عام آدمی اور بینکوں کے ”جن جپھے “
پاکستان میں ایک معروف ملٹی نیشنل بینک نے اپنا وجود سمیٹتے سمیٹتے میرا چار سو روپے کا نقصان کر دیا ہے ۔ دُنیا کے معاملات کو سمجھنے والے کئی لوگ اِس تشویش میں مبتلا ہوں گے کہ اِس غیر ملکی بینک کا وطنِ عزیز کے قفس عنصریٰ سے پرواز کر جانا کہیں ہماری امن عامہ کی صورت حال اور معاشی صحت پر عدم اعتماد کا اظہار نہ ہو ۔ یوں یہ خدشہ بھی ہے کہ کیا معلوم اِس حرکت سے شہ پا کر ولائتی قسم کے بعض اور مالیاتی ادارے بھی ’نیویں نیویں“ ہو کر وطن عزیز سے کوچ کر جائیں .... اگر آپ اِس رجحان کا مکمل تجزیہ مجھ سے چاہیں تو اپنے ایک بہت ہی پیارے سندھی دوست کی طرح بے تکلفی سے یہ کہہ کر جان چھڑا نے کی کوشش کروں گا کہ ”سائیں، مَیں اتنی ”ڈیپتھ“ میں کبھی نہیں گیا “۔
ویسے ہم اِس نوعیت کے مسائل کی گہرائی میں جائیں بھی کیسے ؟ بڑے کاروباری بحرانوں سے پیشگی آگاہی تو صرف اُن کے حصے میں آتی ہے جو ہر صبح نہار منہ سٹاک ایکسچینج کی تازہ ترین صورت حال یا اخبار کے تجارتی صفحات پر بغور نظر ڈالنے کے عادی ہوں ۔ اِس کے برعکس ، ممکن ہے میری طرح آپ بھی آج تک یہ سمجھ نہ پائے ہوں کہ بینک میں حساب کھول کر عام بندے کو ملتا ہی کیا ہے ۔ میری مراد اِس سیدھے سادے آدمی سے ہے جو نہ تو کسی نامور بینک میں ”گولڈ کسٹمر“ کے طور پر اپنی ساکھ بڑھانا چاہتا ہے ، نہ موٹا تازہ قرضہ لے کر چمپت ہونے کے ارادے سے یہ کہتے ہوئے ”چھپن چھپائی“ کھیلنے لگتا ہے کہ ”اب مجھے ڈھونڈ چراغ رُخ زیبا لے کر“.... اِس سیدھے آدمی کا مسئلہ بینک سے ملنے والی یہ تحریری اطلاع تھی کہ ہماری برانچ بند ہو رہی ہے ، سو اپنے اکاﺅنٹ کے ”کریا کرم“ کے لئے پہنچ جاﺅ ۔
اُصولی طور پر تو آخری رسومات اد ا کرنے میں کوئی پیچیدگی نہیں ہونی چاہئے تھی ۔ بس آپ بینک میں جاتے اور درخواست کرتے کہ فدوی آپ کے حکم پر اکاﺅنٹ بند کرانے کے لئے حاضر ہوا ہے ، اِس کی اجازت مرحمت فرمائی جائے ۔ یہ ایک قابل عمل طریق کار تھا ، مگر سیدھے آدمی کو ، جو ایک یونیورسٹی میں بزنس کمیونی کیشن کا استاد بھی رہ چکا ہے ، تحریری اطلاع میں دو اُمید افزاءنکتے دکھائی دیئے، جو ایک دوسرے کی تائید کرتے تھے ۔ ایک تو کاروبار ختم کرنے والے ادارے کے لئے ”بینک“ کی بجائے ”برانچ“ کی اصطلاح ، جس سے یہ خوش گمانی پیدا ہوئی کہ اشتہار کے الفاظ میں ”ہمیشہ جاگتے رہنے والے بینک“ کی ایک کو چھوڑ کر باقی شاخیں بدستور بیدار رہیں گی ۔ دوسرے اِسی امکان کو تقویت دینے والا یہ مخلصانہ جملہ کہ ”ہم آپ کو اپنے تعاون و خدمات کا یقین دلاتے ہیں“ ۔
یہ سوچ کر کہ اکاﺅنٹ کی دوسری برانچ میں منتقلی بس ہمارے ایک آدھ دستخط کی مار ہو گی ، اب جو ٹائی شائی سمیت کوئے یار سے نکل کر سُوئے دار روانہ ہوئے تو پتا چلا کہ ”ہر راہ جو ادھر کو جاتی ہے، مقتل سے گزر کر جاتی ہے“۔ بینک کے کسٹمر ریلیشنز کاﺅنٹر پر ، جو سائلوں کی تعداد کے سبب پہلی بار ضلع کچہری کی دہلیز پر انصاف کا منظر پیش کر رہا تھا ، ایک انٹرنی نما خاتون نے ”بینک“ اور ”برانچ“ کے فرق کے بارے میں ابتدائی سوال سے زچ ہو کر مجھے کسی اور افسر کی طرف دھکیل دیا ۔ یہ صاحب پہلے تو میری اقتصادی بے خبری سے محظوظ ہوئے،پھر سمجھانے لگے کہ ایک ایک کر کے سب برانچیں بند ہوجانے کے بعد ایک یہی شاخِ نازک بچی تھی جس کے ناپائیدار آشیانہ پر اِس وقت کسی بینک افسر کے ہاتھ سے آپ امکانی طور پر اپنی زندگی کی آخری کافی پی رہے ہیں۔
