ای وی ایم کی بھول بھلیّاں
الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) پر سوالات اٹھاتے ہوئے وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی سے وضاحتیں طلب کی ہیں اور ای وی ایم کی ٹیسٹنگ، ڈیزائن اور ٹیکنیکل فنکشنز کی تفصیلات بھی مانگ لی ہیں، الیکشن کمیشن کو خدشہ ہے کہ اس مشن کے استعمال سے ووٹ خفیہ نہیں رہ سکے گا، جو آئین کے آرٹیکل226 کی خلاف ورزی ہو گی۔ الیکشن کمیشن نے سوال اٹھایا ہے کہ بٹن دبانے سے ای وی ایم سے بینکوں کی اے ٹی ایم مشین کی طرح رسید نکلے گی جسے فولڈ نہیں کیا جا سکتا، اس لئے یہ واضح نظر آئے گا کہ ووٹر نے ووٹ کس امیدوار کے حق میں ڈالا،الیکشن کمیشن نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ غلط بٹن غلطی سے یا ارادتاً دب جانے سے ووٹ کاسٹ ہو جائے گا اور ووٹر کے پاس کوئی آپشن نہیں رہے گا،جبکہ مروج طریقہ کار میں غلط نام کے سامنے نشان لگنے پر نیا بیلٹ پیپر مل جاتا ہے، الیکشن کمیشن کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ ای او ایم میں صرف بیس امیدواروں میں سے ایک کو منتخب کرنے کا آپشن موجود ہے، اگر کسی حلقے میں اس سے زیادہ امیدوار ہوں گے تو نئی مشین لگانا ہو گی، جو ناقابل ِ عمل ہے۔ الیکشن کمیشن نے مزید کہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی دستیابی بھی ایک سوال ہے،کیونکہ اِس وقت قومی اسمبلی کے لئے ملک بھر میں 2 لاکھ 50ہزار پولنگ بوتھ قائم کئے جاتے ہیں اور صوبائی اسمبلیاں شامل ہونے سے ای وی ایم مشینوں کی تعداد5 لاکھ ہو جائے گی،جبکہ20 سے زائد امیدوار ہونے کی صورت میں یہ تعداد کم از کم سات لاکھ تک پہنچ جائے گی، لیکن وزارتِ آئی ٹی کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق تیاری کا ہدف چار لاکھ مشینیں ہیں۔ الیکشن کمیشن نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے لئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین ناقابل ِ عمل ہے،کیونکہ بلدیاتی انتخابات میں سات بیلٹ پیپر استعمال ہوتے ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ای وی ایم میں ٹینڈر بیلٹ کا تصور موجود نہیں،یعنی اگر کسی ووٹر کا ووٹ پہلے کسی نے استعمال کیا ہو تو پریذائیڈنگ افسر شناختی کارڈ کی نقل اور انگوٹھے کا نشان لے کر اُسے بیلٹ پیپر فراہم کرنے کا مجاز ہے،جبکہ ای وی ایم میں اس طرح کا کوئی بندوبست نہیں،مشین تیار کرنے والی وزارتِ سائنس اور ٹیکنالوجی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دینے کے لئے مہلت طلب کی ہے،اور اس کے بعد الیکشن کمیشن کے سامنے دوبارہ مشین کی کارکردگی اور ”صلاحیتوں“ کا مظاہرہ کیا جائے گا۔
جب سے ای وی ایم کا غلغلہ بلند ہوا ہے، ایک طے شدہ منصوبے اور منظم مہم کے تحت یہ تاثر پختہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہمارے انتخابی نظام میں جتنی بھی خرابیاں اِس وقت موجود ہیں وہ سب اس وقت چشم زدن میں اڑنچھو ہو جائیں گی جب ووٹ مشین کے ذریعے ڈالا جائے گا،اس مشین کی تیاری کے ضمن میں غیر معمولی فخرو مباحات کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ گفتگوؤں، انٹرویوز، اخباری بیانات اور تقریروں میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہم جو مشین بنانے جا رہے ہیں یا بنا چکے ہیں یہ کوئی ایسی