قائداعظمؒ کے اقتصادی تصورات اور پاکستان

قائداعظمؒ کے اقتصادی تصورات اور پاکستان
قائداعظمؒ کے اقتصادی تصورات اور پاکستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کی خصوصی نشست میں جناب قیوم نظامی اور جناب جاوید نواز نے ”قائداعظمؒ کے اقتصادی تصورات اور پاکستان“ کے موضوع پراظہارِ خیال کیا۔ موضوع اس لحاظ سے اہم تھا کہ مضبوط سوچ رکھنے والے دانشوروں کے اکثریتی گروہ کے نزدیک، شدیداقتصادی عدم مساوات اور اجارہ دار طبقات کے چنگل سے پسے ہوئے طبقات کی نجات پاکستان کااہم ترین اور بنیادی مسئلہ ہے۔ سرمایہ دار اور اجارہ دار طبقوں کے لئے اپنے وسائل وا قتدار کے بل بوتے پر اس مسئلے سے توجہ اِدھر اُدھر کئے رکھنا مشکل نہیں، لیکن جب بھی ہم اپنے زمینی حقائق پر توجہ مرکوزکرتے اور مسائل کی جڑ تک پہنچتے ہیں تو وطن بہت گہر ی اور دور دور تک پہنچی ہوئی ہر طرح کے مسائل کی یہی جڑیں نظر آتی ہیں۔ جناب قیوم نظامی نے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ معاشی مسئلہ پاکستان کے آغاز ہی سے بہت اہم رہا ہے، بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کو انگریز اور ہندو نے جس طرح معاشی پسماندگی کے گہرے غار میں پھینک دیا تھا ان دگرگوں معاشی حالات نے بھی مسلمانوں میں اپنے ایک الگ قوم ہونے کے تصور کو اجاگر کیا۔ آزادی سے قبل برطانوی حکومت نے ڈی ہنٹر نامی ایک انگریز کو یہ تحقیق کرنے کی ذمہ داری سونپی کہ وہ معلوم کرے کہ وہ کون سے عوامل ہوسکتے ہیں، جن کی وجہ سے انڈیا کے مسلمان بغاوت پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔

اس سکالر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ مسلمان اقتصادی محرومی کا شکار ہیں اگر ان میں اپنی اس حالت کا احساس بڑھ گیا تو وہ بغاوت پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔علامہ اقبال ؒ نے بھی واضح طور پر کہا کہ ہم اس لئے علیحدہ ملک لینا چاہتے ہیں کہ اس میں ہر شہری کو مساوی مواقع میسر آسکیں۔ قائداعظمؒ نے پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بھی اقتصادی معاملات میں بہت دلچسپی لی۔ انہوں نے بنک بنوائے، ائیر لائنز کی بنیاد رکھی، مسلم لیگ کی اکنامک پلاننگ کمیٹی بنائی جو انہیں ہر ماہ اپنی رپورٹ پیش کرتی تھی۔قائداعظمؒ خود غرض اور انگریز کے پروردہ جاگیرداروں کو ناپسند کرتے تھے۔ انہوں نے ایک موقع پر کہا:”میں جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کو انتباہ کرنا چاہتا ہوں،جو ہمارا خون چوس کر ایسے نظام کے تحت پلے بڑھے ہیں،جو اس قدر خبیث اور فسادی ہے جو انہیں اس قدر خود غرض بنا دیتا ہے کہ ان کے ساتھ دلیل کے ساتھ بات کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔وہ اسلام کا پیغام بھول چکے ہیں۔ ان لوگوں کی حرص اور خود غرضی نے عوام کے مفاد کو اپنے تابع کرلیا ہے۔

لاکھوں عوام کو ایک وقت کا کھانا میسر نہیں،اگر پاکستان کا یہ تصور ہے تو میں ایسا پاکستان نہیں لوں گا۔ ”انہوں نے 1946ء میں مسلم لیگ کی پلاننگ کمیٹی کا اجلاس بلایا اس میں کہا:”میری درخواست ہے کہ ایک نکتہ ذہن میں رکھیں ہمارا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ امیر امیر تر ہوجائے اور چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز ہو۔ ہمارا نظام اسلامی ہونا چاہئے۔ عوام کا مفاد اور فلاح ہمارے ذہن میں رہنی چاہئے۔قائداعظمؒ لازمی تعلیم کے حامی تھے۔ انہوں نے اسلامک وژن کے متعلق ایک انگریز صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: ”جہالت کو جس قدر ممکن ہو ختم کر دیا جائے۔ افراد کو بہترین ہنر سکھائے جائیں گے اور معیشت میں تیزی سے اضافہ کیا جائے گا“۔ انہوں نے اپنی 11اگست کی تقریر میں بھی کرپشن، اقربا پروری، ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کے خلاف اور اشیائے ضرورت عام آدمی کے بس میں رکھنے کی بات کی۔ قائداعظمؒ مخلوط نظام معیشت چاہتے تھے تاکہ ملک میں توازن قائم رہے۔

