”لوگ خوش حال ہو رہے ہیں“

”لوگ خوش حال ہو رہے ہیں“
”لوگ خوش حال ہو رہے ہیں“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


حکومت کی تین سالہ کارکردگی کی تقریب میں جب وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ لوگ خوش حال ہو رہے ہیں تو میں خوشی کے مارے لوٹ پوٹ ہو گیا۔مارے جوش کے دو چار الٹی سیدھی چھلانگیں لگانے سے گردن میں بل بھی آیا اور کمر میں چک بھی پڑ گئی لیکن لوگوں کے خوش حال ہونے کی خوشی میں اپنی تکلیف برداشت کر گیا۔ مجھے لگا کہ 70 سال تو اس ملک نے خواہ مخواہ ضائع کئے تھے، کیونکہ انہیں ایک ایسی حکومت کی ضرورت تھی، جہاں لوگ دن دوگنا رات چوگنا رفتار سے خوش حال ہوں۔ جب سے ٹیلی ویژن پر سنا ہے کہ ”لوگ خوش حال ہو رہے ہیں“، میرا دل کرتا ہے برے کاروباری حالات کا شکار اپنے دوستوں اور بے روزگاری کے مارے ہوئے تمام رشتہ داروں اور جاننے والوں تک اس تقریب کی اہم ترین خبر فٹا فٹ پہنچا دوں کہ کہیں وہ اس خبر سے محروم نہ رہ جائیں۔

اس اچانک خوش حالی کی ایک جھلک ہم نے کچھ ماہ پہلے ہی دیکھ لی تھی، جب پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح منفی سے اچانک راتوں رات 4 فیصد پر پہنچ گئی تھی۔ پاکستان کی اس اچانک ترقی کے پیچھے کوئی محنت یا منصوبہ بندی نہیں تھی،بلکہ آئین سٹائن کے دماغ جتنا زرخیز ایک انتظامی فیصلہ تھا کہ محکمہ اعداد و شماریات کو وفاقی وزارت خزانہ سے نکال کر وزارت منصوبہ بندی کے ماتحت کر دیا گیا تھا اورانہوں نے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی تمام رپورٹوں پر پانی تو پھیرا ہی تھا، پاکستان کے اپنے سٹیٹ بینک کے بھی تمام تخمینوں سے دوگنا ترقی دکھائی۔ حکومت کی مرضی ہے کہ وہ پاور پوائنٹ پریذینٹیشن میں جو مرضی اعداد و شمار دکھائیں۔ عوام کا کیا ہے، خوش حال ہونے کے بعد وہ مانگ تانگ کر روٹی کھا ہی لیں گے۔ کہیں سے نہ بھی ملے تو پناہ گاہیں اور دستر خوان انہی خوش حال عوام کے لئے تو بنائے گئے ہیں۔ایک اور آپشن یہ بھی ہے کہ بغیر وقت ضائع کئے احساس پروگرام میں اپنا اور اہل خانہ کا اندارج کروا لیا جائے تاکہ خوش حالی کے زیادہ سے زیادہ ثمرات سے مستفید ہوا جا سکے۔ 


شومی ئقسمت سے وزیر اعظم کی بتائی خوش خبری کے اگلے دو دن مجھے کچھ اضلاع میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں جب بھی لوگ برے حالات کا رونا شروع کرتے،میں انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ اب رونا دھونا بند کر دیں، کیونکہ آپ خوش حال ہو رہے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ میری باتیں بے اثر تھیں یا لوگوں کی سمجھ بوجھ ہی کم ہے کہ جہاں بھی میں یہ بات کرتا لوگ مجھے غصے سے گھورنا شروع کر دیتے۔ میں نے انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ مہنگائی سے پریشان ہونے کی نہیں،بلکہ اسے ویلکم کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ وزیراعظم عمران خان نے بتا دیا ہے کہ مہنگائی جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی کسان خوش حال ہو گا، کیونکہ یہ سارے پیسے کسان کی جیب میں جا رہے ہیں، چونکہ میں کسانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن ان کی کم عقلی کا یہ عالم تھا کہ کچھ تو ہاتھا پائی پر اتر آئے۔ ان میں نسبتاً کچھ پڑھے لکھے کسان خواہ مخواہ یہ بحث کرنے لگتے کہ اگر شوگر، آٹا مافیا کئی سو ارب روپے لوٹ چکا ہے تو اس سے کسانوں کو کیا فائدہ۔

