”ہمارے ہیں حسینؓ“

”ہمارے ہیں حسینؓ“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی  ؒ    
مقصد شہادت :
ہر سال محرم میں کروڑوں مسلمان شیعہ بھی اور سنی بھی ٗ امام حسین  ؓ کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان غمگساروں میں سے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں جس کے لیے امام نے نہ صرف اپنی جان عزیز قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا۔ کسی شخص کی مظلومانہ شہادت پر اس کے اہل خاندان کا اور اس خاندان سے محبت و عقیدت یا ہمدردی رکھنے والوں کاا ظہار غم کرنا تو ایک فطری بات ہے ٗ ایسا رنج و غم دنیا کے ہر خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے ظاہر ہوتاہے۔ اس کی کوئی اخلاقی قدر و قیمت اس سے زیادہ نہیں کہ اس شخص کی ذات کے ساتھ اس کے رشتہ داروں کی اور خاندان کے ہمدردوں کی محبت کا ایک فطری نتیجہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امام حسین ؓ کی وہ کیا خصوصیت ہے جس کی وجہ سے صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ہر سال ان کا غم تازہ ہوتا رہے؟اگر یہ شہادت کسی مقصد عظیم کے لیے نہ تھی تو محض ذاتی محبت و تعلق کی بنا پر صدیوں اس کا غم جاری رہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں اور خود امام ؓ  کی اپنی نگاہ میں اس محض ذاتی و شخصی محبت کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی ہے؟ انہیں اگر اپنی ذات اس مقصد سے زیادہ عزیز ہوتی تو وہ اسے قربان ہی کیوں کرتے؟ان کی یہ قربانی تو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس مقصد کو جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے ٗ لہٰذا اگر ہم اس مقصد کے لیے کچھ نہ کریں بلکہ اس کے خلاف کام کرتے رہیں تو محض ان کی ذات کے لیے یہ گریہ و زاری کر کے اور ان کے قاتلوں پر لعن طعن کر کے قیامت کے روز نہ تو ہم امام ہی سے کسی داد کی امید رکھ سکتے ہیں اور نہ یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ان کا خدا اس کی کوئی قدر کرے گا۔ 

اب دیکھنا چاہیے کہ وہ مقصد کیا تھا؟ کیا امام تخت و تاج کے لیے اپنے کسی ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتے تھے اور اس کے لیے انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگائی؟ کوئی شخص بھی جو امام حسین ؓ  کے گھرانے کی بلند اخلاقی سیرت کو جانتا ہے ٗ یہ بدگمانی نہیں کر سکتا کہ یہ لوگ اپنی ذات کے لیے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر مسلمانوں میں خون ریزی کر سکتے تھے۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے ان لوگوں کا نظریہ ہی صحیح مان لیا جائے جن کی رائے میں یہ خاندان حکومت پر اپنے ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتا تھا ٗ تب بھی حضرت ابو بکر ؓ سے لے کر امیر معاویہ  ؓ تک پچاس برس کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حکومت حاصل کرنے کے لیے لڑنا اور کشت و خون کرنا ہر گز ان کا مسلک نہ تھا۔ اس لیے لامحالہ یہ ماننا ہی پڑے گا کہ امام عالی مقام کی نگاہیں اس وقت مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح اور اس کے مزاج اور اس کے نظام میں کسی بڑے تغیر کے آثار دیکھ رہی تھیں جسے روکنے کی جدوجہد کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا ٗ حتیٰ کہ اس راہ میں لڑنے کی نوبت بھی آ جائے تو نہ صرف جائز بلکہ فرض سمجھتے تھے۔ 

