دفاعی پیداوار کے دفتر میں بریف کیا گیا۔اول الذکر کو بریفنگ دینے والے یا تو وردی پوش تھے یا کبھی وردی پوش رہے تھے لیکن ثانی الذکر فوجی بھی تھے اور سویلین بھی۔۔۔سلاحِ جنگ کی پروڈکشن میں فوجی اور سویلین مل کر کام کرتے ہیں۔ کوئی ملک جتنا زیادہ ترقی یافتہ ہو گا اس کی دفاعی پیداوار میں سویلین دفاعی سائنس دانوں کا حصہ، وردی پوش لوگوں کی نسبت اتنا ہی زیادہ ہوگا۔پرویز خٹک صاحب کو جب بریفنگ دی جا چکی تو انہوں نے صرف ایک مختصر جملے میں اپنا سارا ’’فیوچر پلان‘‘ بیان کر دیا۔ انہوں نے کہا: ’’ملک کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنایا جائے گا اور پاکستان کی مسلح افواج کو وسائلِ جنگ اور ساز و سامانِ جنگ سے لیس کیا جائے گا‘‘۔۔۔۔
تری آواز مکے اور مدینے!
زبیدہ جلال صاحبہ جب اپنی وزارت میں پہنچیں تو سیکرٹری دفاعی پیداوار، لیفٹیننٹ جنرل محمد اعجاز چودھری نے ان کو بریف کیا۔ زبیدہ جلال نے بھی اپنے شعبے میں اب تک کی جانے والی پیش رفتوں کو سراہا اور کہا کہ آنے والے دنوں اور برسوں میں دفاعی پیداواری صلاحیت کو مزید وسعت دی جائے گی۔۔۔پھر آج ہی شام ایک صاحب کا فون آیا۔اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہنے لگے : ’’ میں حال ہی میں ریٹائر ہوا ہوں۔ یونیورسٹی میں فارسی ادبیات کا پروفیسر تھا۔ آپ کا قاری ہوں۔ مجھے معلوم ہے آپ فارسی شعر و ادب سے بھی ناآشنا نہیں۔ لیکن یہ بتایئے کہ پرویز خٹک جیسے مرنجاں مرنج اور جسمانی طور پر ’انتہائی لاغر‘ شخص کو ملک کا وزیرِ دفاع بنا کر پی ٹی آئی نے کیا قوم سے زیادتی نہیں کی؟۔۔۔ اول تو خٹک صاحب کو دفاع کی الف بے کا پتہ نہیں ہوگا اور دوسرے ان کا سراپا دیکھ کر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہماری مسلح افواج کی جنگی مشقوں کی انسپکشن وغیرہ بھی کر سکیں گے یا نہیں۔ وہ تو جسمانی اعتبار سے مریض نظر آتے ہیں۔ صرف ہڈیاں ہی ہڈیاں ہیں، گوشت پوست تو شاید برسوں پہلے اتر چکا ہے۔۔۔ اور دوسرے عمران خان نے زبیدہ جلال کو دفاعی پیداوار کی وزیر کا منصب سونپ دیا ہے۔ وہ دفاعی کارخانوں اور فیکٹریوں کی وزٹ کریں گی تو کیا ان کا میک اپ خراب نہیں ہوگا؟۔۔۔ کرنل صاحب! یہ دونوں ’مردانہ وزارتیں‘ ہیں، تحریکِ انصاف نے ایک کو صنفِ لاغر اور دوسری کو صنفِ نازک کے حوالے کر دیا ہے تاکہ فوجی جرنیلوں کو خوش کیا جا سکے۔ فوج یہی تو چاہتی ہے کہ اس کے معاملات میں سویلین مداخلت کم سے کم ہو۔۔۔ کیا خیال ہے آپ کا؟۔۔۔ ذرا شمشیروسناں کے حوالے سے میرے سوالوں کا جواب دیں!‘‘
