پہلے ہی دیر ہو چکی 

 پہلے ہی دیر ہو چکی 
 پہلے ہی دیر ہو چکی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 کسی نے کیا خوب کہا ہے ”ہم پرندوں کی طرح ہوا میں اڑنا اور مچھلی کی طرح پانی میں تیرنا تو سیکھ گئے ہیں، بس اب یہ سیکھنا باقی ہے کہ زمین پر انسانوں کی طرح کیسے رہیں“۔ کاش ملک کی ہڈیوں کا گودا تک نوچ کر کھانے والے بہروپئے قوم کو اور نہیں تو صرف تمیز ہی سکھا دیتے، آج بچے بچے کی زبان پر جھوٹ اور دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کبھی کبھار سوچتا ہوں، جس تیزی سے ہمارا معاشرہ زوال پذیر ہو رہا ہے، آخر ہمارا بنے گا کیا؟ مجھے تو ملکی حالات دیکھ کر دیار غیر منتقل ہونے کا خیال بھی بار بار آتا ہے، احباب کہتے ہیں، اپنی مٹی سے پیار کرو، میں کہتا ہوں، اس مٹی کو اپنے سر میں ڈال لو، خاکسار ایسی سخت باتیں کرنے پر اس لئے مجبور ہوا، کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں لیکن کوئی ایک کام بھی ہمارا مسلموں والا نہیں، دین اسلام میں صفائی نصف ایمان ہے، ہماری صفائی کے کہا کہنے، خیر سے 75 سال ہو گئے، مسجد کے گندے واش روم چونے یا فینائل سے صاف کرنا، کائی سے اٹے وضو خانے کی جگہ کو خوشبو دار رکھنا، وضو کے بعد پیروں اور بازوؤں کو خشک کرنے کے بجائے فرش کو گیلا کرنے اور قالین کو بدبو سے پاک کرنا، ہم نہیں سیکھ سکے، مجھے اچھی طرح یاد ہے، جب تائیوان کی مسجد میں جمعہ پڑھنے گئے، کیا عجیب منظر تھا، وضو اور واش روم اتنے صاف ستھرے کہ نہ پوچھئے، وضو کے لئے گرم پانی اور ٹونٹی سے اتنا پانی ہی آتا، جتنا وضو کے لئے درکار ہوتا تھا، وضو کے بعد وضو والی جگہ سے آگے پلاسٹک کے میٹ تھے، پاؤں خشک کرنے کے لئے چھوٹے تولیے اور بازو صاف کرنے کے لئے بڑے ٹشو موجود تھے، تمام نمازی پانی کا ایک قطرہ بھی پاؤں اور بازوؤں کے ساتھ اندر نہ لے جا رہے تھے، سب نمازی خاموشی سے مسجد میں بیٹھے تھے، کوئی بھی نمازی ہماری طرح بھاگ کر نہ آ رہا تھا اور نہ ہی نمازیوں کے اوپر سے پھلانگ رہا تھا اور نہ ہی مولوی صاحب نے ہمارے مولوی حضرات کی طرح درس اسلامی کم اور سیاسی باتوں سے بھرپور کوئی تقریر کی بس خطبہ دیا جو آدھا عربی اور آدھا مقامی زبان میں تھا۔


نماز پڑھنے کے بعد ہم نے حلال کھانا کھایا، بیرون ملک ایک چیز جو مجھے ہمیشہ ہی متاثر کرتی ہے، وہاں کے لوگ صفائی پسند ہیں، ہماری طرح جگہ جگہ نہیں تھوکتے، پان کی پیک پھینک کر سڑکوں اور حتیٰ کہ ساتھ گزرتی گاڑیوں کو رنگین نہیں کرتے، کاروں، شاپر، بسکٹ، چپس، آئس کریم الغرض کاغذ سے بنے لفافے، کوڑا کرکٹ مخصوص جگہ پر ہی پھینکتے ہیں اور سرسبز پہاڑی علاقوں میں تو ایسا کرنا وہ جرم عظیم خیال کرتے ہیں۔