گفتگو کی روشنی میں یہ منطق سمجھ میں آگئی کہ چند روز پہلے موصول ہونے والے خط کے مندرجات فنی طور پر صحیح تھے، جبکہ موجودہ تشریح عملی طور پر درست ہے۔ کہنے کو بند تو برانچ ہی ہو رہی ہے ، لیکن اس واحد برانچ کے خاتمے کا مطلب ہے کہ ملک بھر میں اس بینک نے اپنی دکان بڑھا لی ہے، جیسے1990ءکی دہائی میں میرے پاکستان چلے آنے کے بعد جب مقامی اخبار نویس ساتھی مجھے بیرونی نشریاتی ادارے کا بیورو چیف کہہ کر بلاتے تو مَیں دل ہی دل میں اِس تصور کا سہارا لے لیتا کہ ٹھیک ہے،میرا بیورو یک رکنی ہوا تو کیا ، بیورو تو پھر بھی ہے ۔ اِسی طرح لڑکپن میں اپنے سرکاری گھر کی ایک معزز ہمسائی بھی یاد آئیں، جنہوں نے گھریلو ملازمہ سمجھے جانے پر پڑوس کی ایک نوکرانی سے لہندی پنجابی کے لہجے میں اپنا یہ معصومانہ تعارف کرایا تھا کہ ”جنے! مَیں آپ ہی بیگم صاحب آں“۔
آپ میری معصومیت کو اداکاری سمجھتے ہوں تو پوچھ سکتے ہیں کہ تمہیں اوّل تو کسی ملٹی نیشنل بینک میںحساب کھولنے کی ضرورت ہی کیا تھی اور پھر ایسا کرنا ہی تھا تو ایک سیدھے سادے اکاﺅنٹ کی بجائے تین تین کھاتے کیوں کھولے گئے؟ اگر مَیں وہ والا شیر ہوتا، جس نے گیدڑ کی شراکت سے شکار مارنے کا بیوپار شروع کیا تھا تو اِس سوال کا جواب دینے کا مزا ہی آ جاتا، یعنی یہ کہ شکار کے تین حصوں میں سے ایک تو کاروباری سانجھ کے سبب میرا ہے ، دوسرے کا مالک مجھے یوں سمجھو کہ مَیں جنگل کا بادشاہ ہوں ، اب رہا تیسرا حصہ ، سو ہمت ہے تو اُٹھا کر دکھاﺅ ۔ یہ تو علم نہیں کہ آپ شیر کے حامی ہیں یا میرے ، لیکن مجھے تین اکاﺅنٹ اِس لئے کھولنا پڑے کہ جنگل کے بادشاہ کے برعکس ، میرے مسائل بڑے آدمی جیسے تھے اور وسائل چھوٹے آدمی والے ۔
بڑے آدمیوں کی سی پہلی بات تو یہ ہے کہ تنخواہ ولایت سے آنا تھی ، جس کے لئے وطن واپسی سے پہلے ہی ایک فارن کرنسی اکاﺅنٹ کھولنا ضروری ہو گیا ۔ لندن میں کسی نے کہا کہ دفتر کے ساتھ والی بلڈنگ میں چلے جاﺅ، یہی بینک ہے، جس کی شاخ لاہور میں بھی ہے ۔ چونکہ وطن میں روزمرہ اخراجات کے لئے پاکستانی روپے درکار ہوتے ہیں ، اس لئے بینک والے نے ترس کھا کر ایک اُردو میڈیم اکاﺅنٹ بھی کھول دیا ۔ اِس حد تک تو جائز تھا ، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاہور کے دفتر میں پھیلاﺅ آ گیا اور عمارت کے کرائے ، یوٹیلٹی بل، ٹرانسپورٹ اور مقامی اُجرتوں کے لئے ماہوار رقم وصول ہونے لگی تو معقولیت کا تقاضا پورا کرتے ہوئے اِسے ایک الگ کھاتے یا تیسرے اکاﺅنٹ میں ڈال دیا ۔ یہاں آپ کو گمان گزرے گا کہ ہو نہ ہو، انگلستان سے تو اِسے بڑی لمبی چوڑی تنخواہ آتی رہی ہو گی ۔
