کپتان کااصل کام

کپتان کااصل کام
کپتان کااصل کام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارے کپتان سے بھی وہی غلطی ہوئی ہے جو ان سے پہلے سیاسی کھلاڑی کرتے رہے ہیں ۔غیر منطقی دعوے اور جذبانی نعرے، جن کا حاصل محض وقتی واہ واہ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔2008ء میں خادم اعلیٰ نے پنجاب پر حکمرانی کے روز اوّل ہی باغ جناح کے بلمقابل جی آوآر میں اپنے پیش رو وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کے دور میں تعمیر کردہ وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ کو خواتین کی آٹی یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا تھا جو اگلے دس سال تک بھی نعرہ ہی بنا رہا ۔ایسا نعرے کپتان بھی لگا رہے ہیں ۔ کپتان نے وزیراعظم ہاؤس کی بجائے ملٹری سیکرٹری کی رہائش گاہ میں قیام پذیرہونے کا اعلان کیا اورخود کو تنقید کا ہدف بنا لیا، اب اس حوالے سے روز نئی بات سامنے آرہی ہے۔ ان کے نا قدین بھی کیا کیا باتیں بنا رہے ہیں۔یو اے ای میں مقیم ایک پاکستانی کی رائے ہے کہ عمران خان وزیراعظم ہاؤس میں صرف اس وجہ سے قیام پذیر نہیں ہورہے کیونکہ یہ گھر نواز شریف کے زیر استعمال میں رہا ہے۔وہ عمران خان کے اس فیصلے کو انا کا شاخسانہ قرار دینے پر بضد ہیں اور میں اس کو کپتان کی سادگی پر محمول کرتاہوں۔بنی گالہ سے بذریعہ ہیلی کاپٹر آنے جانے کے اخراجات پر بھی بہت لے دے ہورہی ہے۔
عمران خان کو ان نمائشی باتوں کی بجائے سنجیدگی سے کچھ ایسا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے جو کہ ایک وزیراعظم پاکستان کے شایان شان بھی ہو اوران تمام وعدوں کی تکمیل تک جلد پہنچنے میں معاون بھی ہو۔ وزیر اعظم ہاؤس کوئی بہت پُر تعیش عمارت نہیں ہے۔ جنہیں اس عمارت میں جانے کا اتفاق ہوا ہے وہ جانتے ہیں کہ وزیراعظم کی رہائش گاہ ایک اوسط درجے کی عمارت پر مبنی ہے بلکہ اس کے ساتھ سٹاف کے دفاتر کی عمارت بھی اتنی پُر شکوہ نہیں ہے۔ میری رائے میں عمران خان کو وزیر اعظم ہاؤس میں منتقل ہوجانا چاہیے۔اس سے انہیں اور ناقدین دونوں کو اپنے اپنے اصل ٹارگٹ پر یکسوئی نصیب ہوجائے گی۔ وزیراعظم کی سیکورٹی ،پروٹوکول اور ہیلی کاپٹر کے فی کلو میٹر ’’اخراجات‘‘ کے جھنجٹ سے بھی نجات مل جائے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس سے شاہ دستور پر واقع وزیراعظم سیکریٹریٹ کا فاصلہ بھی اتنا زیادہ نہیں لہٰذا کپتان صاحب گھر سے دفتر واک کرتے ہوئے پہنچ جایا کریں گے۔عمران خان کی ذاتی فتوحات اور کارہائے نمایاں کے سوا انہیں دو معاشرتی منصوبوں کے قیام ،انتظام اور انصرام کا تجربہ حاصل ہے۔ ان میں ایک کینسر ہسپتال ہے اور دوسرا نمل یونیورسٹی ۔۔۔گو یار لوگ ان اداروں کی کامیابیاں بھی محترک اور باصلاحیت کارکنان کی مرہون منت قرار دیتے ہیں لیکن موزوں ٹیم کا انتخاب اور انہیں پر فارمنس دیکھانے کی آزادی دینے اور میرٹ کی پاسداری رکھنے کا کریڈٹ بحرکیف عمران خان کو ہی جاتاہے۔
عمران خان کی تقریر اور دعوے اپنی جگہ۔ لیکن کاروبار مملکت چلانے کے لیے ان کی ترجیہات اور رحجانات کی صورت ابھی واضح نہیں ہو سکی ۔بحر کیف اگر وہ چاہیں تو پاکستانی عوام کے دو اہم درینہ مسائل کے حل کے لیے اقدامات کر سکتے ہیں۔پہلی تعلیم اور دوسری صحت کے مواقع ہیں۔حسن اتفاق سے ان دونوں شعبوں میں وہ وسیع تجربہ رکھتے اور بہتر ٹیم تشکیل دے کر جیتنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ اگر پاکستان میں تعلیم اور صحت کے شعبے ہی بدل جاتے ہیں تو یہ نئے پاکستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں ۔یہی کپتان کا بھی خواب ہے ۔کرپشن پر اگرچہ انہوں نے بڑی جنگ لڑی ہے لیکن قوم کو جہالت اور بیماری سے نکال کر پاکستان کی خدمت زیادہ بہتر انداز میں کی جاسکتی ہے اور دیکھا جائے تو کپتان بائیس برسوں سے جو نعرہ لگا رہے ہیں وہ عام آدمی کی حالت بدلنے پر مبنی ہے جو تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بڑی اور پائیدار تبدیلی سے ہی شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -