وکیل صاحب چھیتی چھیتی کرو

وکیل صاحب چھیتی چھیتی کرو
وکیل صاحب چھیتی چھیتی کرو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ بات صحت سے کہی جاسکتی ہے کہ کم از کم جہانگیر کے دور تک تیز رفتار انصاف دلانے کے لیے فوجی عدالتوں کا تصور نہیں تھا۔ اسی لیے جہانگیر کو محل کے باہر زنجیر لگا کر بڑی سی گھنٹی باندھنی پڑی۔ قریب ہی ہاتھیوں کا باڑہ بھی تھا تاکہ باغیوں اور قاتلوں کو فوراً کچلوایا جاسکے۔ ہمیں انصاف سے بھی تیز رفتار فوجی عدالتوں کا تصور کہیں میرتقی میر کے دورِ طوائف الملوکی میں جا کے ملتا ہے۔ اسی لیے کہنا پڑا:
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

ایک رہنما تو اسلام آباد میں نیشنل ایکشن پلان وضع کرنے والے کْل جماعتی اجلاس میں کہہ ہی چکے ہیں کہ امریکہ نے بھی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان امریکی فوجی عدالتوں نے جو سزائیں سنائیں وہ بھی ٹھیک ہیں تو پھر گوانتانامو قیدی کیمپ پر اتنا شور کاہے کو؟اسرائیل کی فوجی عدالتیں پچھلے 20 برس میں ایک لاکھ بائیس ہزار سے زائد فلسطینیوں کو مختلف المیعاد سزائیں سنا چکی ہیں۔ اس پر اتنا واویلا کیوں؟ مصر میں پچھلے دو برس سے قائم خصوصی فوجی عدالتیں اتنے ملک دشمنوں کو سزائے موت سنا چکی ہیں جتنی سزائیں حسنی مبارک کی 20 سالہ آمریت میں بھی نہیں سنائی گئیں۔ یہ بھی کہیے ٹھیک ہے۔چونکہ تیز رفتار فوجی عدالتوں کے سوا فوری انصاف کے حصول کا بظاہر کوئی موثر طریقہ نہیں لہٰذا سنہ 1857 میں انگریزوں نے ہندوستان میں جو فوجی عدالتیں لگائیں ان کے سزا یافتگان کو قومی ہیرو سمجھنے سے گریز کیجیے اور پھر سنہ 1919 میں جلیانوالہ باغ کے سانحے کے بعد لگنے والی مارشل لا عدالت کے قرار دیے گئے مجرموں کو بھی مجرم ہی سمجھیے۔
آپ کہیں گے کہ تم نو آبادیاتی دور میں جدوجہدِ آزادی دبانے کے لیے انگریزی فوجی عدالتوں کی گمراہ کن مثالوں سے ہمیں کیوں کنفیوز کررہے ہو۔ چلیے کنفیوز نہیں کرتے لیکن آپ کم از کم یہ تو مانیں گے کہ ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیا الحق کی فوجی عدالتوں نے جو فیصلے کیے وہ ٹھیک تھے۔تب ہی تو آپ نے سنہ 2014 میں بھی فوجی عدالتیں لگانے کا متفقہ فیصلہ کیا اور اس فیصلے میں دورِ ضیا کی فوجی عدالتوں کے مثالی انصاف سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والی پیپلز پارٹی بھی شامل ہے۔ دورِ ضیا میں ہی پیپلز پارٹی کے ایک روپوش کارکن نے مجھے یہ قصہ سنایا تھا کہ جب عدالت کے رو برو ملزم کے وکیل کی تقریرِ بے گناہی طول پکڑنے لگی تو صدر نشین کرنل صاحب نے پہلو بدلتے ہوئے کہا ’وکیل صاحب گل چھیتی چھیتی مکاؤ۔اسی سزا وی دینی اے‘۔کہا یہ جا رہا ہے پاکستان کی فوجی عدالتیں صرف دہشت گردوں کو انصاف دیں گی۔ سیاسی کارکنوں کو کچھ نہیں ہوگا۔ (ہائے میرسے سادو، میں تمہارے قربان)۔

سوال یہ ہے کہ جس ناقص انٹیلیجنس نظام اور پولیس تفتیش کی ناکامی سے تنگ آ کر فوجی عدالتیں قائم کی جا رہی ہیں ان کی آنکھیں، ناک اور کان بھی تو یہی ناقص انٹیلیجنس نظام اور پولیس ہوگی۔ (اگر مریخ سے تفتیش کار لائے جا رہے ہیں تو اور بات ہے)۔عدالتیں فوجی اور تفتیشی نظام وہی فرسودہ۔گویا یوں ہے جیسے آپ نیا کرتا پہننے کی خوشی میں نیا پاجامہ پہننا بھول جائیں۔سب سیاسی جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ حالات ہی ایسے ہیں کہ ہمیں فوجی عدالتوں کا کڑوا گھونٹ پینا پڑ رہا ہے لیکن جو آپ کے لیے کڑوا گھونٹ ہے وہ انصاف کے لیے میٹھا گھونٹ کیسے ہوسکتا ہے؟ جس نظام پر خود آپ کو ہی تحفظات ہیں اس پر قوم کیسے اعتماد کرلے؟ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کے ججوں کو اتنی ہی سیکورٹی اور سہولتیں دیجیے جتنی کسی میجر یا کرنل جج کو ملتی ہیں تب دیکھیے انصاف کی رفتار مگر یہ بلڈی سویلینز کسی قابل ہیں کہاں؟
کہا جا رہا ہے کہ فوجی عدالتیں صرف دو برس کے لیے قائم کی جا رہی ہیں اور اگر دو سال کے اندر دہشت گردی ختم نہ ہوئی تو پھر؟ کیا کسی کو یاد نہیں کہ ضیا الحق 90 دن کے لیے تشریف لائے تھے۔ کیا سب بھول گئے کہ سنہ 1989 میں کراچی کے حالات معمول پر لانے کے لیے رینجرز کو صرف چھ ماہ کی ابتدائی مدت کے لیے لایا گیا تھا۔ آج اس بات کو خیر سے 25 برس ہو چلے مگر آپریشن کراچی جاری ہے۔تو پھر اوپر سے نیچے تک اتنی اینگلو سیکسن اور شرعی عدالتوں اور انسدادِ دہشت گردی کے خصوصی ٹرایبونلز کے سینکڑوں ججوں اور ان کے ہزاروں امدادی اہلکاروں پر اس قدر پیسہ کیوں لٹایا جا رہا ہے؟ فارغ کیجیے انھیں تاکہ قومی خزانے کا بوجھ کم ہو جہاں فوج سویلینز کے کرنے کے اور بہت سے کام کر رہی ہے یہ بھی کر لے گی۔ آپ بس تقریر پر ہی توجہ رکھیے۔اب جب کہ فوجی عدالتیں قائم ہو رہی ہیں تو امید ہے مزید لوگ لاپتہ نہیں ہوں گے۔ انھیں باقاعدہ گرفتار کر کے فردِ جرم عائد کی جائے گی اور کھلا مقدمہ چلایا جائے گا۔ بھلے فوجی عدالت ہی میں چلے؟ کیا یہ امید بہت زیادہ تو نہیں؟(بشکریہ، بی بی سی اردو ڈاٹ کام)

مزید :

کالم -