عجوبہ ہو گی جو دنیا نے کہیں پہلے کبھی دیکھی نہ سُنی، اس مشین کی جادوئی خوبیاں بھی ایسی بیان کی جا رہی ہیں جیسے پوری دنیا تو اب تک اس کی برکتوں سے لاعلم تھی، اور ہم دنیا کا پہلا مُلک اور پہلی قوم ہیں جسے کسی غیبی آواز نے وہ وہ ہنر سکھا دیئے ہیں، جس سے الیکشن کی ہر خرابی کا عقدہ خودبخود کھلتا چلا جائے گا اور اس کے ذریعے جو بھی الیکشن ہوں گے اُن پر کوئی مائی کا لعل انگلی نہیں اٹھا سکے گا، حالانکہ سامنے کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ ایسی مشینیں دنیا بھر کے بہت سے ممالک کے لئے بہت ہی معمولی حیثیت رکھتی ہیں۔انہوں نے عشروں پہلے اپنے ہاں ان مشینوں کے ذریعے ووٹ ڈالنے شروع کر دیئے تھے اور ان میں جو جو خرابیاں وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہیں ان کی اصلاح بھی ساتھ ساتھ ہوتی رہی،کئی ممالک تو ایسے ہیں جہاں الیکٹرانک ووٹنگ مروج ہو کر ناکام ہو گئی،اور انہیں واپس ”دیسی“ طریقے کی طرف لوٹنا پڑا، ہمارے ہمسائے میں بھارت میں جہاں کے انتخابی نظام پر ہماری نسبت بہت کم اعتراضات ہوتے ہیں اور آج تک وہاں کوئی الیکشن ایسا نہیں ہوا جسے ہارنے والی اپوزیشن جماعت نے مسترد کیا ہوا،دھاندلیاں وہاں بھی ہوتی ہیں، ہار جیت وہاں بھی ہوتی ہے،لیکن ہارنے والے نتیجہ مانتے ہیں، آج تک وہاں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلی۔ایک بار البتہ اندرا گاندھی نے ہارنے کے بعد ایمرجنسی ضرور لگا دی تھی،لیکن اس پر آج تک نفرین کی جاتی ہے۔اس بھارت میں دو عشرے سے زیادہ مدت پہلے الیکٹرانک ووٹنگ مشین متعارف کرائی گئی، لیکن اسے پوری طرح رواج دینے میں اتنا عرصہ لگ گیا، آج بھی وہاں بعض حلقوں میں مشینیں متعارف نہیں ہیں۔
اس کے مقابلے میں ایک ہم ہیں جنہوں نے ابھی نمونے کی ایک مشین بنائی ہے،جس کے فیچرز ابھی کسی کسوٹی پر نہیں پرکھے گئے۔وزارت سائنس نے قومی اسمبلی میں اس کا دیدار ضرور کروایا تھا، پھر ایک رونمائی الیکشن کمیشن کے سامنے کروائی گئی،جس نے مشین دیکھنے کے بعد اس پر بہت سے سوالات اٹھا دیئے ہیں۔وزارت کے پاس پہلے سے اِن سوالات کا کوئی جواب نہیں، یہی وجہ ہے کہ جب الیکشن کمیشن نے سوالات اٹھائے تو اس نے جواب دینے کیلئے مہلت مانگی،حالانکہ اس مشین کے ”موجدوں“ کو پہلے سے معلوم ہونا چاہئے تھا کہ اس پر اس طرح کے سوالات اٹھ سکتے ہیں،باقی باتوں کو چھوڑیئے ووٹ کا خفیہ رہنا آئینی ضرورت ہے،اور اگر کسی ووٹر کا ووٹ خفیہ نہیں رہتا تو آئین کی شق کی خلاف ورزی ہوتی ہے،لیکن الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ اس مشین میں تو ایسا کوئی بندوبست نہیں،الیکشن کمیشن نے جو دوسرے سوالات اٹھائے ہیں مشین سازوں کی طرف سے ان کے جوابات آئیں گے تو ان پر اظہار خیال ہو گا۔ فی الحال تو اتنی سی گذارش ہے کہ دنیا بھر میں سائبر کرائمز کے ذریعے جو اربوں کے فراڈ ہو رہے ہیں اور جو آج تک نہیں روکے جا سکے، کیا ان کے پیش ِ نظر یہ سوال نہیں کیا جا سکتا کہ یہ مشین اپنے اوپر سائبر کرائمز کرنے والوں کا حملہ کس طرح روکے گی؟ دنیا کی ساری مشینیں اگر ایسی کوئی ترکیب نہیں بنا سکیں تو کیا یہ مشین پہلی ایسی مشین ثابت ہو گی،جو ہر قسم کے سائبر حملہ آوروں کا مقابلہ کامیابی سے کر سکے گی۔جہاں مشینیں ہیک کر کے نوٹ چرائے جا سکتے ہیں وہاں ووٹ چرانا کتنا مشکل ہو گا؟