اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 26
علم کیمیا اور علم ہیت میں ان لوگوں کا پلہ اپنی ہم عصر بابلی اور مصری تہذیب سے بھاری تھا مگر اس شہر کو اس طرح تباہ و برباد کیا گیا کہ اس کا سارا علم ، ساری مہارت اور فنون پیوند زمین ہو کر رہ گئے پھر کوئی اس تہذیب کا نام لینے والا بھی نہ رہا۔ یہاں دولت کی ریل پیل تھی۔ دولت کی اس فراوانی کو دیکھ کر شمالی آریاؤں کے منہ میں پانی بھر آتا تھا۔ کیوں کہ وہ ابھی ترکمانستان اور تاجکستان کے علاقوں میں کھیتی باڑی کرتے اور خیموں میں زندگی گزارتے تھے۔ موہنجودڑو کی ترقی اور دولت کی فراوانی نے ان سے بہادری اور دلیری کی صفت چھین لی تھی۔ جب کہ شمالی آریا ابھی تک تلوار کے دھنی تھے اور خونخواری ان کا سب سے بڑا وصف تھا۔
میں موہنجودڑو کے شاہی محل والے قلعے کے دروازے سے کچھ دور سڑک پر حیران و پریشان کھڑا شہر کے دروازے پر بھڑکتی آگ کو دیکھ رہا تھا۔ موہنجودڑو کے لوگ شمالی آریاؤں کو گاتھارا کہا کرتے تھے۔ لوگ گاتھارا آگئے گاتھارا آگئے پکارتے ہوئے بھاگے جا رہے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ شمالی آریا قبیلوں نے حملہ کر دیا ہے لیکن میرے دل میں بادشاہ سے اپنی محبوبہ روکاش کے قتل کا بدلہ لینے کی آگ آریا سپاہیوں کی لگائی ہوئی آگ سے زیادہ تندی اور سرکشی سے بھڑک رہی تھی۔ میں قلعے کی طرف چلنے لگا قلعے کی فصیل پر کھولتے ہوئے تیل کے بڑے بڑے کڑاؤ لا کر رکھ دیئے گئے تھے۔ اگرچہ میں سپیرے کے بھیس میں تھا مگر شہر کے لوگ میری شکل و صورت سے شناسا تھے اور میں پہچانا جاؤں گا تو کیا ہوگا اور دوسرے لوگوں کو اپنی پڑی ہوگئی تھی۔ کسی کو میرے طرف غور سے دیکھنے کی فرصت نہیں تھی۔ لوگ شہر کے گنجان علاقے کی طرف بھاگ رہے تھے۔ جس طرف میں جا رہا تھا ادھر کوئی نہیں آ رہا تھا۔ میں قلعے کے قریب جا کر ایک ڈھلان میں درختوں کے نیچے کھڑا ہوگیا۔ اور شاہی محل تک پہنچنے کی ترکیب سوچنے لگا۔اتنے میں سپاہیوں کا ایک دستہ گھوڑوں پر سوار قلعے کی طرف برق رفتاری سے آتا دکھائی دیا۔
میرے دماغ میں ایک ترکیب آئی مگر اس کے لئے ایک اتفاقی حادثے کی ضرورت تھی۔ جس کی مجھے بہت کم امید تھی لیکن میری یہ امید اس طرح بر آئی کہ میں نے دیکھا کہ ایک سپاہی ان گھڑ سواروں سے کافی پیچھے پیچھے آرہا تھا۔ میں ڈھلان سے ذرا اوپر آکر تاک میں بیٹھ گیا۔ میں اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ تھا کہ نہ تو مجھے کوئی چوٹ لگے گی اور نہ میں کسی سے ہاک ہو سکوں گا۔ گھڑسواروں کا دستہ تیزی سے گھوڑے دوڑاتا گزر گیا۔ میں اندھیرے میں تھا۔ جب پیچھے رہ جانے والا سپاہی میرے قریب سے گذرنے لگا تو میں نے اچھل کر اس کی ایک ٹانگ کو پکڑ کر نیچے گرا لیا۔ اس نے تلوار نکال کر حملہ کرنا چاہا مگر میرے ایک ہی طاقتور مکے نے اس کی گردن کو توڑ ڈالا۔ میں نے انتہائی تیزی سے اپنے لباس پر ہی سپاہی کا زرہ بکتر پہنا۔ گھوڑے پر سوار ہوا اور اسے دوڑاتا قلعے کے اندر داخل ہوگیا۔ بادشاہ سومرکا شاہی محل اس قلعے کے اندر تھا اور میں اس محل تک جانے کے سارے ظاہر اور پوشیدہ راستوں سے واقف تھا۔ قلعے میں بھی افراتفری کا عالم تھا۔ شاہی محل کی اکثر روشنیاں گل تھیں۔ میں گھوڑا دوڑاتا شاہی محل کی عقبی دیوار کی طرف آگیا۔ چونکہ میں ایک سپاہی وردی میں تھا اس لئے کسی نے مجھے نہ روکا۔ یہاں محل کے اندر جانے کا ایک خفیہ راستہ تھا۔ اس جگہ ایک حبشی غلام پہرہ دے رہا تھا۔ میں گھوڑے سے اتر کر اس کے پاس گیا تو اس نے مجھے اندر جانے سے روکا اور میرے اصرار کرنے پر تلوار سونت کر حملہ کر دیا۔ اس کی تلوار کا بھرپور وار میرے بازو پر لگا مگر میرا جسم تو پتھربن چکا تھا۔ اس کی تلوار ٹوٹ گئی۔ میں نے اسے قتل نہیں کیا اور ایک ہاتھ سے پیچھے دھکیل کر محل کو جانے والے خفیہ راستے کی سیڑھیاں چڑھ کر محل کے دوسرے تختے پر آ گیا۔
محل پر ایک سناٹا چھایا ہوا تھا۔ میں تیز تیز قدموں سے چلتا راہ داریوں ، نیم روشن برآمدوں اور شہ نشینوں سے گزرتا اس برج کی طرف بڑھا جس میں سے بادشاہ سومر کی خواب گاہ کو راستہ جاتا تھا۔ یہاں دو حبشی غلام ننگی تلواریں لئے پہرہ دے رہے تھے مگر مجھ پر دیوانگی سوار تھی اور ویسے بھی وہ میرا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ میں مر نہیں سکتا تھا۔ میں نے انہیں تہ تیغ کیا اور برج کی سیڑھیاں طے کر کے بادشاہ کی خواب گاہ کے سامنے پہنچ گیا ۔ صندل کے اونچے دروازے کے آگے سونے کا فوری فانوس روشن تھا۔ بادشاہ کی خواب گاہ میں سے آدمیوں کی باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ پھر قدموں کی چاپ بند دروازے کی طرف بڑھتی سنائی دی۔ میں جلدی سے ستون کے عقب میں ہوگیا۔ دروازہ کھلا اور فوج کے جرنیل تیز تیز باتیں کرنے باہر نکلے اور دوسری طرف چلے گئے۔ ان کے جاتے ہی میں ستون سے نکل کر شاہی خواب گاہ میں داخل ہوگیا۔ بادشاہ سومر ایک اونچی تپائی پر جھکا شمع کی روشنی میں چمڑی کی کوئی دستاویز کھولے ہوئے تھا ۔میرے قدموں کی آواز سن کر اس نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ وہ مجھے سپاہی سمجھا اور گرج دار آواز میں بولا۔
’’ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ تمہارا پہرہ کہاں پر ہے؟‘‘
میں ایک ایک قدم اٹھاتا اس کے قریب آگیا اور اپنے سر سے لوہے کا خود اتار کو بولا۔
’’ بادشاہ سومر ! کیا تم نے مجھے نہیں پہچانا؟‘‘
