ہائر ایجوکیشن کمیشن کا سکالر شپس میں جنوبی پنجاب سے امتیازی سلوک

ہائر ایجوکیشن کمیشن کا سکالر شپس میں جنوبی پنجاب سے امتیازی سلوک
ہائر ایجوکیشن کمیشن کا سکالر شپس میں جنوبی پنجاب سے امتیازی سلوک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جرمنی اور فرانس سے ملنے والی 8 کروڑ کی 400 سکالر شپس میں جنوبی پنجاب کی یونیورسٹیوں کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے ۔جرمنی کے سفیر سیریل نن اور ایچ ای سی کے قائم مقام چیئر پرسن امتیاز حسین گیلانی کے مابین میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا، جس کے مطابق جرمنی اور فرانس کی جانب سے ایچ ای سی کو پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں فروغ تعلیم کے لئے طلبہ کو 8کروڑ مالیت کے 400 سکالر شپس دیئے گئے، لیکن ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ان تمام سکالر شپس کے لئے جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقہ کی یونیورسٹیوں کا انتخاب نہیں کیا ۔ جرمنی کی جانب سے دیئے جانے والی 4 کروڑ مالیت کے 200سکالر شپس کے لئے، جن دس یونیورسٹیوں کا انتخاب کیا گیا ہے، ان میں سے 4 کا تعلق قائم مقام چیئرمین ایج ای سی امتیاز حسین گیلانی کے صوبے سے ہے۔ ان یونیورسٹیوں میں یونیورسٹی آف انجینئر نگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور ، کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ، یونیورسٹی آف ہری پور اور فرنٹیر وومن یونیورسٹی پشاور شامل ہیں۔
دو وفاقی یونیورسٹیاں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور کام سیٹ یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اسلام آباد اور اپر پنجاب کی دو، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور اور بلوچستان کی لسبیلہ یونیورسٹی اور سردار بہادر خان یونیورسٹی شامل ہیں۔ اس سے قبل فرانس سے ملنے والی 4 کروڑ کی 200 سکالر شپس میں بھی جنوبی پنجاب کی جامعات کو نظر انداز کر دیا گیا۔ فرانس سے ملنے والی سکالر شپس میں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد ، کام سیٹ یونیورسٹی آف انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد، انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی اور قراقرم یونیورسٹی گلگت شامل ہے ۔
جرمنی سے ملنے والی سکالر شپس میں جنوبی پنجاب ، کراچی اور سندھ کو نظر انداز کیا گیا، جبکہ فرانس سے ملنے والی سکالرشپ میں بھی جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کو نظر انداز کیا گیا، کراچی سے صرف آئی بی اے کو شامل کیا گیا ۔ وفاقی وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت انجینئر بلیغ الرحمن کا تعلق بھی جنوبی پنجاب سے ہے، لیکن اس کے باوجود جنوبی پنجاب کی کسی یونیورسٹی کا انتخاب نہیں کیا گیا۔ جنوبی پنجاب کے پسماندہ شہروں ملتان ،بہاولپور ، وہاڑی، ڈی جی خان وغیرہ کو سرے سے نظر انداز کیا گیا۔ جنوبی پنجاب کو سکالر شپس میں نظر انداز کرنا اس پسماندہ خطہ کے عوامی نمائندوںکی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ؟
ہزاروں سال پہلے ایک یونانی دانشور نے کہا تھا کہ بہترین معاشرہ وہ ہوتا ہے، جس میں ظلم سے محفوظ رہنے والے لوگ بھی ظلم کے خاتمے اور ظالم کو سزا دلوانے کے لئے اتنی ہی دلچسپی اور سر گرمی کا مظاہرہ کریں، جتنا ظلم رسیدہ خاندان، افراد یا گروہ اس ظالم کے خلاف سر گرم عمل ہو ۔ ایک پاکستانی چاہے پہاڑ کی آغوش میں رہتا ہو یا صحرا کی گود میں، میدانوں کے سینے پر رہتا ہو یا لب سمندر، اگر ہر شخص کو برابر کا پاکستانی اور مساوی حقوق کا حقدار تسلیم نہیں کیا جاتا تو پاکستانیت کیسے فروغ پا سکتی ہے؟

مزید :

کالم -