پاکستان کے اہل دانش اور مسئلہ کشمیر

پاکستان کے اہل قلم اور سنجیدہ فکر اور سوچ رکھنے والے اہل دانش نے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال پر انتہائی تشویش کا اظہار کیاہے اور مقبوضہ وادی میں محبوس کمشیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے انہیں اپنے مکمل تعاون کی یقنی دہانی کرائی ہے۔اہل فکر و دانش نے قراردیا ہے کہ بھارت کی طرف سے جنگ چھیڑنے کی کوئی بھی کوشش خطے کے امن کو تہہ و بالا کردے گی اور دونوں ممالک کے عوام کو ہولناک تباہی سے دوچار کردے گی۔انہوں نے اس تنازعہ کو پر امن طریقے سے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور عالمی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانون و انصاف پسند حلقوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کشمیریوں کی نسل کشی کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ساری دنیا کے ترقی پسند کشمیر میں جاری ظلم و جبر کے خلاف توانا آواز بلند کر یں ۔ادیبوں اوردانش وروں نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کی اہل قلم برادری جنگ کے خلاف ہے لیکن اگر جبرا ً مسلط کی گئی تو پھر پوری قوم اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ اس جنگ میں شریک ہو کر دشمن کو عبرتناک شکست دے دوچار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گی۔
اہل علم و دانش نے ان خیالات کااظہار ملک کی نمائندہ ادبی تنظیم ” انجمن ترقی پسند مصنفین“ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک فکری نشست میں کیا۔ جو ” کشمیریوں کا حق خود ارادیت۔۔۔علاقائی امن کی ضمانت “ کے زیر عنوان پاک ٹی ہاوس میں منعقد کی گئی۔ تقریب کی صدارت معروف قانون دان، دانش ور اور سابق وزیر داخلہ سینیڑ اعتزاز احسن نے کی۔ مہمان خصوصی سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر اور مسلم کانفرنس آزاد کشمیر کے سربراہ سردار عتیق احمدخان تھےجبکہ اظہار خیال کرنے والوں میں سینئر صحافی اورانسانی حقوق کے علمبردار آئی اے رحمان ، پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید، پروفیسر اسلم طارق، عابد حسین عابد کانام قابل ذکر ہے۔منظومات پیش کرنے والوں میں اسلم گورداسپوری، مقصود خالق، علی اصغر عباس، ڈاکٹر طاہر شبیر، سرفراز انور صفی، اعجاز رضوی، جاوید قاسم،فرحت عباس شاہ، ایوب خاور، اعظم ملک اور زین شامل تھے۔جلسہ کی نظامت نوجوان دانش ور حسین شمس رانا نے کی۔انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور کے صدر ریاظ احمد نے استقبالیہ کلمات پیش کیے اور انجمن کی کارکردگی اور کردار پر روشنی ڈالی۔اپنے صدارتی خطاب میں اعتزاز احسن کا کہنا تھاکہ آج گولیوں اور اسلحے کی بنیاد پر جنگیں نہیں لڑی جارہیں، آج ففتھ جنریشن وار کا زمانہ ہے جس میں فکری ا ورذہنی سطح پر دشمن کے ساتھ لڑائی لڑی جاتی ہے،آج بھارتی وزیر اعظم کی جارحانہ پالیسی اور غلط حکمت عملی کے نتیجے میں خطے کی دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے آ کھڑی ہوئی ہیں،مسئلے کی اہمیت اور حالاتکی سنگینی کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک کی قیادتوں کو جوش کی بجائے ہوش سے کام لیتے ہوئے حالات کو بے قابو ہونے سے بچانا ہوگا۔لڑائی نہ تو مسئلے کا حل ہے اور نہ ہی اس سے کسی طورپر بہتری کی توقع رکھی جاسکتی ہے کیونکہ جنگ دونوں ممالک کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی،اس لیے جنگ سے ہر درجہ اجتناب کرتے ہوئے درمیان راہ اختیار کرنا ہوگی۔
اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ہر ہندو مودی نہیں ہے مودی ایک ذہنیت کا نام ہے جس کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں لیکن ہندوستان کے اندر جو ہندو یا انصاف پسند کوئی بھی گروہ یا جماعت مودی کی مخالفت کررہی ہے ہمیں اس سے نہیں لڑنا،عرب ممالک کی طر ف سے پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان کی حمایت بھی ایک مذہبی نہیں تجارتی معاملہ ہے لیکن ایک بات طے ہے بھارت ہر حوالے سے ایک قابض اور غاصب ملک ہے جس نے لاکھوں کشمیریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر کشمیہر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے وہاں کرفیوں نافذ کررکھا ہے،جس کی کوئی قانون حیثیت نہیں ہے،مودی ایک فاشست حکمران ہے جس نےمقبوضہ وادی میں ظلم و بربریت کابازار گرم کررکھا ہے،بھارتی فوجی جو مقبوضہ وادی میں نوجوان کشمیریوں کو شہید کررہے ہیں وہ جنگی جرائم کے مرتکب ہورہے ہیں اسی طرح جو بھارتی کشمیریوں کو بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں وہ سراسر نسل کشی کے ذمرے میں آتا ہے ،پاکستان ان بنیادوں پر عالمی اداروں میں بھارت کے خلاف قانونی جنگ لڑ سکتا ہے۔انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ کرتار پور منصوبہ جلد از جلد مکمل کرے اور سکھوں کے لیے اسے کھول دے اس سے بھارتی حکومت کے لیے مسائل پیدا ہوں گے اور یہی پاکستان کے مفاد میں ہوگا۔
سردار عتیق احمد خان نے کہاکہ گزشتہ بہتر برسوں میں پہلی بار ایسا ہو اہے کہ مسئلہ کشمیر دنیا کے طاقتور مراکز میں ایک متنازعہ مسئلہ کے طورپر بحث کا موضوع بنا ہے،مقبوضہ وادی میں مسلسل تین ہفتوں سے جاری کرفیو کی وجہ سے وہاں انسانی صورت حال انتہائی خطرناک ہوگئی ہے،مودی کی حماقت کی وجہ سے دنیا ایک نئی ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ،دونوں ملک ایٹمی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکےکیوں کہ جنگ کی تباہ کاریاں سب کے سامنے ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیاکہ نوے لاکھ کشمیریوں کی نسل کشی روکنے کے لیے عالمی اداروں کو فی الفور اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،وادی میں کرفیو کو فوری طورپر ختم کروا کر وہاں امن دستے تعینات کیے جائیں اور یڈ کراس سمیت دیگر فلاحی تنظیموں کو وہاں بھیجا جائے امن دستوں کو بھیجا جائے اور کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کی جائے۔
آئی اے رحمان نے کہاکہکشمیر کا فیصلہ وہی قابل قبول ہوگا جو کشمیر پسند کریں گے۔ڈاکٹر سعادت سعید نے کہاکہ تقسیم ہند کے وقت ہمیں پورا پاکستان نہیں ادھورا پاکستان دیا گیا،اگر ہمیں تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق پورا پنجاب، پورا بنگال ملا ہوتا تو آج کشمیر کا مسئلہ ہی درپیش نہ ہوتا،جب کہ پاکستان بھی زیادہ مضبوط اور مستحکم ملک ہوتا۔انہوں نے کہاکہ لڑائی بلاشبہ مسئلے کا حل نہیں ہے ہمیں لیکن مظلوم،نہتے اور بے گناہ کشمیریوں کی مدد کے لیے عملی جدوجہد کرنا ہوگی۔پروفیسر اسلم طارق نے کہاکہ ہم امن پسند لوگ ہیں جنگ پسند نہیں ہیں۔لیکن ہم ہر طرح سے کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ عابد حسین عابد کا کہنا تھاکہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا روز اول ہی سے یہی موقف رہا ہے کہ کشمیر کشمیریوں کا ہے،ہم جنگ کے خلاف ہیں تاہم اس مسئلے کے حل کے لیے دونوں ممالک کے عوام کو خود باہر نکلنا ہوگا اور اپنی اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈال کر اس مئلے کے پر امن حل پر مجبور کرنا ہوگا عوامی دباؤ کے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔
اس موقع پر ادیبوں اور دانش وروں نےموم بتیاں جلا کر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور شہید کشمیریوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔کشمیر کی موجودہ صورت حال میں پاکستان کے اہل قلم کا یہ ایک اہم اور بڑا جلسہ تھا جس کی پہل انجمن ترقی پسند مصنفین نے کی۔ انجمن نے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانش ور چودھری اعتزاز احسن اور دائیں بازور سے تعلق رکھنے والے سردار عتیق احمد خان جیسے دو مختلف نظریات کی حامل شخصیات کو ایک پلیٹ فارم پر بلا کر نئی طرح ڈالی ہے جس کے انجمن کی کارکردگی اور کردار کے ساتھ اس کی جمہوری سوچ، اس کے رواداری، برداشت اور مخالف کے نقطہ نظر کو سننے کے حوالے سے مستقبل میں یقینی طورپر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