منظم طریقے سے ٹریفک کی روانی، ٹریفک قوانین کا احترام، جلدبازی میں سرخ اشارہ عبور کرنا، غلط سمت سے آنا، اوورسپیڈ، بنا ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانا، دھواں، ہارن، دھکم پیل ان کے لئے کسی گالی سے کم نہیں ہے۔ ایک ہم ہیں کہ موٹر سائیکل، چنگ چی، مکڑا نما لوڈر، کار، مزدا، کھوتا ریڑھی عین اس جگہ کھڑی کریں گے جو راستے کو بلاک کر دے گا اور اگر کوئی قسمت کا مارا غلطی سے یہ پوچھنے کی جسارت کر لے کہ بھائی آپ کی وجہ سے ٹریفک رکی ہوئی ہے، اپنے وہیکل کو ایک سائیڈ پر کر لیں تو ان شرفا کا جواب گالم و گلوچ سے شروع ہو کر ہاتھا پائی تک پہنچ جائے گا اور بڑی ڈھٹائی سے کہیں گے کہ میری وجہ سے ٹریفک کی روانی میں خلل پیدا نہیں ہوا، ساری سڑک خالی پڑی ہے، ادھر سے کیوں نہیں گزرتے، یہ ناچیز تو راستہ روکنے والوں سے کہتا ہے، کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ صرف نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ سے ہی جنت ملے گی، حقوق العباد کھوہ کھاتے تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے، یہ جو آپ نے راستے کو روک رکھا ہے اگر دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کریں، اسی پر ہی تو جنت ملنی ہے، کیا آپ نے پڑھا نہیں ہے کہ راستے سے پتھر ہٹانے والے کو اللہ سوہنا نے بخش دیا تھا تو کیا اللہ پاک کے اصول بدل گئے ہیں؟ ہرگز نہیں۔
افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے، یہ عالم، ان پڑھ جاہل، گنوار لوگوں کا نہیں، یہ حالت بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھے پڑھی لکھی اشرافیہ کا ہے مطلب آوے کا آوے ہی بگڑا ہوا ہے، اس بھونچال کا سیدھا حل میرے ایک دوست نے بتایا کہ چونکہ ہم ڈنڈے کے یار ہیں تو ٹریفک کو کنٹرول کرنے بالخصوص شیطانی سواری موٹر سائیکل،

چنگ چی، لوڈر کو نتھ ڈالنے کے لئے ایک نئی ڈنڈا بردار فورس بنائی جائے جو قانون کی خلاف ورزی کرنے والے موٹر سائیکل سوار کی کمر پر 2 ڈنڈے رسید کرے، چالان کر کے ان کو چلتا کرنے کی پرانی روایت کو ختم کر کے کم از کم 2 دن حوالات کی سیر کرائے، اس کے ڈرامائی نتائج برآمد ہوں گے۔ اس طرح ٹریفک بھی کنٹرول، حادثات میں کمی، بلڈ پریشر یعنی بلند فشار خون اور اضطرابی کیفیت سے بڑھنے والی شوگر یعنی ذیابیطس جو تمام بیماریوں کی ماں، ڈپریشن، چڑچڑے پن سے بھی نجات ملے گی۔
مجھے اپنے پروفیسر ڈاکٹر دوست کی ڈنڈا بردار فورس کی تجویز اچھی لگی لیکن میری ناقص رائے میں اس قوم کو جو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہجوم کی شکل اختیار کر چکی، دوبارہ قوم بنانے کی ضرورت ہے، پہلے ہی دیر ہو چکی، ہمیں اپنے بچوں کو ہیلتھ، ایجوکیٹ کرنے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لانا ہوں گے، ہمیں ذاتی مفاد سے ہٹ کر قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے ایک مربوط پالیسی بنانا ہو گی، ہماری سیاسی جماعتوں کو ووٹ، الیکشن، تھانہ، کچہری کے گرداب سے نکلنا ہو گا، والدین، اساتذہ، میڈیا، حکومت اور اس معاشرے کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہو گا، الیکٹرانک و سوشل میڈیا کے اس بھیانک دور میں جہاں ہمارے لیڈر اپنے بچوں کو گالی دینے کے سوا کچھ نہیں سکھا رہے، ہمیں اس آسیب سے چھٹکارا پانا ہو گا، اللہ کریم، میرے دیس کو ایک دوسرے کا گریبان چاک کرنے والے بدمست ہاتھیوں، پیٹ کے پجاریوں، بچگانہ سوچ کے حامل اکابرین کے بجائے سمجھ بوجھ رکھنے والی مخلص قیادت نصیب فرمائے، آمین۔

مزید :

رائے -کالم -