انہیں تو کھاد، ادویات، زرعی مشینری اور بجلی کی کئی گنا بڑھی قیمتیں کھائے جا رہی تھیں،جس کی وجہ سے کاشت کاری ان کے لئے نا ممکن ہوتی جا رہی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ ڈی اے پی کھاد کی بوری اگر تین سے چھ ہزار کی ہو گئی ہے تو ہم کہاں سے کھاد ڈالیں۔ کپاس اگانے والے کہنے لگے کہ وزیراعظم کہتے ہیں کہ کپاس کے کاشتکاروں کی آمدنی میں 44 فیصد اضافہ ہوا۔ اگر واقعی اتنا اضافہ ہو رہا ہے تو کپاس کی پیداوار کیوں لگا تار کم ہو کر آدھی سے بھی کم رہ گئی ہے۔ پہلے جب کسان بدحال تھا تو ملکی ضروریات کے لئے درکار 12 ملین گانٹھیں اگاتا تھا، اب خوشحال ہونے کے بعد ساڑھے 5 ملین سے زیادہ اگا ہی نہیں پاتا۔ مجھے لگا کہ کپاس کے کاشتکار بہت احمق ہیں ورنہ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ ان کی آمدنی میں 44 فیصد اضافہ ہو گیا ہے تو وہ پہلے سے بھی زیادہ کپاس پیدا کرتے۔

کچھ یہی حال گندم کے کاشتکاروں کا ہے۔ پچھلے دور میں وہ بد حال تھے اس لئے ضرورت سے زیادہ گندم پیدا کرتے اور ان سالوں میں پاکستان ہر سال کئی ملین ٹن گندم ایکسپورٹ کر رہا تھا۔ موجودہ حکومت میں چونکہ وہ بہت خوشحال ہو چکے ہیں اِس لئے گذشتہ سال 28 اور اس سال 42 لاکھ ٹن گندم روس اور یوکرائن سے منگوائی جا رہی ہے۔ جب سے وزیراعظم نے تین سالہ کارکردگی بتائی ہے، میں لوگوں کو لگاتار سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم ہونے کو ہے، بیرون ملک سے ترسیلات زر ریکارڈ سطح پر ہیں، سیمنٹ کی فروخت میں 42 فیصد اضافہ اور کاروں موٹر سائیکلوں کی ریکارڈ فروخت ہوئی ہے، لیکن لوگ اتنے نا شکرے ہیں کہ وہ مہنگائی اور بے روزگاری کا بیکار رنڈی رونا شروع کر دیتے ہیں۔ میں انہیں وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی یہ خوش خبری سناتا ہوں کہ بھائی لوگو‘ مہنگائی میں صرف 27 فیصد، لیکن آمدنی میں 37 فیصد اضافہ ہوا ہے تو لوگ مارنے کو دوڑتے ہیں۔

ایک بیوقوف نے تو میرا گریبان پکڑ لیا کہ اگر وزیراعظم کے ارد گرد بیٹھے آٹا، چینی، ادویات، ایل این جی، پٹرول، گیس اور ڈیم تعمیر مافیاز سینکڑوں ارب کی دہاڑیاں لگا رہے ہیں تو اس سے عوام کا کیا لینا دینا۔ ان بیچاروں کا تو یہ حال ہے کہ دو کروڑ مزید خط غربت سے نیچے گر گئے ہیں اور ایک کروڑ مزید بیروزگار ہو گئے ہیں تو پھر مجھے جنرل پرویز مشرف یاد آجاتے ہیں، جن کے دور میں بھی خوشحالی کا پیمانہ کاروں اور موبائل فون کی فروخت بتائی جاتی تھی اور ان کے وزیراعظم شوکت عزیز trickle down تھیوری پیش کیا کرتے تھے کہ جب چند مخصوص سرمایہ داروں کے پاس دولت آئے گی تو اس کے چند قطرے چھلک کر غریبوں تک بھی پہنچ جائیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف اور وزیر اعظم عمران خان کو سکرپٹ دینے والے ایک ہی ہیں، لیکن ہمیں کیا، کیونکہ ”لوگ خوشحال ہو رہے ہیں“۔

مزید :

رائے -کالم -