میں نے از راہِ مذاق ان سے پوچھا حالیہ الیکشنوں میں کس کو ووٹ دیا تھا؟ کہنے لگے جماعت اسلامی کو۔ میں نے پوچھا کہ دور نبویؐ میں حضرت علیؓ اور جنرل خالد بن ولیدؓ کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟ کہنے لگے کہ :’’ان کی جرات اور شجاعت کا مثیل تو آج تک دنیائے اسلام پیدا نہیں کر سکی۔ حضرت علیؓ تو تن تنہا سینکڑوں کافروں کے درمیان کود جایا کرتے تھے اور کشتوں کے پشتے لگا دیا کرتے تھے اور حضرت خالد بن ولیدؓ تو مغرب کی ملٹری ہسٹری میں بھی ایک لیجنڈ (Legend) کی حیثیت رکھتے ہیں‘‘۔ میں نے یہ سن کر کہا: ’’آپ کا شکریہ کہ آپ نے میری عسکری معلومات میں اضافہ کیا۔ لیکن یہ بتایئے کہ یہ دونوں مردانِ کارزار، قدوقامت میں کیسے تھے، قد کتنا بلند تھا اور جسم کس وزن کا تھا؟۔۔۔ یہ سن کر چپ سے ہوگئے تو میں نے پوچھا:’’ نپولین بونا پارٹ کا نام بھی کبھی سنا ہے آپ نے؟۔۔۔کیا آپ کومعلوم ہے کہ اس کا قد کاٹھ کیا تھا؟۔۔۔ اور ویت نام کی جنگ میں جنرل گیاپ کا سراپا کیسا تھا۔۔۔ اور دوسری جنگ عظیم میں مشہور ترین برطانوی جنرل، فیلڈ مارشل منٹگمری کے قد اور جسم پر بھی کبھی غور کیا ہے آپ نے؟۔۔۔ اس کے چہرے کی جھریاں صاف صاف دیکھی اور بآسانی گنی جا سکتی تھیں۔۔۔۔ اس کا حد درجہ منحنی جسم دیکھ کر کیا کبھی آپ کو خیال آیا کہ اس نے جرمنی کے مشہور جرنیل، فیلڈ مارشل رومیل کو العالمین کی جنگ میں شکستِ فاش دے دی تھی؟‘‘
کہنے لگے :’’میں نے ان لوگوں کے نام تو سنے ہیں، تصویریں بھی دیکھی ہیں لیکن ان کی جنگی مہموں کی تفصیل نہیں پڑھی۔‘‘۔۔۔ میں نے ان کو بتایا:’’ فیلڈ مارشل منٹگمری کو بھی چرچل نے مصر میں فیلڈ مارشل آکنلک کی جگہ 8ویں فوج کا کمانڈر بناکر بھیجا تھا اور فیلڈ مارشل رومیل کو اوڈلف ہٹلر نے شمالی افریقہ میں جرمن افواج کی کمانڈ دی تھی۔ کیا آپ کومعلوم ہے کہ ہٹلر کا اپنا قد کتنا تھا؟۔۔۔ اور کیا یہ بھی معلوم ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں ہٹلر محض ایک لانس کارپورل تھا؟۔۔۔ پروفیسر صاحب!میں یہ معلومات آپ کے سامنے اس لئے رکھ رہا ہوں کہ جنگی صلاحیتوں کے لئے قدوقامت کوئی پیمانہ نہیں۔ اور جہاں تک وزیر دفاع کا تعلق ہے تو ماڈرن جمہوری ادوار میں ضروری نہیں کہ وزیرِ دفاع وردی پوش رہا ہو یا گاما پہلوان کی طرح قوی البحثہ بھی ہو۔ اس نے میدانِ جنگ میں کسی فارمیشن کی کمانڈ نہیں کرنی ہوتی۔ اس کی ساری قوت، جرات، عقل و دانش چھوٹے سے دماغ (Brain) میں ہوتی ہے، موٹے سے جسم (Brawn) میں نہیں۔ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ پرویز خٹک نے حدیثِ دفاع کا کوئی مطالعہ نہیں کیا اور نہ ہی کبھی جنگ و جدل کی ہسٹری پڑھی ہے اور نہ ہی ان کو پاک بھارت جنگوں کا کوئی علم ہے اور نہ ہی ان کو گزشتہ پانچ برسوں میں خیبرپختونخوا میں وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز رہنے کے دوران کسی فوجی معاملے کی سُن گُن ملی ہے۔‘‘۔۔۔
’’اور آپ نے زبیدہ جلال صاحبہ کا پوچھا ہے تو کیا آپ کوخبر ہے کہ یورپی ممالک میں وزارتِ دفاع کا عہدہ زیادہ تر خواتین کے پاس ہے؟۔۔۔ پاکستان کا سب سے بڑا حریف بھارت ہے اور اس کی فوج، امریکہ، روس اور چین کے بعد دنیا کی چوتھی بڑی فوج ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ انڈیا کی وزیرِ دفاع ایک خاتون ہے جس کا نام نرملا سیتا رامن ہے؟۔۔۔‘‘