میرا جواب ولایتی طریقے کے مطابق بیک وقت ”ہاں“ اور ”نہیں“ میں ہے ۔ ”نہیں“ اِس لئے کہ پاکستان میں کام کرنے کے میرے مطالبے پر ایک نیا فارمولا طے پایا تھا ، جس کی رُو سے باہمی رضا مندی کے ساتھ مَیں پہلے کے مقابلے میں ایک تہائی مشاہرے کا مستحق ٹھہرا ۔ اساسی اُصول یہ تھا کہ میرا معاوضہ ایک اچھے پاکستانی روزنامہ کے ایڈیٹر کے برابر ہونا چاہئے ، مگر یہ ایک کم بیس سال پہلے کی بات ہے ،جب تنخواہوں کے سکیل پاکستانی رہن سہن کے مطابق تھے اور نئے چینلوں والے سات سات ہندسوں کے پیکیج محض لطیفہ ہی سمجھے جاتے تھے۔ ”ہاں“ اِن معنوں میں ہے کہ تنخواہ برطانوی پاﺅنڈ میں ملا کرتی جو کم و بیش40روپے کا تھا ، مگر لندن میں ایک پاﺅنڈ کا جو کچھ آتا، یہاں اتنی چیزیں دس روپے میں مل جاتیں۔ سو شرح تبادلہ کی بدولت میرے لئے ممکن ہو گیا کہ ’خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر“۔
اِس مالی ”دوغلے پن“ نے بعض عجیب و غریب تضادات بھی پیدا کئے ۔ مثال کے طور پر مَیں انکم ٹیکس اور نیشنل انشورنس ادا کرنے کے لئے جب سالانہ ریٹرن کی پڑتال حسب سابق انگریز اکاﺅنٹنٹ سے کراتا تو وہ حیران ہو کر پوچھتا کہ اتنی کم آمدنی میں تمہاری گزر بسر کیسے ہو رہی ہے؟ اسی طرح ، پاکستانی صحافی اگر کبھی مالی حیثیت کے بارے میں پو چھتے تو حتمی جواب سے دانستہ گریز کرنا پڑتا تاکہ میرے اعداد و شمار سے کسی احساسِ برتری کا اظہار نہ ہو ۔ کئی بار لاہور پریس کلب پہنچ کر موٹر اندر نہ لے جانے کا فیصلہ اِس لئے کرنا پڑا کہ صحن میں کھڑی دو تین کاروں کے مقابلے میں میرا ماڈل قدرے نیا لگتا تھا ۔ آج کل یہی احتیاط اپنا ماڈل بہت پرانا ہو جانے کے باعث کی جا رہی ہے۔
اِس دوران ہمارے شہری معاشرے میں جو ترقی ہوئی، اِس میں بہتر سڑکوں، زیادہ تعداد میں گاڑیوں اور ”کھابہ خانوں“ کے فروغ کے علاوہ رویوں کی تبدیلی کو بھی دخل ہے۔ جیسے ہمارے سکول کے زمانے میں لوگوں کو جنات چمٹ جانے کا رواج عام تھا ، مگر اب اِس رجحان کا گراف گرتے گرتے غائب ہی ہوتا جا رہا ہے ۔ ماضی کے مشاہدے کے مطابق،جب کسی کا جن نکالنا مقصود ہوتا تو کوالیفائیڈ ”جن مولوی“ یا اُن کی عدم دستیابی کی صورت میں ہاﺅس جاب سے فارغ التحصیل کسی ”پریکٹسنگ سائیں“ سے رجوع کیا جاتا ۔ جن نکالنے کا پروسیجرذرا فوجداری نوعیت کا تھا ۔ معالج دھونی دُھمانے اور ڈولی ”کھڈانے“ کے بعد چلاتا کہ ”اُﺅے ، جہڑا وی اے نکل جائے“ ۔ اِس پر مریض کے اندر چھپا ہوا ”پلے بیک سنگر‘ ‘نکلتے نکلتے اپنی کوئی نشانی چھوڑ جاتا ۔ گری ہوئی دیوار ، ڈھے جانے والی چھت یا اُکھڑا ہوا درخت اِسی قسم کی الوداعی تقریب کا ماحصل ہوتے ۔
آج کی دُنیا کے جنات کثیر قومی بینک ، مالیاتی ادارے اور بین الاقوامی سرمایہ کار ہیں ، جو پرُانے وقتوں کے جنوں کی طرح آپ کی جان چھوڑتے ہوئے کوئی نہ کوئی الوداعی نشانی ضرور دے جاتے ہیں ۔ مَیں نے ”خوش کلامی “ کے آغاز میں اپنے الوداعی تحفے کی مالیت سرخی نکالنے کے شوق میں چار سو روپے بتا دی تھی ۔ اگر حتمی اعداد و شمار پر جاﺅں تو جمعرات کے ریٹ کے مطابق فارن کرنسی اکاﺅنٹ کے73 پنس شامل کر کے یہ پوری رقم392روپے چار پیسے بنتی ہے ۔ مَیں نے اکاﺅنٹ کے کریا کرم کے لئے ، بینکنگ کی اصطلاح میں، اپنے کئی مہینوں سے ”خفتہ“ کھاتوں کو کیسے ”زندہ“ کیا اور یہ کیوں کہ پونجی نکلوا کر بھی ”ساغر کی تہہ میں قطرہ ءسیماب رہ گیا“ ۔ اِس کی وجہ بیان تو کر سکتا ہوں ، لیکن وہ نیا نویلا جن ناراض ہو جائے گا جو کل تنخواہ کی وصولی کے موقعے پر مجھے چمٹنے والا ہے ۔ ٭