اب جو اس نے غور سے دیکھا تو دہشت زدہ ہو کر پیچھے ہٹا اور اس کا چہرہ زرد پڑگیا اور بولا۔ ’’ عاطون!‘‘
’’ ہاں عاطون! تمہارے شاہی مندر کا کاہن اعظم جو تمہارا دیا ہوا زہر ہلا ہل پی کر زمین کے اندر دفن کر دیا گیاتھا اور جس کی محوبہ روکاش کا سرکاٹ کر تم نے شہر کے چوراہے میں لٹکا دیا تھا۔ ‘‘
بادشاہ سومر! ابھی تک یہی سمجھتا رہا تھا کہ میں عاطون کا بھوت ہوں۔ اس کی بدروح ہوں۔ اس کے حلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں اسے کیا کہہ رہا ہوں۔ وہ مجھے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتا جا رہا تھا کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں اسے کیا کہہ رہا ہوں۔ وہ مجھے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتا جا رہا تھا اور ایک ایک قدم پیچھے ہٹ رہا تھا۔ پھر اس سے پہلے کہ اس کے منہ سے چیخ نکلے میں نے اس کی گردن کا دبوچ کر کمخواب و اطلس کے شاہی بستر پر گرادیا۔ مجھ پر روکاش کی محبت کا جنون سوار تھا۔ میرے اندر جس قدر طاقت بھر دی گئی تھی اس حساب سے بادشاہ کی گردن کو تھوڑا سا دبانا ہی کافی تھا مگر میں پوری طاقت سے اس کی گردن کو دبا رہا تھا اور بادشاہ کب کا مرچکا تھا۔ مگر میں روکاش کے قتل کا انتقام لیتے ہوئے ابھی تک اس کی گردن کو دبائے جا رہا تھا۔
جب میرے انتقام کی آگ کو ڈھلک گئی تھی۔ جب میں محل سے باہر نکلا تو دیکھا کہ حملہ آور آریاؤں کی سپاہ کے جلتے ہوئے تیر قلعے کی فصیل سے اوپر ہو کر اندر کر رہے تھے جس کا مطلب صاف تھا کہ دشمن کی فوجیں شہر کی فصیل کو توڑ کر شہر میں داخل ہو چکی ہیں۔ میں قلعے کے دروازے کی طرف جانے کی بجائے محل کے عقبی تختے کی طرف آگیا۔ میں شاہی محل اور قلعے کے تقریباً تمام راستوں سے واقف تھا۔ ایک راستہ محل کے عقب میں بارہ دری کے پہلو سے نکلا تھا جو زمین دوز سرنگ میں سے ہوتا ہوا شہر کے مغرب کے جانب نکل آتا تھا۔ میرے لئے اب اس شہر میں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی تھی۔ اس شہر نے میرے دل پر گھاؤ ہی لگائے تھے۔ میں اسے ہمیشہ کے لئے چھوڑ دینا چاہتا تھا۔ میں نے اس شہر کے ایک سپاہی کا لباس پہن رکھا تھا جو مجھے پسند نہیں تھا۔ میں نے جوتا اپنے پاؤں میں رہنے دیا اور سپاہی کی وردی اتار کر باغ میں پھینک دی۔ نیچے سے میرا وہی سپیرے والا لباس نکل آیا۔ میں بارہ دری کے پہلو مین سنگ سرخ کے تنگ سے دروازے میں داخل ہو کر سرنگ میں سے گزرتا شہر ے فصیل سے کافی فاصلے پر خندق کے آگے ایک جگہ جنگلی جھاڑیوں میں نکل آیا۔ میں نے مڑکر شہر پر نگاہ ڈالی۔ شہر میں جگہ جگہ آگ لگی ہوئی تھی اور چیخ و پکار کی صدائیں آرہی تھیں۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)