فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر506

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر506
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر506

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مارلن مونرو کی اداکاری کا مخصوص انداز تھا۔اس کی ہنسی اور مسکراہٹ دیکھنے والوں کے دلوں میں گدگدی پیدا کر دیتی تھیں۔سپر اسٹار بننے کے بعدوہ بے حد موڈی ہوگئی تھی۔دراصل وہ ذہنی سکون اور سچی محبت کی متلاشی تھی۔شہرت و دولت میں اسے زیادہ دلچسپی نہیں رہی تھا۔اس کی زندگی میں بے شمار لوگ آئے تھے جنہوں نے اسے شادی کے جھانسے بھی دیے تھے۔ان ہی میں جم کینیڈی اور ان کے چھوٹے بھائی رابرٹ کینیڈی بھی شامل تھے ۔دونوں نے اسے محبت کے نام پر فریب دیے تھے۔مارلن مونرو کی موت یا خودکشی کے پیچھے ان دونوں ناکام محبتوں کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی خودکشی یا قتل کے پس پردہ بھی ان دونوں ہی کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر505پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ کوئی قیاس آرائی نہیں۔اس بارے میں امریکا میں بہت سی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ان دونوں بھائیوں کا انجام بھی قاتلانہ حملوں کے ذریعے موت کی صورت میں سامنے آیا۔امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں آج تک ان دونوں کے قتل کا معما حل نہیں کیا جا سکاہے۔جس طرح مارلن مونرو کی موت ابھی تک ایک معما ہی ہے۔بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ مکافات عمل یا قدرت کا انتقام ہے۔بہر حال۔یہ ایک علیحدہ داستان ہے جو پہلے بھی تفصیل سے بیان کی جا چکی ہے۔اپنے نا آسودہ جذبات اور محرومیوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے مارلن مونرو نے اور بھی کئی لوگوں سے محبت کی اور ہر بار دھوکے کھائے ۔یہاں تک کہ اس نے ایک کم شکل کی مگر کامیابی نہ ملی۔سوچنے کی بات ہے کہ کہاں مارلن مونرو۔۔۔ایک سیکس سمبل اور کہاں ہنری ملر جیسا صاحب علم و فکر ڈراما نویس مگر دونوں نے ایک دوسرے میں اپنے دکھوں اور غموں کا مداوا تلاش کرنے کی کوشش کی مگر مارلن مونرو کو یہاں بھی سکون نہ سکا۔بالآخر وہ عورت جسے یونانی دیویوں سے مشابہت دی جاتی تھی اور جس کے چہرے کو ہیلن آف ٹرائے کے چہرے کا متبادل قرار دیا جاتا تھا۔دولت ٗ شہرت اور کامیابیوں کی معراج تک رسائی حاصل کرنے کے باوجود مایوس و محروم اور تہی دست ہی رہی یہاں تک کہ ایک المناک فلمی کہانی کے کردار کی طرح پر اسرار اور المناک انجام سے دو چار ہو گئی۔
آپ کو یہ جان کر حیرت نہیں ہوئی کہ مارلن مونرو کو کبھی آسکر ایوارڈ کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ذہنی سکون اور تسکین قلب کی طرح وہ عمر بھر آسکر ایوارڈ سے بھی محروم ہی رہی۔اب ذرا مارلن مونرو کی فلمی کامیابیوں کا جائزہ کیجئے۔
مارلن مونرو کی فلمیں دیکھنے والے بڑے بڑے نقادوں کا کہنا ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے مارلن مونرو اور فلمی کیمراایک دوسرے کیلئے ہی بنائے گئے تھے۔اس نے اپنی پیش رو انتہائی مقبول اور حسین اداکاراؤں کی جگہ پُر کر دی تھی بلکہ ان سے آگے نکل گئی تھی۔
دراصل یہ وہ اداکارائیں ہیں جنہیں ہالی وڈ کی تاریخ میں انمول اور نا قابل فراموش قرار دیا جاتا ہے۔اپنے وقت کی گلیمر کوئین جین ہارلو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مجسمہ تھی مگر اسے اداکارہ کہنا سب سے بڑا مذاق ہے۔اسے اداکاری کی الف ب تک نہیں آتی تھی۔اس کے برعکس مارلن مونرو نے کئی فلموں میں اپنی اداکاری سے دیکھنے والوں کو متاثر بلکہ مسحور کر دیا تھا۔جسمانی حسن و جمال اپنی جگہ لیکن ڈائمنڈز آر گرلز ٗ بیسٹ فرینڈ ٗ بس اسٹاپ ٗ سیون ائر اچ ٗ سم لائیک اٹ ہاٹ ٗ دیٹ اولڈ بلیک میجک ٗ جنٹلمین پریفرز بلونڈز ٗ آئی ایم تھرو ود لو)میں محبت سے بھر پائی(جیسی فلمیں اس کی اداکارانہ صلاحیتوں کا شاہکار ہیں۔اس قدر بے بہا حسن اور ایسی بے پایاں اداکاری اور صلاحیتوں کے باوجود مارلن مونرو کو کبھی آسکر کے لائق نہیں سمجھا گیا حالانکہ آسکر حاصل کرنا ہالی وڈ کی ہر فنکارہ کا خواب ہوتا ہے۔وہ تمام تقریبات میں شریک ہوتی رہی مگر صرف ایک تماشائی کی حیثیت سے۔ہاں صرف ایک بار اس کو اسٹیج پر آنے کی زحمت دی گئی تھی۔
جب1951ء میں اس مشہور زمانہ اداکارہ نے اسٹیج پر آکر بہترین ساؤنڈ ریکارڈنگ کا ایوارڈ پیش کیا تھا۔اس کے جذبات و احساسات اور محرومیوں کا اندازہ لگانا مشکا نہیں ہے۔یہ پہلے ہی طے ہوچکا ہے تھا کہ وہ یہ ایوارڈ پیش کرے گی۔اسٹیج پر جانے سے پہلے و ہ باقاعدہ پھوٹ پھوٹ کر روئی۔شاید اپنی محرومی پر اور قدرت اور فلمی صنعت کی ستم ظریفی پر۔ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہالی وڈ کے فنکار اور تخلیق کار اکیڈمی کو سالانہ چندہ دیا کرتے ہیں مگر مارلن مونرو اپنی بے روائی کے باعث کئی بار چندہ ادا نہیں کرپائی تھی۔بہت ممکن ہے کہ اس کی یہ کوتاہی اکیڈمی کے ارکان کو ناگوار گزری ہو لیکن یہ کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ اکیڈمی کے ارکان جو فلمیں دیکھ کر بہترین افراد کو نامزد کرتے ہیں شاید اس انتظار میں ہوں کہ مارلن مونرو کوکسی فلم میں اور بھی زیادہ اچھی اداکاری کا مظاہرہ کرنے کیلئے ابھی کافی وقت تھا۔دنیا سے رخصت ہوتے وقت اس کی عمر صرف36سال تھی جو ہالی وڈ میں بھر پور جوانی کی عمر تصور کی جاتی ہے۔
مارلن مونرو کو دوسرے غم کیا کم تھے کہ ایک آسکر نہ ملنے کی محرومی بھی ان میں شامل ہو گئی تھی۔اپنی محرومیوں اور مایوسیوں کا غصہ اور جھنجلاہٹ وہ دوسروں پر اتارا کرتی تھی۔فلم سازوں کے ساتھ اس کا رویہ انتہائی بے پروائی کا تھا۔ہالی وڈ میں جہاں وقت کی پا بندی لازمی سمجھی جاتی ہے وہ ہمیشہ تاخیر سے شوٹنگ کیلئے سیٹ پر جاتی تھی۔اس نے جس آخری فلم میں ہالی وڈ کے کنگ’’کلارک گیبل‘‘ کے ساتھ کام کیا وہ بذات خود اپنے وقت کا سپر اسٹار تھا اور ساری فلمی صنعت اس کا احترام اور لحاظ کرتی تھی۔اس کو فلمی صنعت میں’’کنگ‘‘ کہا جاتا تھا۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے ساتھ شوٹنگ کیلئے بھی مارلن مونرو گھنٹوں تاخیر سے سیٹ پر پہنچتی تھی۔وہ اس اثنا میں کھولتا اور جلتا رہتا تھا۔کچھ عرصے بعد ہی اس کا ہارٹ فیل ہوگیا ۔اس کی بیوی نے کہا تھا کہ اس کی موت کی ذمے دار مارلن مونرو ہے جس کی وجہ سے وہ فلم کی تیاری کے دوران میں شدید اعصابی تناؤ میں مبتلا رہتا تھا۔در اصل یہ بھی مارلن مونرو کے احتجاج اور دنیا سے انتقام لینے کا ایک طریقہ تھا۔مارلن مونرو جب دنیا سے گئی تو بالکل خالی ہاتھ تھی۔یہاں تک کہ آسکر ایوارڈ سے بھی محروم تھی۔
(جاری ہے)