ریاست کے مزاج ٗ مقصد اور دستور کی تبدیلی:
وہ تغیر کیا تھا؟ ظاہر ہے کہ لوگوں نے اپنا دین نہیں بدل دیا تھا۔ حکمرانوں سمیت سب لوگ خدا اور رسول ؐ  اور قرآن کو اسی طرح مان رہے تھے جس طرح پہلے مانتے تھے۔ مملکت کا قانون بھی نہیں بدلا تھا۔ عدالتوں میں قرآن و سنت ہی کے مطابق تمام معاملات کے فیصلے بنی امیہ کی حکومت میں بھی ہو رہے تھے جس طرح ان کے برسراقتدار آنے سے پہلے ہوا کرتے تھے۔ بلکہ قانون میں تغیر تو انیسویں صدی عیسوی سے پہلے دنیا کی مسلم حکومتوں میں سے کسی کے دور میں بھی نہیں ہوا۔ بعض لوگ یزید کے شخصی کردار کو بہت نمایاں کر کے پیش کرتے ہیں جس سے یہ عام غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے کہ وہ تغیر جسے روکنے کے لیے امام کھڑے ہوئے تھے ٗ بس یہ تھاکہ ایک برا آدمی برسراقتدار آ گیا تھا۔ لیکن یزید کی سیرت و شخصیت کا جو برے سے برا تصور پیش کرنا ممکن ہے اسے جوں کا توں مان لینے کے بعد بھی یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے کہ اگر نظام صحیح بنیادوں پر قائم ہو تو محض ایک برے آدمی کا برسراقتدار آ جانا کوئی ایسی بڑی بات ہو سکتی ہے جس پر امام حسین  ؓ جیسا دانا و بزرگ اور علم شریعت میں گہری نظر رکھنے والا شخص بے صبر ہو جائے۔ اس لیے یہ شخصی معاملہ بھی وہ اصل تغیر نہیں ہے جس نے امام کو بے چین کیا تھا۔ تاریخ کے غائر مطالعہ سے جو چیز واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یزید کی ولی عہدی اور پھر اس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتدا ہو رہی تھی وہ اسلامی ریاست کے دستور اور اس کے مزاج اور اس کے مقصد کی تبدیلی تھی۔ اس تبدیلی کے پورے نتائج اگرچہ اس وقت سامنے نہ آئے تھے لیکن ایک صاحب نظر آدمی گاڑی کا رخ تبدیل ہوتے ہی یہ جان سکتا ہے کہ اب اس کا راستہ بدل رہاہے اور جس راہ پر یہ مڑ رہی ہے وہ آخر کار اسے کہاں لے جائے گا۔ یہی رخ کی تبدیلی تھی جسے امام نے دیکھا اور گاڑی کو پھر سے صحیح پٹڑی پر ڈالنے کے لیے اپنی جان لڑا دینے کا فیصلہ کیا۔ 