وہ خود انحصاری پر زور دیتے تھے۔ انہوں نے صنعتی اور زرعی ترقی پر زور دیا۔ گھریلو صنعتوں کا فروغ چاہتے تھے۔ انہوں نے رونلڈ نامی ایک انگریز کو اپنا اقتصادی مشیر مقررکیا اور میر لائق علی کو امریکہ و برطانیہ کا دورہ کرکے وہاں کی ترقیاتی منصوبہ بندی کو سمجھنے کے لئے کہا۔26 ستمبر1947ء کو آپ نے ولیکا ٹیکسٹائل ملز کے افتتاح کے موقع پر کہا کہ عوام کے لئے زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم ہونے چاہئیں۔ مجھے امید ہے کہ اس ملز کے مزدوروں کے لئے رہائش کا مناسب انتظام کیا گیا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک کہ اس کے مزدور مطمئن نہیں ہوتے۔

قائداعظمؒ نے کئی مواقع پر اسلامی مساوات اور اخوت کی ضرورت پر زور دیا، ایک موقع پر کہا کہ اگر آپ سب کے لئے مساوی مواقع کی بات کرتے ہیں تو آپ میرے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔انہوں نے سٹیٹ بنک کے افتتاح کے موقع پر بھی اپنا اقتصادی وژن پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب اور فکسڈ آمدنی والے طبقات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ لوگ پریشان ہیں۔ مغربی نظام معیشت کو اپنانے سے ہمیں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔ یہ نظام مطمئن عوام پیدا نہیں کرسکتا ہمیں اپنا مقدر خود بنانا ہے،اور دُنیا کے سامنے ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہے جو اسلام کی حقیقی روح کے مطابق ہو۔ تمام ا نسانوں کے لئے مساوی مواقع اور مساوی انصاف پر مشتمل ہو۔ قیوم نظامی نے کہا کہ سرمایہ دار طبقات ہمیں سرمایہ کے ٹرکل ڈاؤن اثرات کے متعلق بتاتے رہے، لیکن بالا دست طبقے ملکی دولت لوٹ لوٹ کر بیرون ملک لے جاتے رہے ہیں۔انہوں نے کہا اس وقت عالمی ادارے ہماری معیشت پر تسلط جمائے ہوئے ہیں۔

بیروزگاری اور مہنگائی بڑھ رہی ہے، لوگ سخت پریشان ہیں۔ تاہم حکومت کے بعض ادارہ جاتی فیصلے درست سمت میں کئے جارہے ہیں۔ جناب جاوید نواز نے اپنی تقریر میں کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ جب1906ء میں مسلم لیگ بنی اس وقت یہ جاگیرداروں اور نوابوں کا ایک گروہ تھا اس کے پیش نظر آزادی نہیں،بلکہ ان جاگیر داروں کے مفادات کا تحفظ تھا۔ یہ قائداعظم کی بھرپوراور مخلص قیادت تھی، جس نے مسلم لیگ کو ایک عوامی تحریک کا رخ دیا۔ علامہ اقبالؒ کے فلسفہ نے مسلم لیگ کے مقاصد میں عوامی حقوق کے تحفظ اور آزادی کے نصب العین کو شامل کیا،لیکن اس جاگیردار ٹولے نے مسلم لیگ کا گھیراؤ کئے رکھا۔ ہماری بدقسمتی اسی وقت سے شروع ہوگئی جب لیاقت علی خان کے بعد سول سروس والوں نے حکومت سنبھال لی اور ایک بیورو کریٹ غلام محمد گورنر جنرل بن بیٹھا۔ اب میں سوچتا ہوں کہ مَیں نے اپنی پوری زندگی پاکستانی اشرافیہ کی غلامی میں گزاری ہے۔

میرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا آئندہ میرے بچوں کو بھی اسی خو د غرض اشرافیہ کی غلامی میں زندگی بسر کرنا ہوگی؟ سرمایہ دارانہ نظام میں پبلک سیکٹر کے اداروں کا مذاق اڑایا جاتا ہے انہیں ناکام بنایا جاتا ہے،جبکہ مخلوط معیشت اور فلاحی مملکت کے نظام میں پبلک سیکٹر کے ادارے بھی ساتھ ہی ساتھ مضبوطی اور کامیابی سے کام کرتے ہیں۔ ہمارے ملک کی بقاء اور ترقی کا انحصار اسی بات پر ہے کہ ہم اپنی نئی نسلوں کو اقبال اور قائداعظم کے افکار اور ان کے کردار سے روشناس کرائیں۔سب سے بڑھ کر اقتدار اور ملکی وسائل پر قابض طبقات پر ان افکار اور عوامی مساوات اور عوامی مفاد ا ور فلاح کی اہمیت واضح کرنے کی ضرورت ہے اس کے لئے تمام محب وطن لوگوں کو میدان عمل میں آنا ہوگا۔ اس موقع پر جناب ظفر علی راجہ نے کشمیر پر لکھے گئے اپنے قطعات سنائے۔

مزید :

رائے -کالم -