میں بولتا جارہا تھا اور بیچ بیچ میں رک رک کر یہ پوچھ بھی لیتا تھا کہ :’’کیا آپ سن رہے ہیں؟‘‘۔۔۔ وہ ہاں میں جواب دیتے تو میں آگے چل پڑتا اور کہتا: ’’امریکن آرمی میں تو عورتیں باقاعدہ وردی پہن کر اور سپیشل فورسز کی ٹریننگ کے مراحل طے کرکے جنرل رینک تک پہنچ گئی ہیں۔ آپ کا تعلق اسلامی جماعت سے ہے۔ اسلام کی جنگی تاریخ کا مطالعہ تو آپ نے کیا ہو گا۔مسلمان خواتین باقاعدہ جنگوں میں شریک ہوتی تھیں اور وہی کام کرتی تھیں جو آج دنیا کی میڈیکل کوروں میں باوردی خواتین کررہی ہیں۔ زبیدہ جلال نے کسی ٹینک فیکٹری، ٹیکسلا یا واہ فیکٹری یا کسی شپ یارڈ میں جاکرٹینک نہیں چلانے، توپیس نہیں ڈھالنیں اور آبدوزیں نہیں بنانیں۔ ان کاموں کے لئے مسلح افواج میں بہت سے ماہرین موجود ہیں۔ میں یہاںآپ کو وزارتِ دفاعی پیداوار کے اغراض و مقاصد، اس کی تنظیم (آرگنائزیشن)، چھوٹے بڑے دفاعی ہتھیاروں کے پیداواری مسائل اور دوسرے ممالک سے آنے والے دفاعی پیداوار کے وفود سے ملاقاتوں کا ذکر نہیں کروں گا کہ یہ ایک وسیع مضمون ہے۔
جی ایچ کیو میں بارہ برس تک ملازمت کے دوران مجھے بارہا ان دونوں وزارتوں (دفاع اوردفاعی پیداوار) میں جانے کا اتفاق ہوا۔ فوج ایک ایسی ہمہ گیر تنظیم ہے کہ اس میں کسی بھی آفیسر کو خواہ اس کا تعلق کسی بھی آرم/سروس سے ہو اس کو دوسری کوروں اور شعبوں کی کارکردگی کا عمومی مطالعہ کرنے اور جائزہ لینے کے مواقع ملتے رہتے ہیں۔ میں اپنی سروس کے ماضی پر نگاہ ڈالتا ہوں تو کئی یادیں اور باتیں ذہن کے افق پر پھیل جاتی ہیں جو میرے شعبے سے متعلق نہیں تھیں۔۔۔۔ آپ کسی بھی دفتر میں کام کرتے ہوں، یہ ممکن نہیں ہوتا کہ صرف اپنی میز کرسی اور الماری تک ہی محدود ہو کر رہ جائیں۔ دوسروں کی میزوں اور کرسیوں تک رسائی اور ان کے طول و عرض دیکھنے اور ان پر براجمان کئی سینئر اور جونیئر افسروں کی پروفیشنل معلومات جاننے اور سننے کے بے شمار مواقع ملتے ہیں۔ یہ آپ کے ذوقِ تجسس پر منحصر ہے کہ آپ اپنے شعبے کے علاوہ اور کن کن شعبوں کا شعور پانے میں کوشاں ہوتے ہیں۔ مجھے اپنی سروس کے تین عشروں میں پاکستان کے تمام صوبوں اورحصوں کو دیکھنے کے مواقع ملے اور میں ہمیشہ اپنے اردگرد کے ماحول کا مطالعہ کرنے کے اشتیاق میں گرفتار رہا۔ میں اپنے قارئین سے بھی یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ بھی اپنے خول میں بند ہو کر نہ بیٹھ جائیں۔ یہ نہ سوچیں کہ پرویز خٹک کا لاغر جسم، وزارت دفاع کا وزیر بننے کی اہلیت نہیں رکھتا اور نہ ہی یہ خیال کریں کہ زبیدہ جلال کی نسوانیت وزارتِ دفاعی پیداوار کے نشیب و فراز سمجھنے کی اہل نہیں ہوگی!۔۔۔ ماضی اور حال کی ملٹری ہسٹری کا مطالعہ کریں کہ ماڈرن جمہوری سیٹ اپ میں تو مردانہ اور زنانہ وزارتوں کی تقسیم کا کوئی تصور ہی موجود نہیں۔‘‘