نقطہ انحراف : 
اس چیز کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین ؓ  کی سربراہی میں ریاست کا جو نظام چالیس سال تک چلتا رہا تھا اس کے دستور کی بنیادی خصوصیات کیا تھیں اور یزید کی ولی عہدی سے مسلمانوں میں جس دوسرے نظام ریاست کا آغاز ہوا اس کے اند ر کیا خصوصیات دولت بنی امیہ و بنی عباس اور بعد کی بادشاہیوں میں ظاہر ہوئیں۔ اسی تقابل سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ یہ گاڑی پہلے کس لائن پر چل رہی تھی اور اس نقطہ انحراف پر پہنچ کر وہ آگے کس لائن پر چل پڑی اور اسی تقابل سے ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ جس شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ فاطمہ  ؓ اور حضرت علی  ؓ کی آغوش میں تربیت پائی تھی اور جس نے صحابہ ؓ  کی بہترین سوسائٹی میں بچپن سے بڑھاپے تک کی منزلیں طے کی تھیں وہ کیوں اس نقطہ انحراف کے سامنے آتے ہی گاڑی کو نئی لائن پر جانے سے روکنے کے لیے کھڑا ہوگیا اور کیوں اس نے اس بات کی بھی پرواہ نہ کی کہ اس زور دار گاڑی کا رخ موڑنے کے لیے اس کے آگے کھڑے ہو جانے کا کیا نتیجہ ہو سکتاہے۔ 
انسانی بادشاہی کا آغاز : 
اسلامی ریاست کی اولین خصوصیت یہ تھی کہ اس میں صرف زبان ہی سے یہ نہیں کہا جاتاتھابلکہ سچے دل سے یہ مانا بھی جاتا تھا اور عملی رویہ سے اس عقیدہ اور یقین کا پورا ثبوت بھی دیا جاتا تھا کہ ملک خدا کاہے ٗ باشندے خدا کی رعیت ہیں اور حکومت اس رعیت کے معاملے میں خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔ حکومت اس رعیت کی مالک نہیں ہے اور رعیت اس کی غلام نہیں ہے۔ حکمرانوں کا کام سب سے پہلے اپنی گردن میں خدا کی بندگی و غلامی کا قلاوہ ڈالناہے۔ پھر یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ خدا کی رعیت پر اس کا قانون نافذ کریں لیکن یزید کی ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا ٗ اس میں خدا کی بادشاہی کا تصور صرف زبانی اعتراف تک محدود رہ گیا۔ عملا ً اس نے وہی نظریہ اختیار کر لیا جو ہمیشہ سے ہر انسانی بادشاہی کا رہا ہے۔ یعنی ملک بادشاہ اور شاہی خاندان کا ہے اور وہ رعیت کی جان ٗ مال ٗ آبرو ٗ ہر چیز کا مالک ہے۔ خدا کا قانون ان بادشاہتوں میں نافذ ہوا بھی تو صرف عوام پر ہوا ٗ بادشاہ اور ان کے خاندان اور امرا اور حکام زیادہ تر اس سے مستثنیٰ ہی رہے۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا تعطل: 
اسلامی ریاست کا مقصد خدا کی زمین میں ان نیکیوں کو قائم کرنا اور فروغ دینا تھا جو خدا کو محبو ب ہیں اور ان برائیوں کو دبانا اور مٹانا تھا جو خدا کو ناپسند ہیں مگر انسانی بادشاہت کا راستہ اختیار کرنے کے بعد حکومت کا مقصد فتح ممالک اور تسخیر خلائق اور تحصیل باج و خراج اور عیش دنیا کے سوا کچھ نہ رہا۔ خدا کا کلمہ بلند کرنے کی خدمت بادشاہوں نے کم ہی انجام دی۔ ان کے ہاتھوں اور ان کے امراء اور حکام اور درباریوں کے ہاتھوں بھلائیاں کم اور برائیاں بہت زیادہ پھیلیں۔ بھلائیوں کے فروغ اور برائیوں کی روک تھا م اور اشاعت دین اور علوم اسلامی کی تحقیق و تدوین کے لیے جن اللہ کے بندوں نے کام کیا ٗ انہیں حکومت سے مدد ملنی تو درکنار اکثر وہ حکمرانوں کے غضب ہی میں گرفتار رہے اور اپنا کام وہ ان کی مزاحمتوں کے علی الرغم ہی کرتے رہے۔ ان کی کوششوں کے برعکس حکومتوں اور ان کے حکام و متوسلین کی زندگیوں اور پالیسیوں کے اثرات مسلم معاشرے کو پیہم اخلاقی زوال ہی کی طرف لے جاتے رہے۔ حد یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر اسلام کی اشاعت میں رکاوٹیں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا جس کی بدترین مثال بنو امیہ کی حکومت میں نو مسلموں پر جزیہ لگانے کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ 
اسلامی ریاست کی روح تقویٰ ٗ خدا ترسی اور پرہیز گاری کی روح تھی جس کا سب سے بڑا مظہر خود ریاست کا سربراہ ہوتا تھا۔ حکومت کے عمال اور قاضی اور سپہ سالا ر ٗ سب اس روح سے سرشار ہوتے تھے لیکن بادشاہی کی راہ پر پڑتے ہی مسلمانوں کی حکومتوں اور ان کے حکمرانوں نے قیصر و کسریٰ کے سے رنگ ڈھنگ اور ٹھاٹھ باٹھ اختیار کر لیے۔ عدل کی جگہ ظلم و جور کا غلبہ ہوتا چلا گیا۔ پرہیز گاری کی جگہ فسق و فجور اور راگ رنگ اور عیش و عشرت کا دور دورہ شروع ہوگیا۔ حرام و حلال کی تمیز سے حکمرانوں کی سیرت و کردار خالی ہوتی چلی گئی۔ سیاست کا رشتہ اخلاق سے ٹوٹتا چلا گیا۔ خدا سے خود ڈرنے کی بجائے حاکم لوگ بندگان خدا کو اپنے آپ سے ڈرانے لگے اور لوگوں کے ایمان و ضمیر بیدار کرنے کے بجائے ان کو اپنی بخششوں کے لالچ سے خریدنے لگے۔ یہ تو تھا روح و مزاج اور مقصد اور نظریے کا تغیر۔ ایسا ہی تغیر اسلامی دستور کے بنیادی اصولوں میں بھی رونما ہوا۔
امام حسین ؓکا مومنانہ کردار:
کوئی شخص اس تاریخی حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ یزید کی ولی عہدی ان تغیرات کا نقطہ آغاز تھی اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس نقطے سے چل کر تھوڑی مدت کے اندر ہی بادشاہی نظام میں وہ سب خرابیاں نمایاں ہو گئیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ انقلابی قدم اٹھایا گیا تھا اس وقت یہ خرابیاں اگرچہ بتمام و کمال سامنے نہ آئی تھیں مگر ہر صاحب بصیرت آدمی جان سکتاتھاکہ اس اقدام کے لازمی نتائج یہی کچھ ہیں اور اس سے ان اصلاحات پر پانی پھر جانے والا ہے جو اسلام نے سیاست و ریاست کے نظام میں کی ہیں۔ اسی لیے امام حسین ؓ اس پر صبر نہ کر سکے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ جو بدتر سے بدتر نتائج بھی انہیں ایک مضبوط جمی جمائی حکومت کے خلاف اٹھنے میں بھگتنے پڑیں ان کاخطرہ مول لے کر بھی انہیں اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کوشش کا جوانجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے ٗ مگر امام ؓ  نے اس عظیم خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اس کے نتائج کو انگیز کر کے جو بات ثابت کی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں جسے بچانے کے لیے ایک مومن اپنا سر بھی دے دے اور اپنے بال بچوں کو بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد کے مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے اور ان خصوصیات کے مقابلے میں وہ دوسرے تغیرات جنہیں اوپر بیان کیا گیا ہے دین اور ملت کے لیے وہ آفت عظمیٰ ہیں جسے روکنے کے لیے ایک مومن کو اگر اپنا سب کچھ قربان کر دینا پڑے تو اس میں دریغ نہ کرنا چاہیے۔ کسی کا جی چاہے تو اسے حقارت کے ساتھ ایک سیاسی کام کہہ لے مگر حسین ؓ ابن علی ؓ کی نگاہ میں تو یہ سراسر ایک دینی کام تھا ٗ اسی لیے انہوں نے اس کام میں جان دینے کوشہادت سمجھ کر جان دی۔ 

مزید :

ایڈیشن 1 -