انتخابات....مگر کیوں!
یہ سوال ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کے عوام کو تقسیم کر رہا ہے کہ آیا اگلے عام انتخابات منعقد ہوں گے یاملتوی !
ملک کی سیاسی صورت حال ایک معلق صورت حال بنتی جا رہی ہے اوراگر 14جنوری کو شیخ الاسلام علامہ طاہرالقادری اسلام آباد میں 40لاکھ لوگوں کا اجتماع کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ تقسیم گہری ہی نہیں سنجیدہ رخ بھی اختیار کر سکتی ہے !
اس میں شک نہیں کہ علامہ طاہرالقادری کی جانب سے سیاست نہیں ریاست بچاﺅ کا نعرہ لگتے ہی کمزور اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہو گئی ہے، 23 دسمبر کے جلسے نے اسے نئی قوت دی ہے جس میں علامہ نے اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کے سیاسی عمل کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا ہے، ان کے اس بظاہر آئینی مطالبے کے غیر آئینی نتائج نکل سکتے ہیں ، علامہ ایسا تاثر نہ دیںکہ 18کروڑ عوام ایک طرف اور دو ادارے ایک طرف!
یہ امر البتہ دلچسپ ہے کہ علامہ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 254کی تشریح کو ملک کے سیاسی و آئینی حلقوں سے مطلوبہ پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی ہے اور میڈیانے ، جس کے لئے علامہ نے بطور خاص یہ لقمہ تیارکیا تھا، اسے کچھ زیادہ درخور اعتنا نہیں جانا ہے، اسی طرح سے علامہ کی جانب سے 20ویں آئینی ترمیم کی تشریح بھی مضحکہ خیز ہے جس میں نگران سیٹ اپ کے لئے لیڈر آف دی ہاﺅس اور لیڈر آف دی اپوزیشن کی مشاورت کو انہوں نے دو سیاسی پارٹیوں کا مک مکا قرار دیا ہے ،جبکہ آئین میں کہیں بھی ان دو سیاسی پارٹیوں کا کوئی ذکر نہیں، علامہ یا تو اس بات کو سمجھنا نہیں چاہتے یا پھر انہیں سمجھ نہیں آرہا کہ آئین کا مطلوب و مقصود صرف لیڈر آف دی ہاﺅ س اور لیڈر آف دی اپوزیشن ہے، ہو سکتا ہے کل خود علامہ صاحب یا پھر عمران خان ان دو میں سے کسی ایک پوزیشن پر فائز ہوں، تو کیا تب بھی یہ مک مکا ہی کہلائے گا، یوں بھی آئین اگر جلسوں میں پڑھانا ہے تو کلاس روموں میں عشق ممنوع ہی چلے گا!
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اگلے عام اتنخابات عالمی اسٹیبلشمنٹ کے لئے ہضم کرنا آسان نہیں ، وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کے عوام میں امریکہ مخالف جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں اور حق رائے دہی کے استعمال کے نتیجے میں ایسی سیاسی قوتیں برسراقتدار آجائیں گی جو امریکہ مخالفت کی بنا پر مقبول ہیں ، ایسے میں نیٹو افواج کے لئے اس علاقے میں کھل کھیلنے کا موقع محدود ہو جائے گاکیونکہ ن لیگ ہویا تحریک انصاف، دونوں ہی ڈرون حملوں کے خلاف ہیںاور دونوں ہی اچھے اور برے طالبان میں تفریق کی قائل ہیںاور پرامن مذاکرات کو ہی مسئلے کا حل سمجھتی ہیںجبکہ صدر آصف زرداری کے بارے میں اخبارات میں چھپ چکا ہے کہ انہوں نے امریکیوں سے کہا ہوا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف کاروائیاں جاری رکھیں ، پاکستان محض زبانی مخالفت کرتا رہے گا!
اب اگر پاکستان میں امریکہ مخالف سیاسی جماعتیں اگلا الیکشن جیتتی ہیں تو عالمی اسٹیبلمشنٹ ایسی جماعتوں کی حمایت طالبان کے حق میں فرض کرکے یقینی طور پر پاکستان میں التحریر اسکوائر جیسی نقشے بازی کرنا چاہے گی ،جس کا اشارہ صدر زرداری نے اپنی تقریر میں کیا ہے کہ پاکستان میں کسی مصری ماڈل کی گنجائش نہیںہے، ادھر شیخ الاسلام علامہ طاہرالقادری بھی سیاسی لیڈرشپ کو نام لے کر برابھلا نہیں کہہ رہے بلکہ وسیع تر معنوں میں نظام کی خرابی کی بات کر رہے ہیں، ان کے نزدیک آئین کے آرٹیکل 62اور 63پر عمل ہونا چاہئے جو کم از کم اس کرئہ ارض پر تو کسی ملک میں ابھی تک نہیں ہو سکا ہے کیونکہ ان دو آرٹیکلوں میں درج خوبیوں کو کسی ترازو میں ڈال کر تولا نہیں جا سکتا ، اس کے برعکس یہ کسی بھی سیاسی امیدوار کا مجموعی امیج ہوتا ہے جو میرے نزدیک مثالی اور آپ کے نزدیک گالی کے مترادف ہو سکتا ہے!
اگلے انتخابات سے قبل ایک اور بحث یہ بھی شروع کی گئی ہے کہ انتخابات میں ایسے Electablesجیت کر آجاتے ہیں جو کرپٹ ہیں ، جبکہ دیکھا جائے تو امریکہ میں بھی پرانے لوگ ہی جیت کر آئے ہیں ، یہاں تک کہ وہاں صدر بھی پرانا ہی ہے ، لیکن پاکستان میں اس کی نفی کی جا رہی ہے اور کبھی نوجوانوں کو پارلیمنٹ میںلانے کی بات کی جاتی ہے تو کبھی صالح اور ایماندار لوگوں کو!حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی انتخابی عمل میں مضبوط امیدوار ہی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اسی خوبی کو سیاسی نظام کی خامی کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے جوعوام کے حق رائے دہی کی توہین کے مترادف ہے کیونکہ یہ عوام کا حق ہے کہ وہ جسے چاہےں منتخب کریں اور جسے چاہے مسترد کریں، جیسے انہوں نے راولپنڈی میں شیخ رشید کے مقابلے میں ایک عام پارٹی ورکر کو منتخب کرنا زیادہ ضروری سمجھا، لیکن وہ عام ورکر بھی آج تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے کیونکہ وہ ایک ایسی مقبول سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے جیت گیا ہے جس کے پاس Electablesکی تعداد سب سے زیادہ ہے!
ان حالات میں اگلے عام انتخابات کا انعقاد پاکستان کے سیاسی حلقوں، سیاسی جماعتوں اور عوام کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں، ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس قسم کا پاکستان چاہتے ہیں،یہ فیصلہ جلد ہونا چاہئے ورنہ معلق شدہ وقت کی بے رحم تلوار کسی وقت بھی ہمارے سروں پر گرسکتی ہے!
